بنوقریظہ کی گڑھیوں پر سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سرکردگی میں ایک لشکر بطور مقدمۃ الجیش پہنچا. بنوقریظہ یہ سمجھے کہ یہ ہمیں محض دھمکانے آئے ہیں. وہ اُس وقت تک تو بڑے طنطنے میں تھے. انہوں نے اپنے کوٹھوں پر چڑھ کر نبی اکرم  اور مسلمانوں کی شان میں گستاخیوں کی بوچھاڑ کر دی. لیکن جب نبی اکرم  کی قیادت میں پورے اسلامی لشکر نے وہاں پہنچ کر ان کی بستی کا محاصرہ کر لیا تو ان کے ہوش ٹھکانے آئے. انہوں نے عین آڑے وقت اور پرخطر حالات میں معاہدہ توڑ ڈالا تھا اور مدینہ کی پوری آبادی کو ہلاکت خیز خطرے میں مبتلا کر دیا تھا.اس طرح انہوں نے پشت سے خنجر گھونپنے کی پوری تیاری کر لی تھی. یہ تو حضرت ِ نعیم کی جنگی چال اور حکمت عملی تھی‘ جس سے وہ مات کھا گئے. ان کا جرم کسی طور پر بھی قابلِ عفو نہیں تھا اور ان کو قرار واقعی سزا ملنی چاہئے تھی.

جب محاصرے کی شدت ‘جو دو تین ہفتے جاری رہی‘ ان کے لئے ناقابل برداشت ہو گئی تو انہوں نے اس شرط پر ہتھیار ڈالنے اور خود کو نبی اکرم کے حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کی کہ قبیلۂ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم بنایا جائے‘ وہ ان کے متعلق جو بھی فیصلہ کریں وہ فریقین تسلیم کر لیں. انہوں نے حضرت سعدؓ کو اس توقع پر حَکَم بنانے کی تجویز رکھی تھی کہ اوس اور بنو قریظہ کے مابین مدتوں سے حلیفانہ تعلقات چلے آ رہے تھے. ان کو امید تھی کہ وہ ان کا لحاظ کریں گے اور بنوقینقاع اور بنونضیر کی طرح ان کو بھی اپنے ساز و سامان اور مال و اسباب کے ساتھ مدینہ منورہ سے نکل جانے کا فیصلہ کریں گے. حضرت سعدؓ کو خندق میں دشمنوں کا ایک تیر لگ گیا تھا اور وہ شدید زخمی تھے. نبی اکرم نے ان کے علاج معالجہ کے لئے مسجد نبوی میں ایک خیمہ لگوا رکھا تھا. حضور خود ان کی تیمارداری فرما رہے تھے اور آپؐ نے خود اپنے ہاتھ سے ان کے زخم کو داغا تھا. حضور کو حضرت سعدؓ سے بہت محبت تھی. انصار میں دو سعد تھے. ایک سعدؓ بن معاذ جو قبیلۂ اوس کے رئیس تھے اور دوسرے سعدؓ بن عبادہ جو قبیلۂ خزرج کے رئیس تھے. خود حضرت سعدؓ بن معاذ کو بھی نبی اکرم سے انتہائی محبت تھی. ان کی بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرح فدویت کی کیفیت تھی.