زیرِدرس رکوع کی بقیہ دو آیات کا تعلق اسی بنوقریظہ کے واقعہ سے ہے‘ اس لئے میں نے قدرے تفصیل سے صورت حال واضح کرنے کی کوشش کی ہے جو ان آیات کے پس منظر سے براہِ راست متعلق ہے. اب ان آیات کا مطالعہ کیجئے. فرمایا:

وَ اَنۡزَلَ الَّذِیۡنَ ظَاہَرُوۡہُمۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ مِنۡ صَیَاصِیۡہِمۡ وَ قَذَفَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الرُّعۡبَ فَرِیۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ وَ تَاۡسِرُوۡنَ فَرِیۡقًا ﴿ۚ۲۶
’’اور اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے ان حملہ آوروں کا ساتھ دیا تھا (یعنی بنو قریظہ) تو اللہ ان کی گڑھیوں سے انہیں اتار لایااور ان کے دلوں میں اُس نے ایسا رعب ڈال دیا کہ ان میں سے ایک گروہ کو تم قتل کر رہے ہو اور دوسرے کو قید کر رہے ہو.‘‘

بنو قریظہ پہلے تو محاصرے کی حالت میں اپنے قلعوں پر چڑھے رہے لیکن دو تین ہفتوں سے زیادہ سہار نہ سکے اور اللہ تعالیٰ ان کو ان کے قلعوں سے نیچے اتار لایا. یہاں ظَاہَرُوْھُمْ کا لفظ قابل توجہ ہے. اس کی اصل ظھر ہے. باب مفاعلہ میں اس سے مظاھرۃ بنتا ہے. ظھر پیٹھ کو کہتے ہیں. پچھلے زمانے میں آخری مقابلہ پیٹھ سے پیٹھ جوڑ کر ہوتا تھا. اگر کوئی چھوٹی سی نفری کسی بڑی نفری کے گھیرے میں آ جاتی تھی تو چھوٹی نفری والے باہم پیٹھ سے پیٹھ جوڑ کر لڑا کرتے تھے. اس طرح اس کا مفہوم ہو گا کسی مقصد کے غلبہ کے لئے یک جان ہو کر کام کرنا اس لئے میں نے اس آیت کی ترجمانی میں ’’حملہ آوروں کا ساتھ دینا‘‘ کے الفاظ استعمال کئے ہیں. ’’صیص‘‘ کی لغوی بحث کو بھی سمجھ لیجئے. صیص مرغ کے پنجے کو کہتے ہیں‘ اس کی جمع ’’صیاصی‘‘ ہے. چونکہ مرغ اپنے پنجوں سے دفاع کرتا ہے‘ لہذا عرب اس لفظ کو استعارتاً دفاعی قلعوں اور گڑھیوں کے لئے استعمال کرنے لگے بنوقریظہ نہ تو حملہ آوروں کا ساتھ دے سکے اور نہ ان کے قلعے ان کو پناہ دے سکے اور وہ ان سے نیچے اترنے اور باہر نکل کر خود کو نبی اکرم  کے حوالے کرنے پر مجبور ہو گئے.

اللہ نے ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیاکہ اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہو گئے.آپ غور کیجئے کہ اگر وہ دوبدو لڑنے کا فیصلہ کرتے تو ان کے جو چھ سات سو مرد قتل ہوئے تھے یہ سو دو سو مسلمانوں کو بھی شہید کر سکتے تھے. انہوں نے جو ساز وسامان جمع کر رکھا تھا‘ اس کی تفصیل میں بیان کر چکا ہوں‘ لیکن اسلحہ استعمال کرنے کے لئے ہمت اور جو ش و ولولہ درکار ہوتا ہے. جب کسی قوم کو ’’ وھن‘‘ کی بیماری لگ جاتی ہے ‘یعنی حُبِّ دُنیا اور موت کا خوف ‘تو یہ حال بھی ہوتا ہے کہ میزائل تک دھرے رہ جاتے ہیں اور فوج کو ان کے بٹن دبانے کی جرأت نہیں ہوتی اور وہ جان بچانے کے لئے اپنی جوتیاں چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے.یہ معاملہ کئی مواقع پر مسلمانوں کے ساتھ بھی ہو چکا ہے. صحرائے سینا سے مصری فوج اسرائیل کے حملے کے وقت بھاگ گئی تھی. اسی طرح فتنہ تاتار کے دور میں جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو تاریخ بتاتی ہے کہ بغداد کے بازاروں میں سو مسلمان کھڑے ہوتے تھے اور ایک تاتاری آکر ان سے کہتا تھا کہ میرے پاس اس وقت تلوار نہیں ہے‘ میں یہ لے کر آتا ہوں‘ خبردار! کوئی اپنی جگہ سے نہ ہلے اور وہ تلوار لے کر آتا تھا اور ایک ایک کی گردن مارتا تھا اور کسی کو جرأت نہیں ہوتی تھی کہ اس کا ہاتھ پکڑ لے. بنوقریظہ میں جرأت و ہمت ہوتی تو حضرت سعدرضی اللہ عنہ کے فیصلے کے بعد بھی یہ کر سکتے تھے کہ یکبارگی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں کہ ہمیں تو مرنا ہی ہے‘ سو پچاس کو ساتھ لے کر مریں گے ‘ لیکن اللہ نے ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈالا کہ بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح ہو گئے.ان کے مرد قتل کئے گئے اور ان کی عورتیں‘ بچے اور بچیاں غلام اور لونڈیاں بنائی گئیں. 

اس پوری صورت حال پر صرف ایک آیت میں تبصرہ فرما دیا گیا:
وَ اَوۡرَثَکُمۡ اَرۡضَہُمۡ وَ دِیَارَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ وَ اَرۡضًا لَّمۡ تَطَـُٔوۡہَا ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرًا ﴿٪۲۷
’’اور اللہ نے تمہیں ان کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے اموال کا وارث بنا دیا اور وہ علاقہ تمہیں دے دیا جسے تم نے پامال نہیں کیا تھا ‘اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے.‘‘

بنو قریظہ ایک بڑایہودی قبیلہ تھا‘ بہت مالدار اور سرمایہ دار ان کے بڑے بڑے باغات اور بڑی بڑی حویلیاں تھیں‘ بے شمار مال و متاع تھا یہ پورا علاقہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بغیر لڑے بھڑے عطا کر دیا. جنگ تو ہوئی ہی نہیں. صرف محاصرے کے نتیجے میں یہ سب کچھ ہاتھ آ گیا. اس زمین پر گھوڑے دوڑے ہی نہیں کہ وہ پامال ہوتی.

اس رکوع کا اختتام ہوتا ہے ان الفاظ مبارکہ پر وَ کَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرًا ﴿۲۷﴾ اور واقعہ یہ ہے کہ اس مضمون کا اس سے جامع اختتام ممکن ہی نہیں تھا.غزوۂ احزاب کی پوری صورتِ واقعہ اور بنو قریظہ کا خاتمہ‘ یہ تمام امور اللہ تعالیٰ کی قدرتِ مطلقہ کی شان کے مظاہر ہی تو تھے. سورۃ یوسف میں فرمایا: وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴿﴾ ’’ اللہ غالب ہے ‘ وہ اپنا کام کر کے رہتا ہے‘ لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں.‘‘اگر لوگوں کو یہ یقین قلبی ہو جائے تو اسی سے مانگیں‘ اسی سے جڑیں‘ اسی کے دامن سے وابستہ ہو جائیں. انہیں تو ان وسائل اور اسباب پر یقین و توکل ہوتا ہے جو ان کی دسترس میں ہوں. نبی اکرم : نے فرمایا: 

اَلزَّھَادَۃُ فِی الدُّنْیَا لَیْسَتْ بِتَحْرِیْمِ الْحَلَالِ وَلَا اِضَاعَۃِ الْمَالِ َولٰـکِنَّ الزَّھَـادَۃَ فِـی الدُّنْیَا اَنْ لاَّ تَکُـوْنَ بِمَا فِـیْ یَدَیْکَ اَوْثَـقَ مِمَّا فِـیْ یَدَیِ اللّٰہِ (سنن الترمذی‘ کتاب الزھد)
’’دنیا میں زہد اس چیز کا نام نہیں ہے کہ تم حلال کو اپنے اوپر حرام کر لو اور مال کو ضائع کرو‘بلکہ دراصل زہد یہ ہے کہ اللہ پر تمہارا اعتماد و توکل اس سے زیادہ ہو جو تمہارے اپنے ہاتھ میں ہے‘‘ .

اگر تم اپنے وسائل‘ اپنے ذرائع‘ اپنی صلاحیتوں‘ اپنی ذہانت اور اپنی قوت کو مقدم رکھو گے اور ان پر تکیہ کرو گے تو تم کو زہد چھو کر بھی نہیں گیا. لیکن اگر تم کو اللہ کی توفیق‘ اللہ کی تائید‘ اللہ کی نصرت اور اللہ کی قدرت پر ہی ا عتماد و توکل اور بھروسہ ہو جائے تو یہ اصل زہد ہے.

اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ ہم نے آج اس رکوع کا مطالعہ ختم کر لیا. جیسا کہ میں نے ابتدا ہی میں عرض کیا تھا کہ ہم اس رکوع کے مطالعہ کے بعد نبی اکرم کی سیرت مطہرہ کی روشنی میں آپؐ کے اُس ’’اُسؤہ حسنہ‘‘ کو مجموعی طور پر سمجھنے کی کوشش کریں گے جو غزوۂ احزاب کے پس منظر میں اس رکوع میں بیان ہوا ہے. پورے قرآن مجید میں رسول اللہ‘ کے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ کا تذکرہ اسی ایک مقام پر کیا گیا ہے.میں عرض کر چکا ہوں کہ شخصی طور پر تو نبی اکرم‘ پر خود آپؐ کے ارشاد کے مطابق سب سے سخت دن ’’یوم طائف‘‘ گزرا ہے‘ لیکن بحیثیت مجموعی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی جماعت پر سب سے زیادہ ابتلاء و آزمائش کا مرحلہ یہ غزوۂ احزاب ہے‘ جس میں جانی نقصان تو اگرچہ بہت کم ہوا لیکن اس محاصرے کے دوران ‘جو تقریباً ایک ماہ تک جاری رہا‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کو جن شدائد و مصائب اور تکالیف سے سابقہ پیش آیا ان کو بجاطور پرابتلاء کا نقطۂ عروج کہا جا سکتا ہے. اس کی شہادت خود اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ دی ہے: ھُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالاً شَدِیْدًا ﴿﴾ 
آج کا یہ درس ان لوگوں کے لئے انتہائی سبق آموز ہے جو بفضلہ تعالیٰ شعوری طور پر یہ بات جان چکے ہیں کہ اعلائے کلمۃ اللہ ‘اظہار دین الحق اور اقامت دین‘ نبی اکرم  کے ہر امتی پر فرض ہے. میں کوشش کروں گا کہ اپنی تقریر میں حضور کے اُسوۂ حسنہ کے مختلف پہلو اجاگر کروں. اللہ تعالیٰ ہمیں نبی اکرم کے اسوۂ حسنہ کے اتباع اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نقش قدم کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے.

اَقُوْلُ قَوْلِیْ ھٰذَا وَاسْتَغْفِرُاللّٰہَ لِیْ وَلَکُمْ وَلِسَائِرِ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ