اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَ مَنۡ یُّسۡلِمۡ وَجۡہَہٗۤ اِلَی اللّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ؕ (لقمٰن:۲۲)
بَلٰی ٭ مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ۪ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۱۱۲﴾٪ (البقرۃ)
وَ مَنۡ اَحۡسَنُ دِیۡنًا مِّمَّنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ وَّ اتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا ؕ وَ اتَّخَذَ اللّٰہُ اِبۡرٰہِیۡمَ خَلِیۡلًا ﴿۱۲۵﴾ (النساء:۱۲۵)
لَیۡسَ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیۡمَا طَعِمُوۡۤا اِذَا مَا اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اَحۡسَنُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾ (المائدۃ) 

’’حدیث جبریل ؑ‘‘ ہمارے زیر مطالعہ ہے اور اس سے قبل تین نشستوں میں اس پر گفتگو ہو چکی ہے‘ جن میں ہم نے اس کے اہم ترین حصے کا مطالعہ کر لیا ہے. ذرا پس منظر کو ذہن میں لے آیئے کہ ایک موقع پر رسول اللہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ مسجد نبویؐ میں تشریف فرما تھے کہ اچانک ایک شخص نمودار ہوا. اس کے بال انتہائی سیاہ اور کپڑے انتہائی سفید تھے ‘ اس پر سفر کے کوئی آثار نہیں تھے اور نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کوئی اُس سے واقف تھا. بہرحال وہ شخص بڑھتا چلا گیا اور رسول اللہ کے عین سامنے جا کر بیٹھ گیا‘ آپؐکے گھٹنوں سے اپنے گھٹنے ملا دیے اور آپؐ کے زانوؤں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ دیے. اس شخص نے آپؐ سے کچھ سوالات کیے جن کے آپؐ نے جوابات دیے. جب وہ شخص روانہ ہوگیا تو رسول اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ اے عمر! تمہیں معلوم ہے کہ یہ شخص کون تھا؟ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے عرض کیا : ’’اللہ اور اس کا رسول  بہتر جانتے ہیں‘‘. آپؐ نے فرمایا: فَاِنَّہٗ جِبْرِیْلُ‘ اَتَاکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْـنَـکُمْ ’’یہ جبریل ؑ تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے.‘‘

حضرت جبریل علیہ السلام نے رسول اکرم سے پہلا سوال کیا: یَا مُحَمَّدُ اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلَامِ! ’’اے محمد( )! مجھے بتایئے کہ اسلام کیا ہے‘‘. آپؐ نے جواب دیا تو جبریل ؑ نے تصدیق و توثیق کرتے ہوئے 
کہا: صَدَقْتَ ’’آپ نے سچ فرمایا‘‘. انہوں نے دوسرا سوال کیا : فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِیْمَانِ! ’’مجھے ایمان کے بارے میں بتایئے!‘‘ آپ نے اس کا جواب دیا تو انہوں نے کہا :صَدَقْتَ ’’آپؐ نے سچ فرمایا‘‘.جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ سے تیسرا سوال کیا: فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِحْسَانِ! ’’مجھے احسان کے بارے میں بتایئے ‘‘.آپؐ نے فرمایا: اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ ‘ فَاِنْ لَمْ تَــکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ ’’تمہارا اس کیفیت میں اللہ کی بندگی کرنا گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو. پس اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے (یہ کیفیت پیدا نہیں ہو رہی) تو (یہ کیفیت تو پیدا ہو کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘. ہم ’’اسلام‘‘ اور ’’ایمان‘‘ پر تو گزشتہ نشستوں میں مفصل گفتگو کر چکے ہیں اور آج کی نشست میں ہمارا موضوع یہی ’’احسان ‘‘ ہے.
’’احسان‘‘ کا لفظ ’’حُسن‘‘ سے بنا ہے جو کہ اردو میں بھی مستعمل ہے. ہر شخص بخوبی جانتا ہے کہ حسن کے معنی ہیں خوبصورتی‘ عمدگی‘ موزونیت. اور احسان کے معنی ہیں کسی کو حسین بنانا. حَسُنَ‘ یَحْسُنُ کے معنی ہیں حسین ہونا. جیسے رسول اللہ کی تعریف میں کہا گیاہے : حَسُنَتْ جَمِیْعُ خِصَالِہ ’’آپؐ کی تو تمام ہی عادات نہایت حسین تھیں‘‘.اور اَحْسَنَ‘ یُحْسِنُ کے معنی ہیں کسی کو حسین بنانا . ’’احسان‘‘ کو لفظی اعتبار سے اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے تاکہ اس کی اصل حقیقت واضح ہو جائے‘اس لیے کہ بدقسمتی سے احسان کی جگہ ہمارے ہاں ’’تصوف‘‘ کا لفظ معروف ہو گیا ہے‘ اور اتنا معروف ہوا ہے کہ اس نے لفظ ’’احسان‘‘ کو گویا ہماری لغت سے ہی خارج کر دیا ہے. 

احسان کے ایک لفظی معنی ہیں کسی پر بھلائی کرنا. سورۃ القصص میں ہے کہ لوگوں نے قارون سے کہا تھا : وَاَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَـیْکَ (آیت ۷۷’’اورتم بھی لوگوں کے ساتھ اچھائی کا معاملہ کرو جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ اچھائی کی ہے‘‘.یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں دولت مند بنایا ہے تو تم بھی لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے‘ ان کی مدد میں اپنے مال میں سے خرچ کرو. تو احسان کے معنی یہ بھی ہیں کہ کسی کے ساتھ حسن سلوک کرنا‘ بھلائی کرنا. لیکن ہوا یہ ہے کہ لفظ ’’تصوف‘‘ نے آ کر احسان کے اُس اصلی اور بنیادی معنی کو ذہنوں سے بالکل نکال دیا ہے اور ہمارے ذہنوں میں احسان کے صرف یہی معنی (حسن سلوک) رہ گئے ہیں. حالانکہ تصوف کا لفظ نہ قرآن مجید میں آیا ہے نہ حدیث میں.

رسول اللہ کے انتقال کے تقریباً دو سو برس بعد تک یہ لفظ استعمال نہیں ہوا. ڈاکٹر میر ولی الدین ایک بہت بڑے مصنف اور مفکر و فلسفی تھے‘ حیدر آباد دکن کی جامعہ عثمانیہ میں شعبۂ فلسفہ کے ہیڈ تھے اور’’ قرآن اور تصوف‘‘ کے عنوان سے ان کی کتاب بھی ہے‘ انہوں نے اس لفظ پر تحقیق کی ہے اور رسالہ قشیریہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ لفظ پہلی مرتبہ ۸۲۲ء (بمطابق ۲۰۰ھ) میں یعنی آنحضور کے انتقال کے ۱۹۰ برس بعد استعمال ہوا ہے‘ اس لیے کہ آپ کا انتقال ۶۳۲ء میں ہوا ہے. ان کے خیال میں اس لفظ ’’تصوف‘‘ کے بارے میں یہ بھی اتفاق نہیں ہو سکا کہ اس کا مادہ کیا ہے. کوئی کہتا ہے یہ ’’صفا‘‘ سے بنا ہے‘ کسی کے خیال میں ’’صف‘‘ سے بنا ہے اور کسی کی رائے ہے کہ یہ ’’صُفہ‘‘ سے بنا ہے. لیکن ڈاکٹر میر ولی الدین کی رائے میں یہ تمام امکانات قطعاً غلط ہیں. ان کے خیال میں یہ صرف لفظ ’’صُوف‘‘ سے بنا ہے‘ جس کے معنی ’’اُون‘‘ کے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ اس دَور میں آ کر جن لوگوں نے روحانیت کے میدان کو اپنی جولان گاہ بنایاتو انہوں نے اُونی لباس پہننا شروع کر دیا تاکہ جسم کو چبھے اور اسے بجائے راحت دینے کے تکلیف پہنچائے. دراصل روحانیت اور باطنیت (mysticism) کے میدان میں‘ چاہے وہ Christian mysticism ہو‘ چاہے Hindi mysticism ہو‘ چاہے New Platonism ہو‘ یہ چیز لازم ہوتی ہے کہ اپنے نفس کو تکلیف اور ایذا پہنچاؤ. تو اُن کے خیال میں اس ’’صُوف‘‘ سے لفظ ’’صوفی‘‘ بنا ہے.واللہ اعلم!

لفظ تصوف کے بارے میں ایک او ر تصور بھی رہا ہے ‘جس کی اگرچہ این میری شمل نے بڑی تردید کی ہے‘ لیکن میرا گمان یہی ہے کہ لفظ ’’تصوف‘‘ کا ماخذ یونانی لفظ ’’sophia‘‘ ہے‘جس کے معنی ہیں حکمت. چنانچہ فلاسفی (Philosophy) کا لفظ جو ہمارے ہاں معروف ہے ‘وہ اصل میں ’’فائلوسوفی‘‘ ہے جس کے معنی ہیں وہ حکمت جو منطق پر مبنی ہو. ایسے ہی تھیوسوفی (Theosophy) کا مطلب ہے حکمت دین‘ معرفت خداوندی کا علم یا بالفاظِ دیگر وجدان. یعنی ایک تو مذہب کا عوامی اور عملی پہلو ہے اور ایک ہے اس کا علمی ‘ فکری اور باطنی پہلو.آج بھی کراچی میں بندر روڈ پر تھیوسوفیکل ہال ہے. ایسے ہی دنیا میں Theosophical Societies رہی ہیں تاکہ تمام مذاہب کے اندر جو باطنی حکمت ہے اس کو ایک قدرِ مشترک کے طور پر سامنے لایا جائے.

بہرحال ’’احسان‘‘ کے معنی کسی کے ساتھ حسن سلوک کرنا بھی ہیں اور کسی شے کو حسین بنانا بھی. اب میں حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث نبوی پیش کرتا ہوں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ الْاِحْسَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ ’’یقینا اللہ نے ہر چیز کے بارے میں واجب کیا ہے کہ اس میں خوبصورتی پیدا کی جائے.‘‘اس کی آپ نے مثال دی : فَاِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِِتْلَۃَ ’’پس جب تمہیں کسی کو قتل کرنا ہو تو خوبصورتی کے ساتھ قتل کرو‘‘.قتل کے اندر خوبصورتی سے یہ مراد ہے کہ اگر کوئی شخص شریعت کی گرفت میں آ گیا ہے‘ اس پر قتل کی حد نافذ ہو گئی ہے تو اسے اِس انداز اور طریقے سے قتل کیا جائے کہ اسے کم سے کم تکلیف ہو. قرونِ اولیٰ میں جبکہ اسلامی ریاست اپنی آب و تاب کے ساتھ قائم تھی‘ پیشہ ور جلاد ہوتے تھے جو اپنے اس فن میں ماہر تھے اور وہ تیز دھار آلے سے ایک ہی وار میں گردن کو تن سے جدا کر دیتے تھے جس سے تکلیف کم سے کم ہوتی تھی. اب بھی سعودی عرب میں اسلامی سزائیں نافذ ہیں اور سزاکے طور پر سرقلم ہوتے ہیں تو اِس کا یہی طریقہ ہوتا ہے کہ پیشہ ور جلاد تیز دھار آلے سے ایک ہی وار میں گردن اڑا دیتے ہیں.حدیث کے اگلے ٹکڑے میں آپ نے فرمایا: وَاِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ ’’اور جب (کسی جانور کو) ذبح کرنے لگو تو خوبصورتی اور عمدگی سے ذبح کرو‘‘. اور اس کی وضاحت یوں فرمائی : وَلْیُحِدَّ اَحَدُکُمْ شَفْرَتَہٗ فَلْیُرِحْ ذَبِیْحَتَہٗ (۱۱’’اورتم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ ذبح کرتے وقت اپنی چھری کو تیز کرلے اور اپنے ذبیحہ کو راحت پہنچائے (اسے زیادہ تکلیف نہ ہونے دے).‘‘اگر کند چھری سے جانور کو ذبح کرنے کی کوشش کی جائے گی تو ذبیحے کو یقینا بہت زیادہ تکلیف ہو گی جبکہ تیز دھاروالی چھری کے ساتھ ایک ہی وار میں جانور ذبح ہو جائے گا اور اسے تکلیف کم سے کم ہوگی.

بہرحال آپ کے سامنے احسان کے لفظی معنی آ گئے ہیں. اسی سے قرآن مجید کی اصطلاح ہے ’’احسانِ اسلام‘‘ یعنی اسلام میں خوبصورتی پیدا کرنا.ایک شخص کا اسلام تو یہ ہے کہ وہ محض مارے باندھے فرائض مثلاً نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ ادا کر رہا ہے. اس میں اس کی دلی آمادگی اور دلی جذبہ شامل نہیں ہے. منہیات کے معاملے میں بھی بے دلی اور تھڑدلے پن کے ساتھ‘ طبیعت کی عدم آمادگی سے محض خانہ پوری کر رہا ہے‘جبکہ ایک شخص پورے اہتمام اور توجہ کے ساتھ اور دل کی پوری آمادگی سے فرائض انجام دے رہا ہے ‘نواہی سے طبیعت کی پوری آمادگی کے ساتھ احتراز کر رہا ہے‘نفلی عبادات پر بھی بھرپور توجہ ہے تو گویا اس کا اسلام درجۂ احسان کو پہنچ گیا ہے. اس کے لیے میں نے’’احسانِ اسلام‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے‘ یا اسے ’’سلوکِ محمدی ‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے. اسی حوالے سے میں نے آغازِخطاب میں قرآن مجید کے مختلف مقامات سے تین آیات تلاوت کی ہیں. ان میں سے ایک سورۂ لقمان کی آیت ہے جو مکی سورت ہے. فرمایا گیا: 

وَ مَنۡ یُّسۡلِمۡ وَجۡہَہٗۤ اِلَی اللّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ؕ (لقمٰن:۲۲)
’’اورجو شخص اپنے چہرے کو اللہ کے سامنے جھکا دے (اپنے آپ کو اللہ کے (۱۱) صحیح مسلم‘ کتاب الصید والذبائح وما یوکل من الحیوان‘ باب الامر باحسان الذبیح والقتل وتحدید الشفرۃ. حوالے کر دے) اور وہ محسن ہوتواُس شخص نے فی الواقع مضبوط حلقے کو تھام لیا.‘‘

العُروۃ الوُثْـقیٰ یعنی مضبوط حلقہ یا کنڈا پکڑنے سے کیا مراد ہے‘ اسے یوں سمجھئے کہ اگر کوئی شخص بحری جہاز کے عرشے پر کھڑا ہو اور وہ سمندر میں گر پڑے‘ اسے تیرنا بھی نہ آتا ہو ‘لیکن اس شخص کے ہاتھ میں جہاز کا کوئی کنڈا آ جائے تو یقینا وہ یہی سمجھے گا کہ اب یہ کنڈا ہی اس کی جان ہے‘ اس کنڈے کو اُس نے چھوڑا تو وہ ڈوب جائے گا اوراگر اسے مضبوطی سے تھامے رکھا تو بچنے کا امکان موجود ہے.

اس آیت مبارکہ میں اسلام اور احسان کو جمع کر دیا گیا ہے. یعنی اس شخص کا اسلام مارے باندھے اور زبردستی کا نہیں ہے‘ بلکہ وہ دلی آمادگی کے ساتھ شریعت کے اوامر و نواہی پر کاربند ہے.اگرچہ مارے باندھے کے اسلام کو بھی قانونی حیثیت حاصل ہے. اگر کوئی شخص کلمہ پڑھ رہا ہے تو آپ اسے قتل نہیں کر سکتے‘ اِلا یہ کہ اس نے کوئی ایسا جرم کیا ہو کہ اس کی بنا پر اس کی سزا قتل ہو یا یہ کہ اس کا مرتد ہونا ثابت ہو جائے‘ بصورتِ دیگر اسلام اس کے لیے ڈھال ہے. اس کے بارے میں ہم تفصیل سے گفتگو کر چکے ہیں کہ عین حالت ِجنگ میں بھی اگر ایک کافر یہ محسوس کرے کہ اب میں بے بس ہو گیا ہوں‘ لہذا وہ کلمہ پڑھ دے تو پھر بھی آپ اس کو اپنے گمانِ غالب کی بنا پر کہ اس نے صرف جان بچانے کے لیے یہ حیلہ کیا ہے‘ قتل نہیں کر سکتے. اس کا کلمہ اس کے پاس ڈھال ہے. تو قانونی سطح پراسلام کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلم ہے‘ لیکن اصل اسلام جو مطلوب ہے وہ احسان والا اسلام ہے‘ یعنی اس میں خوبصورتی ہو‘ اس میں طبیعت کی پوری آمادگی ہو.پورے انہماک کے ساتھ‘ اپنی امکانی جدوجہد کے ساتھ ان کاموں کو انجام دیا جائے.

دوسرا مقام سورۃ البقرۃ کی آیت ہے :
بَلٰی ٭ مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ۪ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۱۱۲﴾٪ 
’’کیوں نہیں‘ جس شخص نے اپنا چہرہ اللہ کے سامنے جھکا دیا (سرتسلیم خم کر دیا) اوروہ ہوا محسن (یعنی اس نے بہت عمدگی اور دلی آمادگی کے ساتھ ‘بہتر سے بہتر اندازمیں اوامر و نواہی کا خیال رکھا) تو اس کے لیے یقینا اس کا اجر اس کے ربّ کے پاس محفوظ ہے. اور ایسے لوگوں کے لیے نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے.‘‘

اس ضمن میں تیسرا مقام سورۃ النساء کا ہے ‘جہاں فرمایا گیا:

وَ مَنۡ اَحۡسَنُ دِیۡنًا مِّمَّنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ… (آیت ۱۲۵)
’’اور اُس شخص سے بہتر دین کس کا ہو گا جس نے اپنا چہرہ اللہ کے سامنے جھکا دیا (سرتسلیم خم کر دیا) اور وہ بھی احسان کی کیفیت کے ساتھ…‘‘

مذکورہ بالا آیات میں بھی دیکھئے کہ اسلام اور احسان کو جوڑ دیا گیا ہے . حدیث زیر مطالعہ میں ’’اسلام‘ ‘اور ’’احسان‘‘کے درمیان ’’ایمان‘‘ کا ذکر ہے. حضرت جبریل ؑ نے رسول اللہ سے پہلا سوال کیا: اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلَامِ! دوسرا سوال کیا : اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِیْمَانِ! اور پھر اگلا سوال کیا: اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِحْسَانِ! یہ وہی بات ہے جو سورۃالمائدۃ کی آیت ۹۳ میں آئی ہے :

لَیۡسَ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیۡمَا طَعِمُوۡۤا اِذَا مَا اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اَحۡسَنُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾ 
’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے انہوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیا اس پر کوئی گرفت نہ ہو گی جبکہ ان کا طرزِ عمل یہ رہا ہو کہ انہوں نے تقویٰ کی روش اختیار کی اور ایمان لائے اور عمل صالح کیے‘ پھر مزید تقویٰ کا اضافہ کیا اور ایمان لائے‘ پھر مزید تقویٰ اختیار کیا اور احسان کی روش اختیار کی. اور اللہ محسنین سے محبت رکھتا ہے.‘‘

یہاں تین درجے آ رہے ہیں :اسلام‘ ایمان اور احسان. اور حدیث زیر مطالعہ میں بھی یہی تین درجے ہیں: اسلام‘ ایمان اور احسان.

اب یہاں دیکھئے کہ رسول اللہ نے احسان کی کیا تعریف بیان فرمائی. حضرت جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ سے استفسار کیا: فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِحْسَانِ! ’’اب آپ مجھے احسان کے بارے میں بتایئے‘‘.تو آپؐ نے جواب ارشاد فرمایا: اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ ‘ فَاِنْ لَمْ تَــکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ ’’یہ کہ تم اِس کیفیت میں اللہ کی بندگی کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو. پس اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے (یہ کیفیت پیدا نہیں ہو رہی) تو (یہ کیفیت تو پیدا ہو کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘. یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کے الفاظ ہیں. انہی کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکی روایت کے الفاظ ہیں: اَنْ تَخْشَی اللّٰہَ تَعَالٰی کَاَنَّکَ تَرَاہُ ‘ فَاِنْ لَّمْ تَـکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّـہٗ یَرَاکَ ’’کہ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اِس شدت کے ساتھ کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو. پس اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے (یہ کیفیت پیدا نہیں ہو رہی) تو (یہ کیفیت تو پیدا ہو کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے.‘‘اور حبرالامۃ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکی روایت کے الفاظ ہیں: اَنْ تَعْمَلَ لِلّٰہِ… ’’کہ تو عمل کرے اللہ کے لیے (یا محنت کرے اللہ کے لیے)…‘‘ یہ تین الفاظ ذہن میں رکھئے : اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ ‘ اَنْ تَخْشَی اللّٰہَ ‘ اَنْ تَعْمَلَ لِلّٰہِ . حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت‘ جو کہ حدیث جبریل ؑ کا مقبولِ عام version ہے‘ اس میں لفظ ’’عبادت‘‘ آیا ہے. چونکہ ہمارے ہاں عوامی سطح پر عبادت کا محدود تصور ہے لہٰذا یہ لفظ اس حدیث کو سمجھنے میں حجاب بن گیا ہے. عوامی سطح پر عبادت کا تصور محض نماز ‘روزہ‘ حج اور زکوٰۃ تک محدود ہے‘ اور ’’احسان‘‘ انہی چیزوں کے ساتھ مقید ہو کر رہ گیا ہے کہ بس نماز بہتر سے بہتر ہو اور بڑی عمدگی سے پڑھی جائے. اس میں خشوع و خضوع ہو‘ تعدیل ِارکان کا لحاظ رکھا جائے‘ وغیرہ وغیرہ. ایسے ہی دیگر عبادات خوش اسلوبی سے ادا کی جائیں اور بس. احسان کو صرف عبادات تک محدود کر دینے سے اس حدیث کے عموم میں محجوبیت پیدا ہو سکتی تھی‘ مگر اللہ کا شکر ہے کہ دیگر دو روایتوں کے اندر اس کا مفہوم کھل کر سامنے آرہا ہے.

چنانچہ اس حدیث میں عبادت کا مفہوم صرف عبادات تک محدود نہیں ہے‘ بلکہ یہ ہمہ گیر ہے‘ البتہ اس میں عبادات بھی شامل ہیں. دراصل عبد کے معنی غلام کے ہیں اور غلامی میں آقا کی ہمہ تن‘ ہمہ وقت اور ہمہ جہت اطاعت ہوتی ہے. اس لیے کہ غلام مملوک ہوتا ہے‘ ملازم (employee) نہیں ہوتا کہ ا س نے اتنے گھنٹے کام کرنا ہے‘ باقی اوقات میں وہ آزاد ہے. لہذا عبادت اور بندگی میںemployee اور employer کا تعلق ذہن سے نکال دیجیے! ملازم تو کہہ سکتا ہے کہ آپ نے مجھے باورچی کی حیثیت سے ملازم رکھا ہے لہٰذا میں آپ کے گھر کی صفائی نہیں کروں گا. لیکن غلام تو اپنے آقا کی ملکیت ہوتا ہے‘ لہذا وہ اسے یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں فلاں کام تو کروں گا ‘فلاں کام نہیں کروں گا. اسے تو ہمہ وقت‘ ہمہ تن اور ہمہ جہت اطاعت کرنی ہے. سورۃ الذّٰریٰت میں دو ٹوک الفاظ میں فرمایا گیا:وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ ’’اورمیں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر اپنی عبادت (ہر آن بندگی) کے لیے.‘‘ شیخ سعدیؒ نے اپنے ایک شعر میں اس آیت کی بہت خوبصورت ترجمانی کی ہے: ؎

زندگی آمد برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی!

دوسری چیز جو اِس عبادت کا لازمی حصہ ہے وہ عبادت میں ’’محبت‘‘ کا عنصر ہے. یعنی عبادتِ الٰہی کا مطلب ہے محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر ہمہ تن اور ہمہ جہت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا. اس کے لیے فارسی کا ایک لفظ ہے ’’بندگی‘‘ اور ایک ہے ’’پرستش‘‘. ان دونوں کو جمع کریں گے تو عبادت بنے گی.بہرحال عبادات یعنی نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ ہی عبادت نہیں ہیں‘ البتہ یہ عبادت میں شامل ضرور ہیں. یہ عظیم تر اور ہمہ گیر عبادت یعنی ہر آن بندگی کے لیے انسان کو تیار کرتی ہیں اور اس کے لیے مدد فراہم کرتی ہیں.اس لیے کہ عبادت یعنی ہمہ تن‘ ہمہ وقت اور ہمہ جہت اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اطاعت کرنا آسان کام نہیں ہے. اس کے لیے مدد کی ضرورت ہے. نماز ‘روزہ ‘ زکو ٰۃ اور حج اسی کام کے لیے مدد فراہم کرتے ہیں.

رسول اللہ فرما رہے ہیں کہ احسان یہ ہے کہ تم اِس کیفیت میں اللہ کی بندگی کرو‘ یا بالفاظِ دیگر اس کیفیت میں اللہ سے ڈرو‘ اس کی راہ میں جدوجہد اور بھاگ دوڑ کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو. یہ اصل میں ایمان و یقین کی انتہائی کیفیت کا نام ہے. ایمان درحقیقت بِالْغَیْبِ ہے. اللہ تعالیٰ ہمارے سامنے تو نہیں ہے ‘البتہ ہمارے پاس ضرور ہے. جیسے فرمایا گیا: وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ ﴿۱۶﴾ (قٓ) ’’اورہم انسان سے اس کی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں‘‘.لیکن غیب کا ایک پردہ حائل ہے . دراصل حدیث زیر مطالعہ میں ایمان کی شدت اور اس کی ایک جہت (dimension) بیان ہو رہی ہے کہ ایمان کی گہرائی اتنی شدید ہو کہ گویا تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو. یہاں الفاظ آئے ہیں: کَاَنَّکَ تَرَاہُ ’’گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو‘‘. اس لیے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ کو دیکھنا ممکن نہیں ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر ہیں. انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ مکالمے کا شرف نصیب فرمایا تو انہوں نے مکالمے کے شرف سے ہمت پا کر استدعا کی: قَالَ رَبِّ اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَیۡکَ ؕ (الاعراف:۱۴۳’’اے پروردگار! تو مجھ کو یارائے نظر دے کہ میں تجھے دیکھوں (یعنی مجھے اپنا دیدار نصیب فرما)‘‘.تو جواب ملا : لَنْ تَرٰٹنِیْ ’’تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے‘‘. بلکہ رسول اللہ کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ آپؐ نے شبِ معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا یا نہیں . قرآن مجیدمیں تو یہی ہے کہ : لَقَدۡ رَاٰی مِنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِ الۡکُبۡرٰی ﴿۱۸﴾ (النجم) ’’اُس نے اپنے ربّ کی عظیم ترین آیات کا مشاہدہ کیا‘‘. لیکن بہرحال صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ایک رائے یہ موجود ہے کہ آپؐ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا. چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے یہی ہے ‘البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ نہیں ہے. اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی جب پوچھا گیا کہ کیا رسول اکرم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا؟ تو آپؓ نے بہت خوبصورت الفاظ میں فرمایا: نُوْرٌ اَنّٰی یُرٰی؟ ’’وہ تو نور ہے‘ اسے دیکھا کیسے جائے گا؟‘‘ اس لیے کہ نور کے ذریعے سے تو آپ کسی چیز کو دیکھتے ہیں لیکن نور کو تو نہیں دیکھ سکتے! بہرحال کَاَنَّکَ تَرَاہُ سے مراد ہے اللہ پر‘ اس کے وجود اور اس کی حقیقت پر اِس قدر یقین ہو جائے جس قدر کسی چیز کو آنکھوں سے دیکھنے سے یقین پیدا ہوتا ہے . 

رسول اللہ کے جو اگلے الفاظ ہیں: فَاِنْ لَمْ تَــکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ ’’پس اگر تم اسے نہیں دیکھ سکتے (یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی) تو (کم از کم یہ کیفیت تو پیدا ہو کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ‘‘.اس ٹکڑے کے دو مفہوم لیے گئے ہیں. ایک تو یہ کہ یہ پہلے ٹکڑے کی وضاحت ہے کہ اگرچہ تم اللہ کو نہیں دیکھ پاتے لیکن وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے. دوسرا مفہوم یہ لیا گیا ہے کہ یہ احسان کا ادنی ٰ درجہ ہے ورنہ اونچا درجہ تو یہی ہے کہ ایمان کے اندر اتنی شدت پیدا ہو جائے گویا تم اللہ کو فی الواقع اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو. لیکن اگر یہ کیفیت حاصل نہ ہو سکے تو اس سے کم ترد رجے میں یہ یقین ہو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے. یعنی یہ استحضار ہو کہ میں ہر آن اللہ کی نگاہ میں ہوں‘ اللہ مجھے دیکھ رہاہے. قرآن مجید میں رسول اللہ سے خطاب فرماتے ہوئے کہاگیا: فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا (الطور:۴۸’’پس (اے نبیؐ !) آپ یقینا ہماری نگاہوں میں ہیں‘‘.ہم آپ کو دیکھ رہے ہیں. بندۂ مؤمن کے لیے یہ کیفیت کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے‘ بہت حوصلہ افزا اور پرمسرت ہوتی ہے. جب وہ کوئی نیک کام کر رہا ہوتا ہے‘ فی سبیل اللہ کوئی کام کر رہا ہوتا ہے‘ دین کی کوئی خدمت سرانجام دیتے ہوئے اس کے لیے بھوک پیاس برداشت کر رہا ہوتا ہے اور تکلیف جھیل رہا ہوتا ہے تو اُس وقت یہ احساس اس کے لیے اس قدر دلجوئی کا سامان فراہم کرتا ہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے‘ میرا مالک جس کے لیے میں یہ سب کچھ کر رہا ہوں‘ وہ مجھے دیکھ رہا ہے. ایسا نہیں ہے کہ ؏ ’’مر گئے ہم انہیں خبر نہ ہوئی‘‘.ہم تو ان کے لیے اپنا سب کچھ لٹا بیٹھے اور انہیں پتا بھی نہیں چلا. نہیں‘ بلکہ میری ساری قر بانیاں‘ محنتیں اور بھاگ دوڑ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے.

بہرحال کسی بندۂ مؤمن کے دل میں یہ یقین پیدا ہو جانا کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے‘ یہ بھی درجۂ احسان پر فائز ہونے کے لیے کافی ہے. لیکن اگر اس سے بھی آگے ایمان و یقین میں یہ گہرائی پیدا ہو جائے کہ بندۂ مؤمن کو یہ احساس ہو کہ گویا وہ خود اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے تو یہ اس سے بھی آگے کی چیز ہے. چنانچہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف سے اس قسم کی باتیں کہی گئی ہیں. رسول اللہ کی عادتِ شریفہ تھی کہ آپ فجر کی نماز کے بعد تھوڑی دیر کے لیے مسجد نبویؐ میں تشریف رکھتے تھے اور صحابہ کرامؓ سے کچھ گفتگو ہوتی تھی. کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو بیان کرتا تھا. اس کے علاوہ سوال و جواب بھی ہوتے تھے . ایک مرتبہ آپؐ نے ایک صحابیؓ سے دریافت فرمایا: کَیْفَ اَصْبَحْتَ؟ ’’ آج تمہیں کیسی صبح نصیب ہوئی ہے؟‘‘ تو اُن کا جواب بڑا غیر معمولی تھا : اَصْبَحْتُ مُؤْمِنًا حَقًّا ’’مجھے تو آج سچے مؤمن کی صبح نصیب ہوئی ہے‘‘. رسول اللہ نے دریافت فرمایا: فَمَا حَقِیْقَۃُ اِیْمَانِکَ ’’تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے؟‘‘ یعنی تم جو کہہ رہے ہو کہ مجھے سچے مؤمن کی صبح نصیب ہوئی ہے تو اس کی کیا حقیقت اور کیفیت ہے؟ انہوں نے عرض کیا : ’’کَأَنِّیْ اَنْظُرُ اِلٰی عَرْشِ رَبِّیْ بَارِزًا‘ وَکَأَنِّیْ اَنْظُرُ اِلٰی اَھْلِ الْجَنَّۃِ یَتَمَتَّعُوْنَ فِیْھَا وَاِلٰی اَھْلِ النَّارِ یُعَذَّبُوْنَ فِیْھَا‘‘ (۱۲)’’(میرے یقین کی کیفیت یہ ہے) گویا میں اپنے ربّ کے عرش کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں‘ اور گویا اہل جنت کو جنت کی نعمتوں سے متمتع ہوتے ہوئے اور اہل دوزخ کو دوزخ میں عذاب سے دوچار ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں‘‘. لہذا اگر اللہ کے لیے جدوجہد اور بھاگ دوڑ کرتے ہوئے‘ اللہ سے ڈرتے ہوئے استحضار اللہ فی القلب یہ کی کیفیت پیدا ہو جائے اور عبادت میں حسن اور نکھار پیدا ہو جائے تو یہ درحقیقت ’’احسانِ اسلام‘‘ یا باصطلاحِ دیگر ’’سلوکِ محمدیؐ ‘‘‘ ہے اور یہ دل میں یقین کی گہرائی سے پیدا ہوتا ہے. 

اب یوں سمجھئے کہ ہمارے سامنے تین درجے آگئے . ایمان اگر صرف زبان پر آجائے تو یہ ’’اسلام‘‘ ہے‘ اگر دل میں داخل ہو جائے تو یہ ’’ایمان‘‘ ہے اور اگر یہ دل کی گہرائیوں میں اتر جائے تو ’’احسان‘‘ہے. دل کی گہرائیوں کے بارے میں یہ جان لیجیے کہ اس کی گہرائیاں بہت اتھاہ ہیں. اور جسے ہم ’’دل‘‘ کہتے ہیں ایک تو یہ گوشت کا لوتھڑا ہے جس کا کام ہے خون پمپ کرنا. یہ پھیپھڑوں کی طرف سے صاف شدہ خون لے کر پورے جسم کی طرف دھکیل دیتا ہے اور پورے جسم سے وہ خون لے کر جس کے اندر آلائشیں وغیرہ جمع ہو گئی ہو تی ہیں‘ پھیپھڑوں کی طرف دھکیل دیتا ہے ‘تاکہ وہاں اس کی صفائی ہو جائے. تو یہ دل جو گوشت کا ایک ٹکڑا ہے ‘یہ محض پمپ کے سوا کچھ بھی نہیں (۱۲) الاستقامۃ لابن تیمیہ : ۱/۱۹۴ والایمان لابن ابی شیبۃ: ۱۱۴روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ کی اس طرح کی گفتگو حضرت حارثہ بن سراقہ رضی اللہ عنہ سے بھی ہوئی تھی اور حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی. ہے. لیکن دین کے اعتبار سے‘ قرآن کے اعتبار سے یہ اصل میں روح ِانسانی کا مرکز اور محل ہے‘ اور رُوح کا تعلق ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ براہِ راست ہے. لہذا آپ اس قلب کی گہرائی ناپ نہیں سکتے.سلطان باہو نے بہت خوبصورت بات کہی ہے : ؏’’دل دریا سمندروں ڈونگھے‘ کون دلاں دیاں جانے ہو!‘‘واقعۃً یہ دل دریاؤں اور سمندروں سے بھی زیادہ گہرا ہے. اور جب ایمان اس گہرائی میں جاگزیں ہو جائے تو یہ احسان ہے. احسان اس سے کوئی علیحدہ اور مصنوعی شے نہیں ہے. ایمان کی ان کیفیتوں کا ذکر سورۃ الحجرات میں موجود ہے جس کا ہم اپنی اِن گفتگوؤں میں بار بار ذکر کرتے آئے ہیں. فرمایا گیا:

قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ (آیت ۱۴)
’’یہ بدو دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے. (اے نبیؐ !) ان سے کہہ دیجیے تم ہرگز ایمان نہیں لائے‘ لیکن یہ کہہ سکتے ہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا.‘‘

یہاں مثبت انداز میں اسلام کا ذکر آیا ہے اور پھر منفی انداز میں ایمان کا ذکر ہوا ہے. اور اسی سورت کی آیت ۷ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں فرمایا گیا:

وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ (الحُجُرٰت)
’’مگر اللہ نے تمہارے لیے ایمان کو نہایت محبوب کر دیا ہے اور اس کو تمہارے دلوں کے اندر خوشنما بنا دیا ہے.‘‘
یہ وہ کیفیت ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ایمان کی گہرائی کے نتیجے میں حاصل ہو چکی تھی اور یہی احسان ہے.

باقی یہ کہ ہمارے ہاں مروّجہ تصوف کے زیر اثر جو کیفیات آئی ہیں اس کی کیا وجہ ہے اور ’’احسانِ اسلام‘‘ جسے ہم ’’سلوکِ قرآنی‘‘ یا ’’سلوکِ محمدی ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں‘ اس میں اور تصوف میں کیا فرق ہے‘ یہ اس بحث کا موقع نہیں ہے. اس موضوع پر ’’مروجہ تصوف یا سلوک محمدی ‘ یعنی احسانِ اسلام‘‘کے عنوان سے میرا ایک بہت اہم کتابچہ ہے. اس میں ذرا دقیق بحثیں بھی ہوئی ہیں. اس کا لفظ بلفظ مطالعہ مفید رہے گا. اور خاص طو رپر اس کا جو انگریزی ترجمہ ہوا ہے :

"The Reality of Tasawwuf, in the Light of the Prophetic Model."

اس میں کچھ اضافے بھی کیے گئے ہیں. دراصل ہمارے ہاں جدید تعلیم یافتہ اور مرفہ‘الحال لوگوں کے اندر جب کبھی دین کی طرف رجحان پیدا ہوتا ہے تو وہ تصوف کا راستہ اختیار کرتے ہیں. تو اِس حقیقت کو اُن پر منکشف کرنے کے لیے یہ انگریزی کتابچہ بہت اہم ہے. رسول اکرم نے لوگوں کو احسان کی تعلیم و تربیت دی‘ ان کا تزکیہ کیا اوراُن سے قربِ خداوندی کے مراحل طے کروائے! آپ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کس طور سے یہ کام کیا تھا اور ہمارے مروّجہ تصوف میں کیا شکل پیدا ہو گئی ہے اور کس طور سے ایک علیحدہ راستہ اختیار کر لیا گیا ہے‘ اس کا ایک خاص سبب ہے جسے بیان کرنے کااِس وقت موقع نہیں ہے. یہاں جبریل علیہ السلام کے تیسرے سوال ’’احسان‘‘ کی بحث ختم ہوتی ہے.

حضرت جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ سے چوتھا سوال کیا: اَخْبِرْنِیْ عَنِ السَّاعَۃِ! ’’اب مجھے قیامت کے بارے میں بتایئے!‘‘ یعنی قیامت کب آئے گی؟آپؐ نے فرمایا: مَا الْمَسْئُوْلُ عَنْھَا بِاَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ ’’جس سے قیامت کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا‘‘.آپ نے صاف اعتراف کیا کہ میں اس بارے میں آپ سے زیادہ نہیں جانتا. قرآن مجید کے اندر بہت واضح طور پر فرمایا گیا ہے : یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرۡسٰہَا ﴿ؕ۴۲﴾فِیۡمَ اَنۡتَ مِنۡ ذِکۡرٰىہَا ﴿ؕ۴۳﴾اِلٰی رَبِّکَ مُنۡتَہٰىہَا ﴿ؕ۴۴﴾ (النّٰزعٰت) ’’(اے نبیؐ !) یہ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ کب لنگر انداز ہو گی. آپ کو کیا کام اس کے ذکر سے! اس کی پہنچ (اس کا علم) تو تیرے ربّ پر ختم ہے‘‘. یعنی آپؐ ‘ کا کام ہے محض خبردارکرناکہ یہ لازماً آئے گی‘ اس کے لیے تیاری کر لو. لیکن یہ کب آئے گی‘ اس سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے. اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے. تو آپ نے اس کا جواب دینے سے معذرت کر لی. 

اب انہوں نے پانچواں سوال کیا: فَاَخْبِرْنِیْ عَنْ اَمَارَاتِھَا؟ ’’تو مجھے اس کی علامات کے بارے میں بتادیجیے (جس سے اندازہ ہو جائے کہ وہ زمانہ اب قریب آ گیا ہے)‘‘. علاماتِ قیامت ایک مستقل موضوع ہے. کتب احادیث میں اشراط الساعۃ اور علامات القیامۃ کے عنوان سے باقاعدہ ابواب باندھے گئے ہیں. اس ضمن میں کچھ تو ابتدائی اور عمومی انداز کی اور چھوٹی علامات ہیں اور دس بڑی علامتیں ہیں.ان میں دجال کا ظہور ‘ حضرت مہدی کا ظہور ‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ‘ دھوئیں کا معاملہ اور خسف کا تذکرہ ہے کہ زمین تین جگہ سے دھنس جائے گی‘ وغیرہ . یہ مختلف اشراط الساعۃ ہیں. اس سوال کے جواب میں آپؐ نے دو علامات کا ذکر فرمایا ہے جو ہمارے لیے بہت چشم کشا ہیں. آپ نے فرمایا: اَنْ تَلِدَ الْاَمَۃُ رَبَّـتَھَا ’’ کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی‘‘. اس کے معانی یہ ہیں کہ ایک دَور آئے گا کہ اولاد میں اتنی سرکشی پیدا ہو جائے گی کہ وہ اپنے والدین کے اوپر گویا حاکم ہو جائیں گے. والدین ڈریں گے کہ ان سے میں نے کچھ کہہ دیا تو نا معلوم کیا جواب دیں . یہ کیفیت آج ہمارے ہاں پیدا ہوچکی ہے.اور خاص طو رپر یہ بات چونکا دینے والی ہے کہ آپ لڑکیوں کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ بیٹیاں اپنی ماؤں کے ساتھ لونڈیوں کا سا سلوک کریں گی. حالانکہ لڑکیوں کا معاملہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ یہ والدین کی زیادہ تابع فرمان ہوتی ہیں‘ ان کے سامنے سرجھکا کر رکھتی ہیں اور خاص طور پر ماؤں کا زیادہ ادب اور اُن سے زیادہ محبت رکھتی ہیں. لیکن آپؐ فرما رہے ہیں کہ بیٹیاںاپنی ماؤں کے ساتھ اپنی باندیوں کا سا سلوک کریں گی. اور یہ کیفیت بھی آج رونما ہو چکی ہے. 

رسول اللہ نے قیامت کی دوسری علامت یہ بتائی: وَاَنْ تَرَی الْحُفَاۃَ الْعُرَاۃَ الْعَالَۃَ رِعَائَ الشَّائِ یَتَطَاوَلُوْنَ فِی الْبُنْیَانِ ’’اور یہ کہ تم دیکھو گے کہ ننگے پیر رہنے والے‘ ننگے بدن رہنے والے‘ انتہائی مفلس اور قلاش‘ بکریوں کے چرواہے اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے‘‘.یہ وہ چیز ہے جسے آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں. پچاس ساٹھ سال پہلے کے عالم عرب میں اور آج کے عالم عرب میں جو تضاد (contrast) واقع ہو چکا ہے وہ بہت نمایاں نظر آ رہا ہے.ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تھا. حج کے موقع پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے قربانی کا جو حکم دیا ہے تو اس کی حکمت یہ بھی تھی کہ وہاں کے رہنے والوں کو کھانے کو کچھ میسر آ جائے. ورنہ عالمِ عرب تو قرآن کے الفاظ میں ’’وَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ‘‘ یعنی ایک غیر زرخیز وادی تھی جہاں کوئی پیداوار نہیں ہوتی تھی. حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دُعا کی تھی : رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِ ۙ… (ابرٰہیم:۳۷)

’’اے پروردگار! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسا یا ہے…‘‘ یعنی اب تو ہی ان کی غذا کا بندوبست کر. ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ قربانیوں کے گوشت پر جھپٹ پڑتے تھے‘ کھینچ کر لے جاتے تھے اور سکھا کر پھر سال بھر کھاتے تھے. پھر یہ کہ انہی قربانیوں کی وجہ سے بھیڑیں اوربکریاں پال کر بیچتے تھے اور یہی ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہوتا تھا.تو عالم عرب کی یہ صورتِ حال تھی. لیکن اب صورتِ حال یہ ہے کہ وہاں دولت کی ریل پیل ہے‘ہر قسم کی سہولت میسرہے‘ بلکہ ان کے مشرقی ساحل پر یورپ کے شہروں کو بھی مات دینے والے شہر آبادہوچکے ہیں. 

آگے رسول اللہ جو فرما رہے ہیں : یَتَطَاوَلُوْنَ فِی الْبُنْیَانِ تو اس میں لفظ ’’یَتَطَاوَلُ‘‘ کو سمجھ لیجیے! یہ باب ’’تفاعل ‘‘سے ہے جس کی یہ صفت ہے کہ اس میں مبالغے کا مفہوم بھی ہوتا ہے اور مقابلے کا بھی. یعنی یہ عرب نہ صرف اونچی اونچی عمارتیں بنائیں گے بلکہ ان اونچی عمارتوں کے بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے. آج یہ منظر ہماری آنکھوں کے سامنے ہے کہ ایک شخص نے اگرچالیس (۴۰) منزلہ عمارت بنائی ہے تو اس کے مقابلے میں دوسرا پینتالیس (۴۵) منزلہ عمارت بنائے گا.
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی حدیث جبریل ؑ میں ایک اور سوال بھی ہے. حضرت جبریل علیہ السلام سوال کر رہے ہیں : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! وَمَنْ اَصْحَابُ الشَّائِ الْحُفَاۃُ الْجِیَاعُ الْعَالَۃُ؟’’اے اللہ کے رسولؐ !بکریاں چرانے والے‘ برہنہ پا‘ بھوکے‘ تنگ دست کون لوگ ہیں؟‘‘ آپ نے فرمایا: اَلْـعَرَبُ ’’وہ عرب ہوں گے‘‘. چنانچہ حدیث میں یہ پیشین گوئی بھی موجود ہے کہ وہ عرب ہوں گے. ویسے تو دنیا میں اور جگہوں پر بھی ترقیاں ہوئی ہیں‘ افلاس کے بعد دولت کی ریل پیل ہوئی ہے ‘ اونچی اونچی اور شاندار عمارتیں بنی ہیں‘لیکن عالم عرب میں گزشتہ چند دہائیوں میں جو ترقی ہوئی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی. ایک موقع پر رسول اللہ نے فرمایا: اِنَّمَا بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّاعَۃُ کَھَاتَیْنِ (۱۳’’میں اور قیامت اس طرح ہیں جیسے یہ دو انگلیاں ملی ہوئی ہیں‘‘.اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ میرے بعد اب کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد اب کوئی اُمت نہیں. اَنَا آخِرُ الْمُرْسَلِیْنَ وَاَنْتُمْ آخِرُ الْاُمَمِ ’’میں آخری رسول ہوں اور تم آخری اُمت ہو‘‘. اب تو گویا قیامت ہی آئے گی. اور ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ آپ کی بعثت اور قیامت زمانے کے اعتبار سے دونوں جڑے ہوئے ہیں. یعنی آپ کی بعثت کے بعد سے قیامت میں کوئی فاصلہ نہیں ہے. اس موضوع پر بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں.جامعۃ الازہر کے عالم دین پروفیسر امین محمد جمال الدین کی کتاب ’’عُمَرُ اُمَّۃِ الْاِسْلَام‘‘ کا اردو ترجمہ ’’اُمت مسلمہ کی عمر‘‘ ہم نے بھی شائع کی ہے. حدیث زیر مطالعہ میں رسول اکرم نے جو دو علاماتِ قیامت بتائی ہیں ان کے ظہور پذیر ہونے سے قیامت کا معاملہ اب بہت قریب معلوم ہوتا ہے. آج ہر شخص ان علامتوں کو بچشم سر دیکھ سکتا ہے.
اللہ تعالیٰ اس حدیث جبریل ؑ کو ہمارے لیے علم و حکمت کا ذریعہ بنا دے اور اِن باتوں کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے. آمین!

اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات
(۱۳) صحیح البخاری‘ کتاب الرقاق‘ باب قول النبی بعثت انا والساعۃ کھاتین. وصحیح مسلم‘ کتاب الجمعۃ‘ باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ.