یہ چند باتیں بطورِ جملہ ہائے معترضہ درمیان میں آ گئیں.اب خوب توجہ سے میری آج کی تقریر کا خلاصہ پھر سن لیجئے. میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ میں نے اپنے فہم کی حد تک قرآن کا جو پیغام سمجھا ہے‘ وہی پیغام ہمیں احادیث میں ملتا ہے اور وہی پیغام ہمیں سیرتِ مطہرہ سے ملتا ہے اسی بات کو میں نے آج اسوۂ حسنہ کے حوالے سے آپ کے سامنے رکھا ہے اور وہ اُسوۂ حسنہ یہ ہے:
محمد رسول اللہ ﷺ کی دعوت ایمان باللہ‘ ایمان بالآخرۃ اور ایمان بالرسالت کسی تبلیغی ‘رفاہی‘ اصلاحی‘ علمی و تحقیقی اور سیاسی نوعیت کی نہیں تھی ‘بلکہ خالص انقلابی نوعیت کی دعوت تھی. یہ تمام کام اس میں بطور اجزاء شامل تھے. چنانچہ اس دعوت کے نتیجے میں جو انقلابِ عظیم دنیا میں برپا ہوا‘ اس سے پوری انسانی زندگی میں تبدیلی رونما ہوئی. عقائد و نظریات‘ سیرت و کردار‘ نظام حکومت و سیاست‘ علوم و فنون‘ قانون و اخلاق‘ تہذیب و تمدن اور معاشرت و معیشت‘ الغرض حیاتِ انسانی کا کوئی گوشہ بھی بدلے بغیر نہ رہا.
یہ انقلابی جدوجہد خالص انسانی سطح (Human Level) پر قدم بقدم چل کر کی گئی اور ایک انقلابی جدوجہد کو جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے‘ وہ سب مراحل نبی اکرم ﷺ کی اس انقلابی دعوت کو بھی پیش آئے اللہ کی نصرت و تائید بھی حاصل ہوئی لیکن اُس وقت جب نبی اکرمﷺ اور آپ کے جان نثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اپنی امکانی حد تک اس جدوجہد میں مثالی قربانی اور ایثار پیش کیا.
آپﷺ کی جدوجہد جن مراحل سے گزری ان کو دو دو الفاظ کے جوڑوں کے ساتھ میں نے تین حصوں میں منقسم کر کے قدرے تفصیل کے ساتھ آپ کے سامنے پیش کیا ہے. ٭ پہلا مرحلہ : دعوت و تربیت
٭ دوسرا مرحلہ : تنظیم و ہجرت
٭ تیسرا مرحلہ : جہاد و قتال
اس مختصر وقت میں‘ مَیں نے کوشش کی ہے کہ دعوت و تربیت اور تنظیم و ہجرت کے ضمن میں ضروری نکات آپ کے سامنے پیش کر دوں. دعوت و تربیت کے مرحلے کے متعلق میں نے آپ کے سامنے چند اہم نکات اسوۂ حسنہ کی روشنی میں بیان کر دیئے ہیں. دعوتِ ایمان قبول کرنے والوں کی تنظیم تو آپ سے آپ ہو جاتی تھی‘ کیونکہ جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی تصدیق اور آپ کورسول اللہ تسلیم کرنے کا لازمی تقاضا تھا کہ تمام اہل ایمان‘ ایک تنظیم‘ ایک جماعت اور ایک اُمت بن جائیں اور اللہ اور اس کی رسول کے احکام کی بے چون و چرا تسلیم و رضا کی کیفیات کے ساتھ پیروی کریں.پھر ہجرت تو تنظیم کے ساتھ جڑی ہوئی ہے. کچھ اختیار کرو گے تو کچھ ترک بھی کرنا پڑے گا. اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنی ہے تو ہر اُس چیز کو چھوڑنا ہو گا جو اللہ اور اس کے رسول کو ناپسند ہے.
کسی سے جڑو گے تو کسی سے کٹو گے بھی. سیدھی سیدھی بات ہے. دین پرعمل کرنے کے باعث آج اپنے دوست سے کٹے تو کل اپنے بھائی سے کٹو گے. ہو سکتا ہے کہ بیوی سے بھی کٹنا پڑ جائے. ہو سکتا ہے وہ وقت بھی آ جائے کہ ہر ایک چیز سے کٹنا پڑ جائے .تو جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر پختہ یقین رکھتے ہیں‘ وہ کٹ جایا کرتے ہیں. وہ گھر بار کو حتیٰ کہ وطن کو بھی چھوڑ کر ایسے نکل جاتے ہیں جیسے جانتے ہی نہیں تھے کہ یہ ہمارا وطن تھا. لیکن جو کسی اصول کی خاطر ایک دوست اور ایک بھائی سے نہ کٹ سکا وہ اللہ اور اس کے دین کے لئے اپنا وطن کیسے چھوڑ دے گا؟ جو ایک پیسے میں امین ثابت نہ ہو کیا وہ لاکھ روپے میں امین ثابت ہو گا؟ جو چھوٹا سا وعدہ پورا نہ کر سکے‘ وہ بڑے بڑے وعدے پورے کرے گا؟ یہ باتیں ناممکنات میں سے ہیں ہجرت تنظیم کے ساتھ بطور ضمیمہ منسلک ہے.
پھر جہاد ہے .’’جہاد‘‘ دراصل اس جدوجہد کا نام ہے جس میں ایک بندۂ مؤمن باطن میں اپنے نفس سے اس کو اللہ اور رسول کا مطیع و فرمانبردار بنانے کے لئے کشمکش کرتا ہے‘ اور ظاہر میں دعوتِ حق کی تبلیغ کے لئے بھاگ دوڑ‘ سعی و کوشش اور اس کے قیام کے لئے محنت و مشقت بھی اسی جہاد میں شامل ہوتی ہے پھر قتال ہے. جب بھی اس کا مرحلہ آ جائے تو ایک بندۂ مومن اس کے لئے تیار بھی رہے اور اس کی تمنا کی دل میں پرورش بھی کرتا رہے. حضورﷺ کا ارشاد ہے:’’ جس شخص نے نہ تو اللہ کے راستے میں جنگ کی اور نہ ہی اس کے دل میں اس کی تمنا پیدا ہوئی اس کی موت ایک نوع کے نفاق پر واقع ہوئی‘‘.