اسی اتباعِ رسول کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ہم اس بات کو ملحوظ رکھیں کہ بحیثیت مجموعی حضور  کی حیاتِ طیبہ کا رُخ کیا تھا! آپؐ نے کس کام کے لئے محنت کی! آپؐ کو کیا فکر دامن گیر تھی! آپؐ نے اپنی دن رات کی سعی و کوشش اور محنت و مشقت کا ہدف کیا معین فرمایا! … اس دنیا میں ہر شخص شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے لئے کوئی نہ کوئی ہدف معین کرتا ہے‘ پھر اس کی ساری محنت اور بھاگ دوڑ اسی رخ پر ہوتی ہے. کوئی اپنے پیشے 
(Profession) میں اعلیٰ سے اعلیٰ مہارت حاصل کرنے کے لئے اور اپنا مقام بنانے کے لئے محنت اور سعی و جہد کرتا ہے.

کوئی سیاست دان ہے‘ اس کا بھی ایک ہدف ہے. وہ چاہتا ہے کہ حکومت کے کسی منصب پر فائز ہو‘ اقتدار اس کے ہاتھ میں یا اس کی پارٹی کے ہاتھ میں آئے. کاروباری آدمی ہے تو اس کا بھی ایک ہدف ہے‘ وہ محنت کر رہا ہے‘ مشقت کر رہا ہے‘ راتوں کو جاگ رہا ہے‘ کہاں کہاں سے سامانِ تجارت منگاتا اور کہاں کہاں بھیجتا ہے! دنیا بھر کی مارکیٹوں میں چیزوں کے نرخوں کے اتار چڑھاؤ کمی بیشی کی خبر رکھتا ہے. یہ ساری سوچ اس کے ہدف کے تابع ہے.