اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَ اِنۡ تُطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾ (الحُجُرٰت)
پچھلی نشست میں ہم نے ’’حدیث ِجبریل ؑ‘‘ کے مطالعہ کا آغاز کیا تھا. اس میں ہم نے پوری حدیث مبارکہ کا متن اور ترجمہ پڑھااور خاص طور پر اس کے ابتدائی اور اختتامی حصے کو واقعاتی انداز میں تفصیل سے پڑھا.آج ہم اللہ کی توفیق سے اس کے اصل متن پر گفتگو کریں گے. یہ اصل متن بالعموم چار سوالات پر مشتمل ہے ‘ یعنی اسلام کیا ہے؟ ایمان کیا ہے؟ احسان کیا ہے ؟اور قیامت کب قائم ہو گی یا اس کی علامات کیا ہیں؟ البتہ ایک روایت ایسی بھی ہے جس میں پانچواں سوال بھی ہے. اس ضمن میں مَیں آپ کو بتا چکا ہوں کہ احادیث ِنبویہﷺ کے ضمن میں لفظی فرق کا ہونا بالکل منطقی اور معقول بات ہے. احادیث لفظاً محفوظ نہیں ہیں‘ البتہ معناً محفوظ ہیں. بہرحال ان میں سے پہلے دو سوالات جو اہم ترین ہیں‘ یعنی اسلام اور ایمان‘ آج ان پر گفتگو ہو گی.
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا: اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلَامِ ’’مجھے بتایئے اسلام کیا ہے!‘‘رسول اللہﷺ نے فرمایا: اَلْاِسْلَامُ اَنْ تَشْھَدَ اَنْ لاَّ اِلٰــــہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ‘ وَتُقِیْمَ الصَّلَاۃَ‘ وَتُؤْتِیَ الزَّکَاۃَ‘ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ‘ وَتَحُجَّ الْبَیْتَ اِنِ اسْتَطَعْتَ اِلَـیْہِ سَبِیْلًا ’’اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ﷺ )اس کے رسول ہیں‘اور تو نماز قائم کرے ‘ زکو ٰۃ ادا کرے‘رمضان المبارک کے روزے رکھے اور بیت اللہ کا حج کرے اگر تجھے اس کے سفر کی استطاعت حاصل ہو (اس کے وسائل اور ذرائع تمہارے پاس موجود ہوں)‘‘.نوٹ کیجیے کہ یہاں لفظ ’’گواہی‘‘ آیا ہے ’’ایمان‘‘ نہیں آیا. رسول اللہﷺ فرما رہے ہیں: اَنْ تَشْھَدَ کہ تو گواہی دے یعنی زبانی اقرار کرے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ﷺ ) اللہ کے رسول ہیں.
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے دوسرا سوال کیا: اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِیْمَانِ ’’مجھے ایمان کے بارے میں بتایئے!‘‘ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ‘ وَمَلَائِکَتِہٖ ‘ وَکُتُبِہٖ‘ وَرُسُلِہٖ‘ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ‘ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ ’’کہ تو ایمان لائے (دل سے تصدیق کرے) اللہ پر‘ اُس کے فرشتوں پر‘ اُس کی کتابوں پر‘ اُس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر ‘اور تو ایمان لائے اچھی بری تقدیر پر‘‘. یہاں لفظ ’’ایمان‘‘ آ رہا ہے کہ تو ایمان لائے‘ دل سے تصدیق کرے اِن اِن چیزوں پر.
یہاں ایک بات نوٹ کیجیے کہ یہ حدیث پانچ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے (جن کا پچھلی نشست میں ذکر ہو چکا ہے). ان میں سے حضرت عمر اور دیگر تین صحابہ رضی اللہ عنہم کی روایات میں پہلا سوال ’’اسلام‘‘ کے بارے میں اور دوسرا ’’ایمان ‘‘کے بارے میں ہے‘ جبکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں پہلا سوال ’’ایمان‘‘ کے بارے میں ہے اور دوسرا ’’اسلام‘‘ کے بارے میں.
ان پانچ صحابہؓ میں سے ایک حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمابھی ہیں. میں سمجھتا ہوں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکی روایت کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ایک تقابلی مطالعہ ہونا چاہیے. حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مانند فقہائے صحابہ میں سے ہیں اور قرآن مجید کے بہت بڑے عالم مانے گئے ہیں. رسول اللہﷺ نے ان کے لیے ایک خاص دُعا کی تھی : اَللّٰھُمَّ فَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ وَعَلِّمْہُ التَّـاْوِیْلَ (۵) ’’اے اللہ! اس نوجوان کو دین کا تفقہ (گہرا فہم) عطا فرما اور قرآن کی تأویل کی تعلیم دے‘‘. جان لیجیے کہ ایک ہے قرآن مجید کی تفسیر اور ایک ہے تأویل. تفسیر یہ ہے کہ قرآن مجید کے ہر ہر لفظ کے معنی اور اُن (۵) مسند احمد‘ ح ۲۲۷۴. کا باہم ربط بیان کرنا جبکہ تأویل ہے مضمون کو پہچان لینا کہ اصل میں سیاق و سباق کس مضمون پر دلالت کر رہا ہے.
اب یہاں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمااور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایات میں لفظی فرق ملاحظہ کیجیے! حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ جبرائیل ؑنے کہا: اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلَامِ’’مجھے بتایئے کہ اسلام کیا ہے‘‘. رسول اللہﷺ نے فرمایا: اَلْاِسْلَامُ اَنْ تَشْھَدَ اَنْ لاَّ اِلٰــــہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ‘ وَتُقِیْمَ الصَّلَاۃَ‘ وَتُؤْتِیَ الزَّکَاۃَ‘ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ‘ وَتَحُجَّ الْبَیْتَ اِنِ اسْتَطَعْتَ اِلَـیْہِ سَبِیْلًا’’اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد(ﷺ ) اللہ کے رسول ہیں‘ اور تو نماز قائم کرے ‘ زکو ٰۃ ادا کرے‘ رمضان کے روزے رکھے اور بیت اللہ کا حج ادا کرے اگر تجھے اس کے لیے سفر کی استطاعت ہو‘‘.جبکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ جب جبرائیل ؑ نے کہا: حَدِّثْنِیْ بِالْاِسْلَامِ ’’مجھے اسلام کے بارے میں بتایئے!‘‘ تورسول اللہﷺ نے فرمایا: اَلْاِسْلَامُ اَنْ تُسْلِمَ وَجْھَکَ لِلّٰہِ ’’اسلام یہ ہے کہ تو اپنے چہرے کو اللہ کے سامنے جھکا دے (سر ِتسلیم خم کر دے)‘‘.یہ لفظ اسلام کے ساتھ معنوی مناسبت رکھتا ہے. اسلام کے معنی ہی ہیں سرنڈر کر دینا اطاعت قبول کر لینا.لیکن نوٹ کیجیے کہ اس روایت میں عبادات یعنی نماز‘ روزہ‘ حج اور زکو ٰۃ کا ذکر نہیں ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے البتہ اس سے پہلے جو الفاظ آئے ہیں وہ بہت جامع ہیں کہ ’’اپنا چہرہ اللہ کے سامنے جھکا دو‘‘. اس میں ساری عبادات خود بخود شامل ہوجاتی ہیں. حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کے مطابق حضرت جبرائیل ؑ دریافت فرماتے ہیں: اِذَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ فَاَنَا مُسْلِمٌ؟ ’’(اے نبیؐ ! مجھے بتایئے) اگر میں یہ کام کر دوں (جو آپؐ نے بتائے ہیں) تو پھر میں مسلمان شمار کیا جاؤں گا؟‘‘ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اِذَا فَعَلْتَ ذٰلِکَ فَقَدْ اَسْلَمْتَ ’’جب تم یہ شرائط پوری کر دو تو تم گویا اسلام میں آ گئے.‘‘
اس کے بعد حضرت جبرائیل ؑ فرماتے ہیں: فَحَدِّثْنِیْ مَا الْاِیْمَانُ؟ ’’اب مجھے بتایئے ایمان کیا ہے؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا: اَلْاِیْمَانُ اَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلاَئِکَۃِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّیْنَ‘ وَتُؤْمِنَ بِالْمَوْتِ وَبِالْحَیٰوۃِ بَعْدَ الْمَوْتِ‘ وَتُؤْمِنَ بِالْجَنَّۃِ وَالنَّارِ وَالْحِسَابِ وَالْمِیْزَانِ‘ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ کُلِّہٖ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ ’’ایمان یہ ہے کہ تو ایمان لائے اللہ پر‘ آخرت کے دن پر‘ فرشتوں پر‘ کتابوں پر‘ نبیوں پر‘ اور توموت پر یقین رکھے‘ اور موت کے بعد کی زندگی پر یقین رکھے‘ اور تو جنت و دوزخ اور حساب و میزان سب کو مانے‘ اور تقدیر پر ایمان رکھے کہ اس کا خیر ہو یا شر سب اللہ کی طرف سے ہے‘‘.جبرائیل ؑ نے دریافت فرمایا:فَاِذَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ فَقَدْ آمَنْتُ؟ ’’جب میں یہ کر گزروں تو پھر گویا میں مؤمن ہو جاؤں گا؟(میرا ایمان اللہ کے ہاں قبول ہوگا؟)‘‘ تو آپؐ نے فرمایا: فَاِذَا فَعَلْتَ ذٰلِکَ فَقَدْ آمَنْتَ ’’پس جب تم یہ کر دو تو تم گویا ایمان لے آئے‘‘.اب یہاں لفظی فرق و تفاوت تو سامنے آ رہا ہے لیکن ذہن میں رکھیے کہ مفہوم میں فرق نہیں ہے.
اب یہاں پر ’’اسلام‘‘ اور ’’ایمان‘‘ کے مابین جو بحث پیدا ہوتی ہے کہ اسلام کیا ہے‘ ایمان کیا ہے ‘تو اس ضمن میں چند موٹی موٹی باتیں جان لینی ضروری ہیں. ایک تو یہ کہ قرآن مجید میں یہ دونوں الفاظ ’’اسلام‘‘ اور ’’ایمان‘‘ مترادفات کے طور پر بھی استعمال ہوئے ہیں اور باہم متضاد بھی.اسلام کا تعلق انسان کے ظاہری اعمال سے ‘ جبکہ ایمان کا تعلق قلبی یقین سے ہے . اب جس شخص کو یہ دونوں حاصل ہوں‘ یعنی عمل میں اسلام کی پابندی ہو‘ شریعت کی پابندی ہو ‘ اور دل میں اللہ پر اور تمام امورِ ایمانیہ پر یقین ہو تو اب اسے مسلم کہہ لیں یا مؤمن کہہ لیں ‘کوئی فرق واقع نہیں ہوتا. جیسے انگریزی مقولہ ہے : ’’Call the rose by any name it will smell as sweet.‘‘ کہ گلاب کے پھول کو نام کوئی بھی دے دو اس کی خوشبو تو وہی رہے گی.
قرآن مجید میں اس قسم کی اصطلاحات کا دوسرا جوڑا ’’نبی‘‘ اور’’رسول‘‘ ہے. یہ دونوں الفاظ مترادف بھی ہیں اور مختلف المعنیٰ بھی. اس ضمن میں علماء کا اصول بیان ہو چکا ہے کہ : اِذَا اجْتَمَعَا تَفَرَّقَا وَاِذَا تَفَرَّقَا اجْتَمَعَا ’’جب (اس قسم کے الفاظ) دونوں ایک ہی جگہ پر آئیں تو مفہوم جدا جدا ہو گا اور جب الگ الگ استعمال ہوں گے تو مفہوم ایک ہو جائے گا.‘‘
دیکھئے اسلام کا تعلق ظاہر سے ہے اور ایمان کا تعلق باطن سے. دوسری طرف ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کا تعلق اس دنیا سے ہے اور ایمان کا تعلق آخرت سے ہے. اس دنیا میں کسی کے مسلمان سمجھے جانے کا دار و مدار اسلام پر ہے ایمان پر نہیں‘ اس لیے کہ ایمان تو ایک قلبی حقیقت ہے‘ اس کی توثیق کیسے ہو گی ؟ یہ بہت اہم نکتہ ہے .کسی کے ایمان کا یا اس کے مؤمن ہونے کا فیصلہ ہم اس دنیا میں نہیں کر سکتے. عمومی طورپر تو یہ باتیں کہی جا سکتی ہیں کہ جس میں یہ یہ صفات ہوں وہ مؤمن ہے اور جس میں یہ یہ اوصاف ہوں وہ منافق ہے‘ لیکن معین طور پر ہم کسی کے بارے میں نہیں کہہ سکتے کہ فلاں شخص مؤمن ہے یا فلاں شخص منافق ہے.اس لیے کہ اسلام کا تعلق اس دنیا سے ہے اور اس میں اصل بنیاد شہادت ہے. چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں تو مذکورہی صرف شہادت ہے‘ نماز‘ روزہ‘ حج اور زکو ٰۃ کا تو ذکر بھی نہیں ہے. اس لیے کہ ایک شخص ہندو تھا اور اُس نے کلمہ پڑھ لیا تو وہ اُسی وقت مسلمان ہو گیا. اُس نے ابھی نہ تو نماز پڑھی اور نہ روزہ رکھا. وہ نماز سیکھے گا تو پڑھے گا یا وقت آئے گا تب پڑھے گا.
ایسے ہی رمضان آئے گا تو پتا چلے گا کہ اُس نے روزے رکھے ہیں یا نہیں رکھے. اِس وقت وہ صرف کلمۂ شہادت کی بنیاد پر مسلمان ہوا ہے.چنانچہ اسلام کا معاملہ شہادت پر مبنی ہے‘ اسلام کی جڑ اور بنیاد شہادت ہے. کوئی شخص ہمارے سامنے آ کر کہتاہے: ’’اَشْہَدُاَنْ لَّا اِلٰــــہَ اِلَّاللہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللہ‘‘ توہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ مسلمان نہیں ہے‘ چاہے قرائن موجود ہوں اور حالات یہ گواہی دے رہے ہوں کہ اُس نے دل سے کلمہ نہیں پڑھا تب بھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ مسلمان نہیں ہے. البتہ بعد میں اگر معلوم ہو کہ یہ بدبخت تو قرآن کو نہیں مانتا‘ ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا منکر ہے‘ ختم نبوت کا قائل نہیں ہے ‘ بلکہ نبوت کے اجراء کا قائل ہے‘تو اب اس کی تکفیر کی جائے گی. یہ ایک الگ معاملہ ہے. لیکن اگر کسی کلمہ گو کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تو پھر ہم اس کے مسلمان یا مؤمن ہونے کا انکار نہیں کر سکتے. قرآن مجید میں اس قسم کے ایک واقعے کا ذکر بھی موجود ہے . مسلمان مجاہدین جب جہاد کے لیے باہر نکلتے تھے تو کہیں ایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی نے ان کو ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ کہا. گویا وہ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ مسلمان ہے. اب مجاہدین ِاسلام کو خیال گزرتا کہ یہ شخص اپنا مال اور اپنی جان بچانے کے لیے اپنا جھوٹ موٹ کا اسلام ظاہر کر رہا ہے کہ وہ مسلمان ہے‘ لہذا اسے کہتے کہ تم مؤمن نہیں ہو. لیکن قرآن مجید میں سورۃ النساء کی آیت ۹۴ میں اس چیز سے روک دیا گیا. ارشاد ہوا:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوۡا وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَلۡقٰۤی اِلَیۡکُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا ۚ
’’اے اہل ایمان! جب تم اللہ کی راہ میں نکلو تو تحقیق کر لیا کرو اور کسی ایسے شخص کو جو تمہارے سامنے سلامتی پیش کرے (تمہیں سلام کہے یا اپنا اسلام پیش کرے) یہ نہ کہو کہ تم مؤمن نہیں ہو.‘‘
اس لیے کہ اسلام کا دار ومدار‘ یا یوں کہیے کہ قانونی ایمان کا دار و مدار درحقیقت شہادت پر ہے. ایک جنگ میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے ایک ایسے ہی شخص کی جان لے لی. حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہما رسول اللہﷺ کے بہت چہیتے اور لاڈلے تھے. ان کے والد حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ آپؐ کے غلام تھے‘ آپؐ نے انہیں آزاد کیا اور اپنا مُنہ بولا بیٹا بنا لیا. بعد میں سورۃ الاحزاب کی یہ آیت نازل ہوئی کہ اس طرح کا مُنہ بولا رشتہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی اہمیت نہیں رکھتا‘ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے توحضرت زیدؓ جنہیں زیدؓ بن محمدﷺ کہا جاتا تھا دوبارہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کہلانے لگے. بہرحال ایک جنگ میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی کفار کے لشکر میں سے ایک شخص سے مڈبھیڑ ہو گئی. وہ شخص حضرت اسامہؓ کی تلوار کی زد میں تھا کہ اُس نے کلمۂ شہادت پڑھ لیا: ’’اَشْہَدُاَنْ لَّا اِلٰــــہَ اِلَّاللہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللہ‘‘ِ. حضرت اسامہؓ نے سمجھا کہ یہ جان بچانے کا حیلہ کر رہا ہے ‘لہذا اس پر تلوار چلا دی اور سر قلم کر دیا. بعد میں اُسامہؓ جب رسول اللہﷺ کے سامنے پیش ہوئے تو آپﷺ نے انتہائی ناراضگی کا اظہار فرمایا‘حالانکہ حالات و واقعات سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ اُس شخص نے جان بچانے کے لیے ایسا کیا ہو گا.
رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے اسامہ! اُس وقت تم کیا کرو گے جب قیامت کے دن یہ کلمۂ شہادت تمہارے خلاف گواہی دینے کے لیے آئے گا کہ میرے ہوتے ہوئے تلوار چل گئی! پس کلمہ ٔشہادت تو ڈھال ہے. اس سے ایک مسلمان کے دنیا میں جو حقوق ہیں وہ سارے کے سارے حاصل ہو جائیں گے. چنانچہ دنیا میں کسی کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ اسلام کی بنیاد پر ہو گا‘ ایمان کی بنیاد پر نہیں. اسی لیے اسلام اور ایمان کے بارے میں الگ الگ سوال کیا گیا کہ اسلام کیا ہے؟ اور ایمان کیا ہے؟ لہذا اسلام اور ایمان کو گڈمڈ کرنے کے بجائے علیحدہ علیحدہ رکھنا ہو گا.
دوسرے یہ کہ اسی اسلام کی بنیاد پر اسلامی تمدن اور تہذیب کا پورا ڈھانچہ کھڑا ہوتا ہے.اقامت ِصلوٰۃ ‘ ایتائے زکو ٰۃ ‘ صومِ رمضان اور حج بیت اللہ‘ اسلامی تہذیب و تمدن کی علامات ہیں.ان سے دنیا میں اسلامی تہذیب کا ڈھانچہ وجود میں آتا ہے. لہذا نماز اور زکوٰۃ کا نظام قائم ہو گا‘ رمضان کے روزے رکھے جائیں گے ‘بیت اللہ کا حج کیا جائے گا. گویا اسلام کا تعلق اس دنیا سے ہے جبکہ ایمان کا تعلق آخرت سے ہے. اُخروی نجات کا دار و مدار ایمان پر ہے. دل میں ایمان ہو گا تو نجات ہو گی ‘ورنہ نہیں. آخرت میں جب اللہ‘تبارک و تعالیٰ کے روبرو ہماری حاضری ہو گی ‘جو عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِہے‘ تو وہاں سب ظاہر ہو جائے گا کہ دل میں کتنا ایمان ہے. دنیا میں تو ہم نہیں جان سکتے کہ کسی کے دل میں ایمان ہے یا نہیں ہے. کوئی ایسا آلہ ہمارے پاس نہیں ہے‘ کوئی ایسا الیکٹروکارڈیوگرام ابھی تک ایجاد نہیں ہوا جو یہ بتا دے کہ دل میں ایمان ہے یا نہیں ‘ لیکن اللہ تعالیٰ کے علم ِکامل میں تو ہے! لہذا قیامت کے دن نجات کا دار و مدار ایمان پر ہے. اور یہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ دُنیا میں اسلام کے اخلاقی اور روحانی نظام کی بنیاد بھی ایمان ہے. اگر دنیا میں کوئی اخلاقی اور روحانی بلندی چاہتا ہے‘ ترفع چاہتا ہے‘ تو اس کی بنیاد ایمان ہے.
اب میں بات کو سمجھانے کے لیے تعبیر کا ایک اور انداز آپ کے سامنے لا رہا ہوں. دیکھئے قانونی اسلام اور قانونی ایمان ایک ہی چیز ہے . اسی طرح حقیقی اسلام اور حقیقی ایمان بھی ایک ہی چیز ہے. قانونی اسلام کلمۂ شہادت پر مبنی ہے اور اسی کو ہم قانونی ایمان بھی کہتے ہیں. حقیقی اسلام تو یہ ہے کہ ہمہ تن‘ ہمہ وجوہ اللہ کابندہ بن جانا. یہ اسلام جہاں نقطۂ آغاز (starting point) ہے وہاں آخری درجہ(final stage) بھی یہی ہے. حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام جب خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے تو یہ حضرت ابراہیم ؑکے بڑھاپے کا زمانہ تھا‘ ان کی سو برس کی عمر تھی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام تیرہ برس کے تھے. اُس وقت دونوں باپ بیٹا اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے تھے: رَبَّنَا وَ اجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ ۪ (البقرۃ:۱۲۸) ’’اے اللہ! ہمیں (باپ بیٹا دونوں کو) اپنا فرماں بردار (اپنا مسلمان) بنائے رکھ اور ہماری اولادمیں سے بھی ایک اپنی فرماں بردار (مسلمان) اُمت برپا کرنا!‘‘ تو دیکھئے اتنے اونچے مقام پر پہنچ کر بھی وہ اپنے لیے یہ دعا کر رہے ہیں کہ اے اللہ ہمیں مسلمان بنائے رکھ! لہذا یہ نہ سمجھئے کہ اسلام کوئی حقیر شے ہے‘ معاذ اللہ.ہاں قانونی اسلام کا صرف کلمۂ شہادت پر دار و مدار ہے. اس میں ایمان و یقین کا کوئی ریفرنس نہیں ہے.جبکہ حقیقی اسلام یہ ہے کہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دینا‘ سرتسلیم خم کر دینا‘ پوری زندگی کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے تابع کر دینا.میں عرض کر چکا ہوں کہ قانونی اسلام اور قانونی ایمان ایک ہی شے ہے. سورۃ النساء کی آیت ۹۴ ہم پڑھ چکے ہیں کہ جوشخص تمہارے سامنے اپنے آپ کو مسلمان کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے تو تم اسے یہ نہیں کہہ سکتے: لَسْتَ مُؤْمِنًا ’’تم مؤمن نہیں ہو‘‘. یہاں ایمان کا لفظ کس لیے آ رہا ہے ؟ یہ دراصل قانونی ایمان ہے جو قانونی اسلام کے مترادف ہے. اور حقیقی ایمان کیا ہے؟ وہ ہے دل میں یقین کا پیدا ہونا. ایمان کے لفظی معنی ہیں تصدیق کرنا. ایمان کے بعد ’’بِ‘‘ یا’’لِ‘‘ کا صلہ آتا ہے ’’ آمَنَ بِہ‘‘ یا ’’ آمَنَ لَـہ ‘‘ .
مقدم الذکر انداز سے ایک قلبی تصدیق‘ یقین والی تصدیق مرا د ہوتی ہے‘ جبکہ مؤخر الذکر انداز میں محض سرسری تصدیق ہوتی ہے کہ کسی نے آ کر آپ کو کوئی خبر دی اور آپ نے اس کی نفی نہیں کی. اسی لیے ایمان کی تفصیل میں آمَنْتُ بِاللّٰہ وَمَلاَئِکَتِہ وَکُتُبِہ وَرُسُلِہ… الخ کے الفاظ ’’بِ‘‘ کے ساتھ آتے ہیں. اسی طرح سورۃ البقرۃ میں الفاظ آئے ہیں:لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ (آیت ۱۷۷) ’’نیکی بس یہی نہیں کہ تم اپنا رُخ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو ‘ بلکہ نیکی (کا کمال) تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ ‘ روزِ قیامت‘ فرشتوں‘ کتاب اور تمام نبیوں پر ایمان لائے‘‘.اور: اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ (البقرۃ:۲۸۵) ’’یہ رسول (ﷺ ) اور مؤمنین ایمان لائے اُس (کتاب) پر جو اُتاری گئی اُس کی طرف اُس کے ربّ کی طرف سے.‘‘
جب دل میں ایمان ہوتا ہے تو عمل میں اس کا ظہور ہوتا ہے. جب ایمان دل کی گہرائیوں میں جاگزیں اور راسخ ہو جائے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہو‘ اللہ تعالیٰ کے کسی فرمان سے سرتابی کی جائے! دراصل جب اسلام اور ایمان کی اصطلاحات کو گڈمڈ کر دیا جاتا ہے تو پھر مغالطے پیدا ہو جاتے ہیں. سورۃ النساء اور سورۃ المائدۃ میں دو ایمانوں کا ذکر ہو رہا ہے‘ قانونی ایمان اور حقیقی ایمان. سورۃ النساء میں ارشاد ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ (آیت ۱۳۶) ’’اے ایمان والو! ایمان لاؤ اللہ پر اور اُس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اُس نے اپنے رسول پر نازل کی‘ اور اس کتاب پر جو کہ پہلے نازل کی تھی‘‘.اب یہاں کہا جا رہا ہے کہ اے ایمان والو! ایمان لاؤ. تو یہ دو ایمان ہو گئے.مراد یہ ہے کہ قانونی ایمان تو تمہیں حاصل ہو چکا ہے‘ تم نے کلمۂ شہادت پڑھا ‘تم نے اقرار کیا: آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ھُوَ بِاَسْمَائِہ وَصِفَاتِہ وَقَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہ اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَتَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ. لہذا تم قانونی مؤمن توہو گئے‘ اب حقیقی ایمان لاؤ. یہی معاملہ سورۃ المائدۃ کی آیت ۹۳کا ہے. اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب حرمت ِشراب کا آخری حکم آیا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ایک تشویش پیدا ہو گئی کہ جب شراب کی حرمت کے بارے میں قرآن مجید میں اشارات وارد ہو رہے تھے تو کاش ہم اُسی وقت اس کو چھوڑ دیتے ‘لیکن اب تو ہمیں شراب پیتے پچاس پچاس برس ہو گئےہیں‘ اب تو شراب ہمارے جسم کے ایک ایک خلیے کے اندر پہنچ چکی ہو گی‘ ہمارا تو اَب وجود ہی نجس ہو چکا ہے‘ یہ کیسے پاک ہو گا! تو یہاں اس تشویش کا ازالہ کیا گیا کہ نہیں‘ اس حکم قطعی کے آنے سے پہلے جو تم نے کھایا پیا ہے اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے. فرمایا:
لَیۡسَ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیۡمَا طَعِمُوۡۤا اِذَا مَا اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اَحۡسَنُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۹۳﴾ (المائدۃ)
’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے انہوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیااس پر کوئی گرفت نہ ہو گی جبکہ اُن کاطرزِ عمل یہ رہا ہوکہ انہوں نے تقویٰ کی روش اختیار کی اور ایمان لائے ‘اور عمل صالح کیے‘ پھر مزید تقویٰ کا اضافہ کیا اور ایمان لائے ‘پھر مزید تقویٰ اختیار کیااور احسان کی روش اختیار کی .اور اللہ محسنین سے محبت رکھتا ہے.‘‘
اسی طرح سورۃ الصف میں فرمایا گیا:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾
’’اے ایمان والو! کیا میں تمہیں بتاؤں وہ تجارت جو تمہیں دردناک عذاب سے چھٹکارا دلا دے؟ ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ. یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو.‘‘
تو جان لیجیے کہ پہلا ایمان ’’قانونی ایمان‘‘ اور دوسرا ایمان’’حقیقی ایمان‘‘ ہے. اور اس پر بھی بس نہیں‘ بلکہ سورۃ المائدۃ کی متذکرہ بالا آیت میں تو اس کے بعد تیسری منزل ’’احسان‘‘ کا ذکر ہے. آیت کے اختتامی الفاظ پھر پڑھ لیجیے: وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۹۳﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ کی اصل محبت تو محسنین سے ہے‘‘. یہ ہیں وہ تین درجے: اسلام‘ ایمان اور احسان. سورۃ الحجرات میں اسلام اور ایمان کو دو علیحدہ علیحدہ اصطلاحات میں بیان کیا گیا. چنانچہ قانونی ایمان کو ’’اسلام‘‘ کہا گیا اورحقیقی ایمان کو’’ ایمان‘‘ . اگر کوئی اس اصطلاحی فرق کو اچھی طرح سمجھ کر اور پیش نظر رکھ کر قرآن مجید کا مطالعہ کرے گا تو کہیں ٹھوکر نہیں کھائے گا. فرمایا: قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ (آیت ۱۴) ’’یہ بدو دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے. (اے نبیﷺ !) ان سے کہہ دیجیے تم ہرگز ایمان نہیں لائے ہو (اس مغالطے میں نہ رہنا)‘ بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں ‘اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا‘‘.یعنی ایمان تو وہ ہو گا جب وہ تمہارے دلوں میں راسخ ہو جائے گا. ابھی تک یہ قانونی ایمان ہے‘ جو اسلام کے درجے کی شے ہے. قانونی ایمان کی بنیاد پر تم مسلمان قرار پائے ہو. آگے فرمایا: وَ اِنۡ تُطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ ’’اور اگر تم اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے رہو تو اللہ تمہارے اعمال میں سے ہرگز کچھ کم نہیں کرے گا‘‘.
یہ ایک عجیب بات سامنے آ رہی ہے کہ ان کے ایمان کی نفی ٔ مطلق ہے: لَمْ تُؤْمِنُوْا ’’تم ہرگز ایمان نہیں لائے ہو‘‘. اور: وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ ’’اورابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا‘‘. لیکن یہاں انہیں مسلمان مانا جا رہا ہے : وَلٰـکِنْ قُوْلُوْآ اَسْلَمْنَا ’’بلکہ تم یوں کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں‘‘. اور ساتھ ہی ان کے اعمال کو قبول بھی کیا جا رہا ہے : وَ اِنۡ تُطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ ’’اور اگر تم اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے رہو تو اللہ تمہارے اعمال میں سے ہرگز کچھ کم نہیں کرے گا‘‘.اکثر لوگوں کو اس میں دھوکہ ہوا ہے کہ یہاں جن کا ذکر ہو رہا ہے وہ منافق ہیں. میں کہتا ہوں ایسا ہرگز نہیں ہے‘ منافق کا تو کوئی عمل قبول ہی نہیں‘ لہٰذا یہ منافق نہیں ہیں‘ یہ ان کا محض اسلام ہے جو بغیر ایمان کے ہے.
اس بات کو امام ابن تیمیہؒ نے اپنی کتاب ’’الایمان‘‘ کے اندر بہت خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ایمان کے بغیر بھی اسلام ہو سکتا ہے. جو شخص ابھی ایمان لایا ہے تو ظاہر بات ہے کہ وہ مسلمان تو ہو گیا ہے‘ اب ایمان اس کے دل میں کب راسخ ہو گا یہ دوسری بات ہے.جیسے ہمارا معاملہ ہے کہ ہم پیدا ہوئے تو ہمیں داہنے کان میں اذان سنا دی گئی‘ بائیں میں اقامت پڑھی گئی. ہم دو اڑھائی سال کے ہوئے تو اپنے ماں باپ کو نماز پڑھتے دیکھ کر ان کے ساتھ ہم بھی سجدے کرنے لگ گئے . پھر پانچ سات برس کے ہوئے تو نماز شروع کر دی. اس طرح اسلام تو پیدائشی طور پر حاصل ہو گیا ‘لیکن ایمان اگر آئے گا تو آتے آتے آئے گا. اللہ تعالیٰ ہمیں اُن خوش نصیبوں میں شامل فرمائے جنہیں ایمان کی دولت حاصل ہے. لہذا اسلام اور ایمان کے اندر یہ فرق لازم ہے.
یہی معاملہ ان بدوؤں کا تھا جن سے کہا جا رہا ہے کہ تم ایمان نہیں لائے. یہ وہ لوگ ہیں جو رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ کے آخری دَور میں فتح مکہ کے بعد‘بلکہ کچھ غزوۂ تبوک کے بھی بعد ایمان لائے.اس کے بعد سورۃ التوبہ کی پہلی چھ آیات نازل ہوئیں کہ اب مشرکین کے ساتھ اہل ِایمان کا کوئی معاہدہ نہیں ہے‘ سارے معاہدے ختم ہیں‘ اب چار مہینے کی مہلت ہے کہ مشرکین ِعرب میں سے جوکوئی ایمان نہیں لائے گا تو قتل کر دیا جائے گا. سورۃ التوبۃ کی یہ پہلی چھ آیات قرآن مجید کی سخت ترین آیات ہیں. سورۃ التوبۃ کے شروع میں آیت بسم اللہ نہیں ہے‘جس کی ایک تأویل یہی کی گئی ہے کہ یہ سورت تلوار ہاتھ میں لے کر نازل ہوئی ہے. آیت بسم اللہ میں تو اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی الرحمن اور الرحیم شامل ہیں‘ جبکہ یہاں تو اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمانیت کا نہیں بلکہ اُس کے جلال کا ظہور ہو رہا ہے‘چنانچہ یہاں آیت بسم اللہ نہیں ہے. یہاں اعلان کیا جا رہا ہے کہ مشرکین عرب میں سے جو ایمان نہ لایا تو اسے اب قتل کر دیا جائے . اس لیے کہ رسول اللہﷺ کی اصل بعثت بنی اسماعیل یعنی اہل عرب کے لیے تھی اور یہ اللہ تعالیٰ کا قاعدہ اور قانون رہا ہے کہ جس قوم کی طرف معین طور پر رسول بھیج دیا جاتا تھا وہ اگر ایمان نہ لاتی تھی تو برباد کر دی جاتی تھی ‘ ختم کر دی جاتی تھی. چنانچہ قومِ نوح ہلاک کی گئی‘ قومِ ہود ہلاک کی گئی‘ قومِ صالح ہلاک کی گئی‘ قومِ شعیب ہلاک کی گئی‘ سدوم و عامورہ کی بستیاں تباہ کی گئیں‘ آلِ فرعون ہلاک کیے گئے . چونکہ آپ ﷺ اُ میین عرب میں سے تھے اور ان پر آپؐ کے ذریعے سے اِتمامِ حجت ہوچکا تھا‘ لہذا اس اصول کے تحت حکم نازل ہوا کہ اب اگر وہ ایمان نہیں لاتے تو ان کو تہ تیغ کر دیا جائے گا. اس چیلنج کے بعد کچھ لوگ تو ایسے نکلے جو ایمان نہیں لائے اور جان بچانے کے لیے انہوں نے عرب سے ہجرت کر لی‘ جبکہ اکثریت نے اسلام قبول کر لیا. اب اُس وقت جنہوں نے اسلام قبول کیا‘ ان میں یقینا ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے خلوصِ دل سے اسلام قبول کیا ہو گا. لیکن ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے منافقت سے اسلام قبول کیا ہو گا کہ ٹھیک ہے اب تو مجبوری ہے‘ ایمان لے آؤ اور جان بچاؤ ‘ پھر کوئی موقع دیکھیں گے تو سر اٹھائیں گے‘ پھر کوئی جوابی انقلاب (Counter Revolution) لانے کی کوشش کریں گے. اور بعد میں ایسا ہوا بھی. اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جن کا معاملہ بَین بَین ہو‘ یعنی نہ تو ان کے دل میں بدنیتی تھی کہ انہیں منافق کہا جائے اور نہ دل میں واقعی ایمان آیا تھا کہ مؤمن قرار دیے جائیں‘ یعنی نہ تو مؤمن ہیں اور نہ منافق‘ بلکہ ایک درمیانی معاملہ ہے کہ بغیر ایمان کے اسلام ہے.
اب سوچئے کہ اِس وقت اُمت مسلمہ کی عظیم اکثریت کی اصل گمراہی کیا ہے؟ یہ کہ لوگ قانونی اسلام اور حقیقی اسلام یا حقیقی ایمان کو ایک سمجھ بیٹھے ہیں کہ جب ہم مسلمان ہیں تومؤمن بھی ہیں.یہی حماقت اور مغالطہ ہے. مسلمان ہونا اور شے ہے ‘ مؤمن ہونا اور شے ہے. ؏ ’’ز عشق تابہ صبوری ہزار فرسنگ است!‘‘ ہم چونکہ قانوناً مسلمان ہیں لہذا مغالطہ ہو گیا ہے کہ ہم مؤمن ہیں. ہماری ساری بے عملی اور بدعملی کا سبب یہی مغالطہ ہے اور اس پر ہمیں تشویش اس لیے نہیں ہوتی کہ ہم اس زعم میں ہیں کہ ہم بہرحال کلمہ گو ہیں‘ مسلمان ہیں‘ اور جب ہم مسلمان ہیں تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اہل ِایمان کے ساتھ جو وعدے کیے ہیں وہ ہمارے ساتھ پورے ہوں گے. یہ اصل مغالطہ ہے جس کا ہم شکار ہیں.قانونی اسلام کا تعلق حقیقی ایمان کے ساتھ جوڑ دینا غلط ہے. قانونی اسلام کا تعلق قانونی ایمان کے ساتھ جڑے گا ‘حقیقی ایمان کے ساتھ نہیں. اِس وقت اُمت کی عظیم اکثریت کی گمراہی کا اصل سبب یہی ہے کہ قانونی اسلام کویا قانونی ایمان کو حقیقی اسلام یا حقیقی ایمان سمجھ لیا گیا ہے. حالانکہ قرآن مجید میں اہل ایمان کے ساتھ جو وعدے بھی ہیں وہ حقیقی مؤمنین کے ساتھ ہیں.
اس حقیقی ایمان کے اثرات و ثمرات اور آثار قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر بیان کیے گئے ہیں. ان میں سے سب سے جامع مقام سورۃ الحجرات کی آخری آیات ہیں. متذکرہ بالا آیت سے اگلی آیت میں ایمانِ حقیقی کی نہایت جامع تعریف بیان کی گئی ہے :
اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾
’’مؤمن تو صرف وہ ہیں جو ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسول پر‘ پھر شک میں ہرگز نہیں پڑے‘ اور انہوں نے جہاد کیا اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں. صرف یہی لوگ (اپنے دعوائے ایمان میں) سچے ہیں.‘‘
اب میں آپ کے سامنے ایک اجمالی سا نقشہ رکھنا چاہتا ہوں. ہمارے ہاں اس ضمن میں بہت زیادہ کلامی بحثیں ہوئی ہیں‘ بحث و تمحیص پر بہت زور رہا ہے‘ منطق کا استعمال کرنا‘ بال کی کھال اتارنا‘ یہ سارا کام ہی ہمارے ہاں ہوا ہے. ایمان کے لیے اقرار باللسان‘ تصدیق بالقلب اور عمل صالح‘ یہ تین چیزیں لازم و ملزوم ہیں یا نہیں‘ اس سوال پر بڑی بحثیں‘ بڑے مباحثے‘ بڑے مناظرے اور بڑے علمی معرکے ہوئے ہیں اور مختلف نقطہ ہائے نظر کے حامل بڑے عجیب عجیب گروہ سامنے آئے ہیں. ان میں سے ایک فرقہ ’’کرامیہ‘‘ کا تھا. اگرچہ اس نام سے اب کوئی فرقہ ہمارے ہاں نہیں ہے ‘مگر ہمارا عمل انہی سے ملتا جلتا ہے. ان کا موقف یہ تھا کہ محض اقرارٌ باللسان سے نجات ہوجائے گی‘ کوئی اچھا عمل کر لیا تب بھی ٹھیک ہے اور اگر نہیں کیا توپھربھی کوئی بات نہیں. ان کا یہ موقف ایک حدیث نبویؐ پر مبنی تھا.
اگر کوئی پورے مجموعۂ احادیث کو سامنے رکھنے کی بجائے صرف ایک حدیث لے لے تو پھر اتنی بڑی ٹھوکر کھانے کا امکان ضرور رہتا ہے. بخاری شریف میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ ثُمَّ مَاتَ عَلٰی ذٰلِکَ اِلاَّ دَخَلَ الْجَنَّۃَ (۶) ’’کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو کہے لا الٰہ الا اللہ‘ پھر اسی پر اُس کی موت واقع ہو جائے ‘ مگر یہ کہ وہ جنت میں داخل ہو گا‘‘. حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ؟ ’’چاہے اُس شخص نے زنا کیا ہواور چاہے چوری کی ہو (تب بھی)؟‘‘ آپؐ نے فرمایا : وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ؟ ’’ہاں‘ چاہے اُس نے زنا کیا ہو‘ چاہے چوری کی ہو‘‘. حضرت ابوذرؓ نے پھر سوال کیا: وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ؟ ’’چاہے اس نے زنا کیا ہو‘ اور چاہے چوری کی ہو؟‘‘ آپﷺ نے پھر فرمایا: وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ؟ ’’ہاں‘ چاہے اُس نے زنا کیا ہو‘ چاہے چوری کی ہو‘‘. حضرت ابوذرؓ نے تیسری بار پھر کہا: وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ؟ ’’چاہے اس نے زنا کیا ہو اور چاہے چوری کی ہو؟‘‘ آپؐ نے پھر فرمایا: وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ‘ عَلٰی رَغْمِ اَنْفِ اَبِیْ ذَرٍّ ’’چاہے اس نے زنا کیا اور چاہے اس نے چوری کی ہو (تب بھی وہ جنت میں داخل ہو جائے گا)‘ چاہے ابوذر کو یہ پسند ہویا نہ ہو‘‘. اب پورے مجموعۂ احادیث کو چھوڑ کر صرف ایک حدیث کو لے لیا گیا تو اتنی خرابیاں پیدا ہوئیں.
ایک دوسرا قول یہ ہے کہ اصل شے صرف تصدیق قلبی ہے‘ زبان سے اقرار بھی لازم نہیں ہے. بعض حالات ایسے ہو سکتے ہیں جن میں یہ بات صحیح ہو. چنانچہ قرآن مجید میں سورۃ المؤمن میں آل فرعون کے ایک مؤمن کا ذکر ہے: رَجُلٌ مُّـؤْمِنٌ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَکْتُمُ اِیْمَانَہٗ (المؤمن:۲۸) ’’ آلِ فرعون میں سے ایک مؤمن شخص جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا‘‘. حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کا معاملہ فرعون کے لیے اس قدر مشکل تھا کہ اگرچہ وہ سمجھتا تھا کہ میں تو مالک الملک ہوں‘ قادرِ مطلق ہوں‘ پھربھی وہ محسوس کر رہاتھا کہ اب اگر میں نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کے خلاف کوئی قدم اٹھایا تو ہو سکتا ہے کوئی بلوا ہو جائے‘ کوئی فساد پیدا ہو جائے‘ کوئی ہنگامہ پیدا ہو جائے‘ لہذا پہلے وہ درباریوں کے سامنے یہ بات رکھ رہا ہے کہ تم ذرا مجھے اجازت دو کہ میں موسیٰ کو قتل کر (۶) صحیح البخاری‘ کتاب اللباس‘ باب ثیاب البیض. وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب من مات لا یشرک باللہ شیئا دخل الجنۃ. دوں. اِس موقع پر درباریوں میں سے ایک باعزیمت شخص جو ابھی تک اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھے‘ کھڑے ہوئے اورانہوں نے ایسی دھواں دار تقریر کی جو بلاغت و فصاحت کا ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے. قرآن مجید میں کسی رسول اور نبی کی تقریر بھی اتنی مفصل نقل نہیں ہوئی ہے جتنی اس ’’رَجُلٌ مُّـؤْمِنٌ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ‘‘ کی تقریر نقل ہوئی ہے. انہوں نے حاضرین کے سامنے ایسا سماں باندھا کہ فرعون کو بس کرنا پڑی اور اس نے کہا: مَاۤ اُرِیۡکُمۡ اِلَّا مَاۤ اَرٰی وَ مَاۤ اَہۡدِیۡکُمۡ اِلَّا سَبِیۡلَ الرَّشَادِ ﴿۲۹﴾ (المؤمن) ’’میں تو تم لوگوں کو وہی رائے دے رہا ہوں جو مجھے مناسب نظر آتی ہے اور میں اسی راستے کی طرف تمہاری راہنمائی کرتا ہوں جو ٹھیک ہے‘‘. اب دیکھئے کہ اگر اُن مؤمن آلِ فرعون کی اس واقعہ سے پہلے اسی حالت میں وفات ہو جاتی تو انہیں کیسے مسلمان مانا جاتا! لیکن یہ ایک امکانی صورت ہے جو میں نے آپ کے سامنے رکھ دی.
اس ضمن میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث بھی مروی ہے : اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ وَمُعَاذٌ رَدِیْفُہٗ عَلَی الرَّحْلِ ’’ایک موقع پر رسول اللہﷺ سواری پر بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ آپؐ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے‘‘.اس موقع پر آپؐ نے تین بار فرمایا: یَا‘مُعَاذُ ’’اے معاذ!‘‘ انہوں نے تین بار ہی جواب دیا: لَـبَّیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَسَعْدَیْکَ. اب رسول اللہﷺ نے فرمایا: مَا مِنْ اَحَدٍ یَشْھَدُ اَنْ لاَ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِہٖ اِلاَّ حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ (۷) ’’جو شخص بھی دل کی گہرائی اور صداقت سے یہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کی آگ کو حرام کر دے گا‘‘. اس حدیث میں شہادت کے ساتھ قلبی یقین کا بھی ذکر ہے‘ لہذا یہ ایمان صرف قانونی ایمان نہیں ‘ بلکہ قلبی ایمان ہے اور رسول اللہﷺ فرما رہے ہیں کہ ایسی شہادت دینے والے پر اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ کو حرام کر دے گا. (۷) صحیح البخاری‘ کتاب العلم‘ باب من خص بالعلم قومًا دون قوم کراھیۃ ان لا یفھموا. وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب الدلیل علی ان من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعًا.