واقعہ یہ ہے کہ میں نے اس مسئلہ پر کافی طویل عرصے تک بہت غور کیا ہے اور آپ کوبھی غور و فکر کی دعوت دیتا ہوں کہ آنحضورﷺ نے مختلف مواقع اور اوقات میں صحابہ ؓ سے جو بیعتیں لی ہیں‘ ان کی کیا ضرورت تھی؟نبی اکرمﷺ تو اپنی ذات میں خود مطاع ہیں ‘پھر بیعت کی ضرورت کیا ہے؟ غزوۂ بدر سے پہلے جو مشاورت ہوئی ہے کہ آیا قافلے کا رخ کیا جائے جس میں صرف پچاس نفوس ہیں یا اُس لشکر کا جو پوری طرح کیل کانٹے سے لیس اور ایک ہزار جنگجوؤں پر مشتمل ہے‘ تو اسی موقع پر ہی تو حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ‘جو قبیلہ خزرج کے سرداروں میں سے تھے‘ یہ بات کہی تھی کہ: اِنَّا آمَنَّا بِکَ وَصَدَّقْنَاکَ یعنی حضور! ہم آپؐ پر ایمان لا چکے‘ آپؐ کی بحیثیت رسول اللہ تصدیق کر چکے‘ اب کوئی Option ہمارے لئے کہاں رہ گیا ہے؟ انہوں نے مزید عرض کیا کہ آپ ہمیں ساحل کے کنارے کھڑے ہو کر سمندر میں چھلانگ لگانے کا حکم دیجئے ‘ہم تعمیل کریں گے آپ ہمیں برک الغماد تک (جو یمن کا ایک دوردراز علاقہ ہے) چلنے کا حکم دیجئے‘ ہم چلیں گے ‘چاہے ہماری اونٹنیاں لاغر ہو جائیں لیکن اس کے باوجود مختلف مراحل پر آپؐ نے بیعتیں کیوں لیں؟ اس سوال کے جواب کو اس وضاحت سے سمجھئے جو میں پہلے پیش کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر تھا کہ عرب میں انقلاب بھی آ جاتا اور اپنے محبوبﷺ کے پائے مبارک میں ایک کانٹا بھی نہ چبھتا. اللہ نے ایسا نہیں کیا کیوں نہیں کیا؟ اس لئے نہیں کیا کہ نبی اکرم ﷺ کی اسلامی انقلاب کی انسانی سطح پر جدوجہد ہمارے لئے نمونہ بنے.اسی طرح صحابہ کرام ؓ سے حضورﷺ کو کسی بھی موقع پر بیعت لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن بایں ہمہ آپؐ نے بیعتیں لیں تاکہ امت کو معلوم ہو جائے کہ اسلامی نظم جماعت کی بنیاد بیعت ہے.
حدیبیہ کے موقع پر جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کی خبر پہنچتی ہے تو نبی اکرمﷺ صحابہ کرامؓ کو دعوت دیتے ہیں کہ کون عثمانؓ کے خون کا قصاص لینے کے لئے میرے ہاتھ پر سرفروشی کی بیعت کرتا ہے! اس پکار پر چودہ سو جان نثار صحابہ کرامؓ لبیک کہتے ہیں. وہ تو حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر ہی غلط نکلی ورنہ صحابہ کرامؓ نے توجان فروشی کے لئے خود کو پیش کر ہی دیا تھا. اسی بیعت کا نام ’’بیعت رضوان‘‘ ہے‘جس کا ذکر سورۃ الفتح میں بڑے مہتم بالشان طریقے سے دو جگہ آیا ہے. آیت نمبر ۱۰ میں فرمایا:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ ؕ یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ ۚ
’’(اے نبیؐ ) جو لوگ آپ سے بیعت کر رہے تھے‘ وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے‘ ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ تھا‘‘.
آگے آیت نمبر ۱۸ میں ان بیعت کرنے والوں کو بایں الفاظ بشارت دی جاتی ہے :
لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحۡتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ فَاَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ عَلَیۡہِمۡ وَ اَثَابَہُمۡ فَتۡحًا قَرِیۡبًا ﴿ۙ۱۸﴾
’’اللہ ان مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے (اے نبی!) آپ سے بیعت کر رہے تھے. اللہ کو ان کے دلوں کا حال معلوم تھا. اسی لئے اس نے ان پر سکینت نازل فرمائی اور ان کو قریبی فتح بخشی ‘‘ .
بیعت عقبہ ثانیہ ہو رہی ہے کہ آپ سے عرض کیا جاتا ہے کہ حضور آپ مدینہ تشریف لے آئیے ‘ہم آپ کی اس طرح حفاظت کریں گے جیسے اپنے بال بچوں کی کرتے ہیں. بیعت کرنے والے وہ ہیں جو پہلے ہی سے ایمان لا چکے ہیں قول و قرار کے لئے بیعت ہو رہی ہے معاہدے ہو رہے ہیں.احادیث میں مختلف بیعتوں کا ذکر ہے. میں یہاں صرف ایک حدیث بیان کر رہا ہوں جس کے راوی حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما ہیں اور جسے امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ اپنی اپنی ’’صحیح‘‘ میں لائے ہیں .گویا یہ حدیث متفق علیہ ہے جو حدیث کا سب سے بلند مقام و مرتبہ ہے. حدیث کے الفاظ ہیں :
عَنِ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : کُنَّا اِذَا بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ یَقُوْلُ لَنَا : فِیْمَا اسْتَطَعْتُمْ
’’ ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ہم جب رسول اللہ ﷺ سے سمع و طاعت کی بیعت کرتے تو آپؐ فرماتے کہ ’’جس چیز کی تم طاقت رکھو.‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرمﷺصحابہ کرام ؓ سے مختلف اوقات میں مختلف کاموں کے لئے بیعت لیا کرتے تھے.
بیعت کا یہ نظام جوہمیں تعلیم دیا گیا ہے یہ درحقیقت اس تنظیم کی اساس و بنیاد ہے کہ جو اس کام کو کرنے کے لئے منظم ہو جو نبی اکرم ﷺ امت کے حوالے کر گئے ہیں. یعنی عالمی سطح پر انقلابِ محمدیؐ کا بول بالا کرنا. اس کام کے لئے طریق تنظیم یہ بیعت کا نظام ہے. کوئی اللہ کا بندہ جب آگے آئے اور پکارے کہ ’’مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ‘‘ تو آپ اس کے ہاتھ میں ہاتھ دیں اور سمع و طاعت کی بیعت کریں. فرق یہ ہو گاکہ نبی اکرم ﷺ سے جو بیعت کی جاتی تھی‘ وہ مطلق ہوتی تھی کہ جو حکم آپؐ دیں گے وہ واجب الاطاعت ہو گا. اس لئے کہ ؏ گفتۂ او گفتۂ اللہ بود. ان کا فرمان اللہ کا فرمایا ہوا تھا. اور مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘.اب جو بیعت ہو گی‘ وہ مشروط ہو گی. یہ اطاعت ’’فی المعروف‘‘ کی شرط کے ساتھ مشروط ہو گی. پس نبی اکرمﷺ کا تیسرا اسوہ ہے کسی تنظیم کے قیام کے لئے نظامِ بیعت.
احیائے دین اور اقامت دین کی جدوجہد کے لئے دستوری تنظیموں اور الیکشنوں کے ذریعے قائم ہونے والی تنظیموں اور امیر اور شوریٰ یا انتظامیہ کے لئے دو سال یا پانچ سال کے بعد الیکشن اور ان کے درمیان فرائض و اختیارات اور حقوق کا توازن قائم کرنے کے طریقہ کار کو میں کفر یا قطعی طور پر خلافِ اسلام نہیں کہتا‘ لیکن پورے شرح صدر کے ساتھ یہ ضرور کہتا ہوں کہ یہ طریقِ تنظیم اسوۂ رسول کے مطابق نہیں ہے. میں پھر عرض کر رہا ہوں کہ نبی اکرمﷺ کوتو بیعت لینے کی احتیاج ہی نہ تھی. حضورﷺ نے مختلف اوقات میں جو بیعتیں لیں وہ میرے نزدیک اس لئے تھیں کہ آئندہ کے لئے ہمیں روشنی ملے اور حضورﷺ کا طرزِ عمل ہمارے لئے اُسوہ بنے. لہذا حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت کا نصب ہورہا ہے تو بیعت کی بنیاد پر.
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہو رہا ہے تو بیعت سے. حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہو رہا ہے تو بیعت پر. حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نصب خلافت بھی بیعت کی بنیاد پرہوا ہے. اس کے بعد بیعتیں تقسیم ہو گئیں. یہاں تک تو بیعت ایک تھی. وہ دینی بیعت بھی‘ سیاسی بیعت بھی اور انتظامی بیعت بھی تھی‘ لیکن خلافت راشدہ کے بعد یہ وحدت ختم ہو گئی. اس دور میں نظامِ حکومت کا عنوان تو خلافت ہی رہا لیکن اصلا ًوہ ملوکیت میں تبدیل ہو گیااور خلفاء تقویٰ کے لحاظ سے اس معیار مطلوب کے مطابق نہ رہے جو خلفائے راشدین میں نظر آتا تھا‘ لہذا بیعت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی. چنانچہ ایک سیاسی بیعت یعنی خلیفہ وقت کی اطاعت کے لئے ہوتی تھی جو بتدریج ایک معروف کا درجہ حاصل کر گئی جو دورِ بنی اُمیہ‘ بنوعباس اور دورِ عثمانیہ تک ہمیں کسی نہ کسی صورت میں نظر آتی ہے اور دوسری بیعت‘ ’’بیعت ارشاد ‘‘کسی بزرگ‘ خدا ترس‘ متقی‘ متدّین مزّکی و مرّبی اور مرشد کے ہاتھ پر ہونے لگی. پھر اس بیعت ارشاد کے بھی کئی سلاسل وجود میں آ گئے. جیسے فقہی مسائل میں چار مسالک فقہ مشہور ہوئے اسی طرح انفرادی رشد و ہدایت اور تزکیہ و تربیت نفس کے لئے بھی چار سلاسل مشہور ہیں.
اس بات کو بھی سمجھ لیجئے کہ یہ دو بیعتیں اُس وقت تک رائج رہیں جب تک شریعت اور قانونِ اسلام کا ڈھانچہ قائم (intact) رہا. تاآنکہ وہ دور شروع ہوا جب ایک طرف وحدتِ ملی پارہ پارہ ہوئی اور دوسری طرف متعدد مسلم ممالک براہ راست سیاسی طور پر مغربی استعمار کے استیلاء کے پنجے میں گرفتار ہو کر سیاسی طور پر غلامی سے دوچار ہوئے اور ہمارے دین کا برائے نام ڈھانچہ بھی برقرار نہ رہا اور پوری عمارت زمین بوس ہو گئی. شریعت اور اسلامی قانون مختلف ممالک میں مختلف ادوار میں منسوخ کر دیا گیااور قاضیوں کی عدالتیں برطرف کر دی گئیں . ان حالات میں تجدید و احیائے دین کی تحریکیں اور تنظیمیں ابھرنے لگیں اور پھر ہمیں نظر آتا ہے کہ یہ دونوں بیعتیں یکجا جمع ہو گئیں. سوڈان میں مہدی سوڈانی ابھرے. طرابلس (موجودہ لیبیا) میں سنوسی تحریک اور نجد میں محمد بن عبدالوہابؒکی تحریک اٹھی (جو وہابی تحریک کے نام سے مشہور ہے).
یہ تمام تحریکیں بیعت کے نظام پر سمع و طاعت اور ہجرت و جہاد کے لئے بپا ہوئیں. اس طرح ہمیں ان تحریکوں میں اس سنتِ بیعت کی تجدید نظر آتی ہے. سید احمد بریلویؒ کی تحریک میں عجب شان نظر آتی ہے. وہ مسلک کے اعتبار سے حنفی ہیں‘ مستند عالمِ دین بھی نہیں‘ لیکن ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں میں امام الہند شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے خانوادے کے چشم و چراغ شاہ اسمٰعیل شہیدؒ بھی شامل ہیں‘ جو اہل حدیث ہیں. آج برعظیم پاک و ہند میں جو اہل حدیثیت ہمیں نظر آتی ہے وہ کُل کی کُل ان ہی کی مساعی کا ظہور ہے. لیکن وہ بیعت جہاد ایک حنفی کے ہاتھ پر کر رہے ہیں. سید صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے پہلے بیعت ارشاد لی‘ پھر بیعتِ جہاد لی.
اس طرح ایک ہی شخصیت میں دونوں بیعتیں جمع ہو گئیں. یہ توبیسویں صدی میں مغرب کے سیاسی استیلاء کے ساتھ ذہنی مرعوبیت کے پیشِ نظر دستوری اور قانونی تنظیمیں قائم ہونی شروع ہو گئیں‘ ورنہ اس سے قبل اس قسم کی کسی تنظیم اور جماعت کی تشکیل کا کوئی سراغ ہمیں اپنی تاریخ میں نہیں ملتا. صحابہؓ و تابعین کے دور میں صدارتی نظام کہیں نظر نہیں آتا کہ اتنے سال کے بعد صدر ہٹ جائے اور پھر دوبارہ انتخاب ہو.وہاں تو یہ نظر آتا ہے کہ جس کے ہاتھ پر بیعت ہوتی تھی وہ تاحینِ حیات ہوتی تھی. آپ کو ایک مقصد پورا کرنا ہے‘ جب امیر وہ مقصد پورا کر رہا ہے تو آخر کس دلیل سے آپ اس کو الیکشن کے ذریعے بدلنا چاہیں گے؟ ہاں اگر وہ مقصد سے ہٹ گیا ہے تو آپ اپنا راستہ علیحدہ کر لیں‘ بیعت فسخ کریں اور اپنے طور پر کام شروع کریں. کوئی اور ایسا نظر آئے جس پر اطمینان ہو کہ وہ بہتر کام کر رہا ہے تو اس کے ہاتھ پر بیعت کر لیں.حاصل بحث یہ ہے کہ تجدید و احیائے دین کے لئے کام کرنے کا جوطریقہ سنت نبویؐ اور تعامل سلف صالحین سے ثابت ہے وہ بیعت کا نظام ہے. اس کے علاوہ جو طریقے اختیار کئے جاتے ہیں‘ وہ اسوۂ رسول اور سنت سے ہٹے ہوئے ہیں.
یہ باتیں کہتے ہوئے دل روتا ہے کہ اس وقت ہمارا حال یہ ہے کہ جس طرح ہمارے ہاں ’’وعظ‘‘ گالی بن گیا ہے جو قرآن کی اصطلاح ہے‘ اسی طرح ’’بیعت‘‘ کے ساتھ ‘جو خالصتاً قرآن و سنت کی اصطلاح ہے‘ ذہن میں فوراً دکانداری کا تصور آتا ہے. قبے ‘عمامے ‘ جبے اور ایک خاص اندازِ نشست و برخاست اور ایک خاص اندازِ گفتار کے ساتھ کسی شخصیت کا نقشہ ذہن میں اُبھرتا ہے‘ جن کے ساتھ مریدین کا ایک حلقۂ خدام ادب کی حیثیت سے موجود ہوتا ہے. اس کے سوا کچھ نہیں. اگر بہت ہو گا تو یہ کہ کچھ ذکر کے حلقے ہو جائیں گے. اللہ اللہ خیر صلا اس سے آگے ان کی کوئی دعوت نہیں. اس طرح ہم نے اس بیعت کو بھی بدنام کر کے رکھ دیا ہے ہم نے کس چیز کو بدنام نہیں کیا ہے؟ بقول اقبال ؎
یہی شیخِ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیمِ بوذرؓ و دلقِ اویسؒ و چادرِ زہرا ؓ
ہم نے ہر چیز بیچ کھائی ہے.دکان دار ہم ہیں. بدنام ہم نے دین کو کیا ہے حج اور عمرے کے مواقع پر اسمگلنگ ہم کرتے ہیں لیکن بدنام حج ہوتا ہے. صوم و صلوٰۃ کے ساتھ سودی لین دین‘ بلیک مارکیٹنگ‘ ذخیرہ اندوزی‘ ملاوٹ اور بہت سی بدمعاملگیاں ہم کرتے ہیں اور بدنام دین ہوتا ہے لیکن بایں ہمہ اگر ہم چاہتے ہیں اسوۂ رسول کی پیروی کریں تو بیعت خواہ کتنی ہی بدنام ہو چکی ہو ہمیں تو اسی پر چلنا ہے. اگر وعظ گالی بن گیا ہے تو بنا کرے ‘ہمارے لئے تو قرآن ہی وعظ ہے. ازروئے الفاظ قرآنی: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِوَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ لٹریچروں سے دعوتیں چلتی ہوں تو چلا کریں‘ ہمارا لٹریچر تو قرآن ہے. اسی کو پڑھو اور پڑھاؤ. اسی کو سمجھو اور سمجھاؤ. اسی کی شرح و وضاحت کرو‘ تحریر سے بھی ‘تقریر سے بھی.ہر ایک کی اساس قرآن ہو. بفحوائے ارشادِ ربانی :
بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّک اور بموجب فرمانِ نبوی : بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ آیَۃً
آپ حضرات بخوبی واقف ہیں کہ میں قرآن حکیم کا ادنی ٰ طالب علم ہوں. قرآن مجید اور سیرتِ مطہرہ پر غور و فکر کے نتیجے میں جو بات مجھ پر منکشف ہوئی ہے اس پر الحمدللہ عمل بھی شروع کر دیا ہے .وہ یہ کہ اقامتِ دین کی جدوجہد کوئی اضافی نیکی نہیں بلکہ میرا اور ہر مسلمان کا فرض عین ہے اس کے لئے تنظیم کا قیام لازم ہے اور اس تنظیم کی ہیئت تشکیلی بیعت کے نظام پر ہونی عین سنت کا تقاضا ہے.
میں اگر محض درس قرآن ہی دیتا رہتا اور سیرتِ مطہرہ کا بیان ہی کرتا رہتا لیکن قرآن حکیم اور سیرتِ مبارکہ سے جو پیغام اور تعلیم مجھے ملتی‘ اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش نہ کرتا تو مجھ سے بڑا دھوکے باز کوئی اور نہ ہوتا. میں درس قرآن‘ سیرتِ مطہرہ کے بیان اور وعظ کہنے کی حیثیت سے بہت مشہور (Popular) ہو گیا ہوں. تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض کر رہا ہوں کہ میرے درسِ قرآن کو پاکستان ہی میں نہیں بہت سے بیرونی ممالک میں بھی انتہائی قبول عام حاصل ہوا ہے. میں یہی کام کرتا رہتا اور کبھی عمل کی دعوت نہ دیتا تو میرا خیال ہے کہ اس وقت اگر یہاں چار پانچ سو کی حاضری ہے تو ایسی صورت میں یہ حاضری ہزاروں سے متجاوز ہوتی. اس لئے کہ ہمارے ہاں صرف ’’سننے‘‘ کا انتہائی ذوق و شوق ہے.
ہم سُنّی ہیں اور خالص ’’سُنّی‘‘ ہیں.یہ جو بار بار عمل کی دعوت دی جاتی ہے اور غلط کاموں پرجو ڈانٹ پڑتی ہے‘ اسے آدمی ایک دفعہ سن لے گا‘ دو مرتبہ سن لے گا‘بار بار کون سننے آئے گا؟ میرے چند قریبی واقف کار میرے پیچھے جمعہ پڑھنا چھوڑ گئے .انہوں نے مجھ سے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ تمہاری تقریر بہت سخت ہوتی ہے. تم کاروبار میں سود کی آمیزش پر قرآن و حدیث کے حوالے سے تنقیدیں کرتے ہواوروعیدیں سناتے ہو. تم متعدد غیر اسلامی معتقدات اور رسوم و رواج پر شدید گرفت اور نکیر کرتے ہو. ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اور جن حالات سے گزر رہے ہیں‘ ان میں ان کا ترک کرنا ہمارے لئے مشکل ہی نہیں محال ہے. تمہاری تقریریں سن کرہمارا ضمیر ملامت گر ہمیں سرزنش کرتا ہے. اس کشمکش سے بچنے کے لئے ہم نے تمہارے پیچھے جمعہ پڑھنا اور تمہارے درس میں شریک ہونا ہی چھوڑ دیا ہے. اگر مجھے صرف درس قرآن اور محض علمی نکات ہی کو بیان کرنا ہوتا توموجودہ حاضری سے دس گنازیادہ حاضری ہو سکتی تھی. لیکن میں قرآن کا عملی پیغام پیش کرتا ہوں‘ صرف علمی نکات پیش کرنااور اس میدان میں موشگافیاں کرنا ذہنی عیاشی بن جائے گی. میرا قلب و ذہن مجھ سے پوچھتا ہے کہ اگر تم نے صرف یہی کچھ کیا تو اللہ کے ہاں کیا جواب دوگے؟تم نے سب کچھ ہضم کر لیا ہے ‘اگر اس قرآن کو بھی ہضم کر گئے تو فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ (المرسلـٰت) ’’پس اس کے بعد کون سی بات ہے جس پر تم ایمان لاؤ گے؟‘‘.