تنظیم اسلامی اگرچہ تاحال ایک مختصر سے قافلے کی حیثیت رکھتی ہے‘ تاہم بحمد اﷲ اس کا اجمالی تعارف‘ کسی نہ کسی درجہ میں‘ نہ صرف پاکستان کے طول و عرض بلکہ بیرونی ممالک میں بھی کم از کم اردو بولنے والوں کی حد تک بہت وسیع پیمانے پر ہوچکا ہے. اندریں حالات ضرورت محسوس ہورہی تھی کہ اس کے اساسی نظریات‘ جو تاحال مختلف کتابچوں کی صورت میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے ہیں‘ انہیں افادۂ عام کے لیے یکجا کر دیا جائے تاکہ ایک جانب کسی بھی نئے شخص کے لیے تنظیم کے مقاصد اور نظریات کے سمجھنے میں سہولت پیدا ہوجائے‘ اور دوسری جانب اس کے اہداف و مقاصد اور ہیئت تنظیمی کے ضمن میں جو ارتقائی عمل بروئے کار آیا ہے وہ بھی واضح اور معین ہوجائے. چنانچہ یہی پیش نظر کتاب کی اشاعت کا اصل مقصد ہے.

مختصر ترین الفاظ میں تنظیم اسلامی کی اجتماعی مساعی کے اہداف و مقاصد اور اس کی موجودہ ہیئت تنظیمی کا جامع و مانع تعارف مندرجہ ذیل دو جملوں کے ذریعے ہوسکتا ہے جو تنظیم کے ’’نظام العمل‘‘ کی پہلی دفعہ (شق الف اور د) سے ماخوذ ہیں: 

۱) یہ ایک اصولی‘اسلامی‘ انقلابی جماعت ہے جو پہلے پاکستان اور بالآخر کل روئے زمین پر اﷲ کے دین کے غلبے‘ یعنی اسلام کے نظام عدل اجتماعی کے قیام‘ یا بالفاظ دیگر اسلامی انقلاب‘ کے لیے کوشاں ہے.

۲) اس کی تنظیمی اساس’’ سمع و طاعت فی المعروف ‘‘ کی شخصی بیعت پر قائم ہے.‘‘
تاہم اس کا ایک طویل پس منظر ہے‘ جسے ؏ ’’دیکھئے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک!‘‘ کے مصداق پیش نظر رکھنا مفید ہی نہیں‘ ضروری بھی ہے!

’’تنظیم اسلامی‘‘کا نام پہلی بار اب سے تیئیس سال قبل اُس ہیئت تنظیمی کے ضمن میں سامنے آیا تھا جس کے قیام کا فیصلہ اُس اجتماع میں کیا گیا تھاجو ۸۹ ستمبر۱۹۶۷ء کو رحیم یار خان میں منعقد ہوا تھا اور جس میں لگ بھگ چالیس کی تعداد میں ایسے حضرات نے شرکت کی تھی جواکثر و بیشتر ۵۸.۱۹۵۷ء میں‘ اور بعض بعد میں مختلف مراحل پر جماعت اسلامی پاکستان سے علیحدہ ہوئے تھے.اس اجتماع میں ان سطور کا عاجز و ناچیز راقم بھی شریک تھا جو علم و فضل اور تقویٰ و تدین کے اعتبار سے تو کم ترین تھاہی‘ جہاں تک یاد پڑتا ہے عمر میں بھی سب سے کم تھا.یہ دوسری بات ہے کہ اس اجتماع کا انعقاد اصلاً اُسی کی تحریک و تحریض اور ڈیڑھ دو سال کی انتھک مساعی کا نتیجہ تھا.

۵۸.۱۹۵۷ء کے دوران میں مولانا مودودی مرحوم کے جن قریب ترین رفقاء نے جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کی تھی‘ اُن میں اُن چاروں حضرات کے علاوہ جنہیں مولانا مرحوم کی نظربندی کے دوران مختلف مواقع پر امارت جماعت کی ذمہ داری تفویض کی جاتی رہی تھی 
(۱جماعت کی قیادت کی صف دوم کا بہت بڑا حصہ شامل تھا. اُن میں سے بعض حضرات تو اس درجہ مایوس اور دل شکستہ ہوگئے تھے کہ انہوں نے نئی تشکیل و تعمیر کی کسی کوشش میں قطعاً کوئی حصہ نہ لیا ( جیسے مولانا عبدالجبار غازی مرحوم اور جناب سعید احمد ملک صاحب) لیکن بقیہ اکابرین میں سے مولانا امین احسن اصلاحی‘ مولانا عبدالغفار حسن اور حکیم عبدالرحیم اشرف نے بھرپور کوشش کی کہ کوئی نئی ہیئت تنظیمی فوری طور پر وجود میں آجائے. ان کی اس کوشش میں جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے والے اُن عام ارکان کی اکثریت بھی شریک تھی جو معتدبہ تعداد میں لاہور‘ لائل پور (حال فیصل آباد) اور منٹگمری (حال ساہیوال) سے تعلق رکھتے تھے . لیکن افسوس کہ مختلف اسباب کی بنا پر یہ مساعی ناکام رہیں‘ اور جماعت کے سابق ارکان پر مشتمل کوئی نئی اجتماعیت وجود میں نہ آسکی‘ جس کے نتیجے میں ایک عمومی مایوسی اور بددلی اس پورے حلقے میں پھیل گئی.

واضح رہے کہ اگرچہ ان جملہ مساعی میں راقم الحروف بھی ایک ادنیٰ کارکن کی حیثیت سے شامل رہا تھا‘ تاہم ایک طویل عرصے تک ان کا اصل اعصابی مرکز بھی لائل پور رہا تھا‘ اور اُن کی روح رواں کی حیثیت بھی حکیم عبدالرحیم اشرف صاحب ہی کو حاصل رہی تھی. البتہ کچھ عرصہ بعد 
(۱) یعنی مولانا عبدالجبار غازی مرحوم‘ مولانا امین احسن اصلاحی‘ مولانا عبدالغفار حسن اور شیخ سلطان احمد. جب محسوس ہوا کہ حکیم صاحب موصوف کچھ زیادہ ہی مایوس اور بددل ہوگئے ہیں‘ تو راقم نے ذاتی تحریک اور منٹگمری کے احباب کے تعاون سے ایک بھرپور مشاورتی اجتماع کا اہتمام کیا جو عزیز ٹینریز‘ ہڑپہ میں منعقد ہوا اور کئی روز تک جاری رہا. لیکن افسوس کہ یہ کوشش بھی ناکام رہی. نتیجتاً مایوسی کے سائے مزید گہرے ہوگئے اور ۶۱.۱۹۶۰ء کے لگ بھگ جماعت سے علیحدہ ہونے والے اکابر اور عام ارکان کے حلقے میں کسی نئی تعمیر و تشکیل کے ضمن میں کسی عملی سعی و جہد تو کجا‘ مستقبل قریب میں اس کی کسی اُمید کے آثار بھی باقی نہ رہے‘ اور بالعموم وہ فضا طاری ہوگئی جس کا نقشہ ان الفاظ میں سامنے آتا ہے کہ ؏ ’’اب یہاں کوئی نہیں‘ کوئی نہیں آئے گا!‘‘ اگرچہ بحمد اﷲ اس وقت بھی ذاتی طور پر راقم کے قلبی احساسات کی کیفیت یہ تھی کہ ؏ ’’آگ بجھی ہوئی نہ جان‘ آگ دبی ہوئی سمجھ!‘‘

راقم الحروف اوائل ۱۹۶۲ء سے اواخر ۱۹۶۵ء تک بعض خاندانی مسائل کی بنا پر کراچی میں مقیم رہا. اس اثناء میں مولانا عبدالغفار حسن بھی مدینہ منورہ منتقل ہوگئے‘ جہاں اُن کا تقرر جامعہ اسلامیہ میں بحیثیت استاذِ حدیث ہوگیا تھا.

اواخر ۱۹۶۵ء میں راقم تعمیر جدید اور تشکیل نو کے عزم تازہ کے ساتھ لاہور منتقل ہوا تو اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنا وہ اختلافی بیان جو اُس نے ۱۹۵۶ء میں جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کی مقرر کردہ جائزہ کمیٹی کی خدمت میں پیش کیا تھا اسے ’’تحریک جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ کے نام سے شائع کردیا‘ جو دینی حلقوں اور مذہبی جماعتوں کے علاوہ اخبارات و جرائد میں بھی شدّ و مدّ کے ساتھ زیر بحث آیا‘ جس کے نتیجے میں’ ’سابقین جماعت‘‘ کے حلقے میں بھی کسی نئی تعمیر و تشکیل کی خواہش ازسر نو انگڑائی لینے لگی. چنانچہ ۱۹۶۶ء میں جب مولانا عبدالغفار حسن اپنی سالانہ تعطیلات پر پاکستان آئے تو انہوں نے راقم کے ساتھ کامل اتفاق کرتے ہوئے نہ صرف کراچی اور لاہور بلکہ بعض دوسرے مقامات پر بھی سابق ارکان جماعت کو ایک نئی تنظیم کے قیام پر آمادہ کرنے کی بھرپور کوشش کی‘ اور اُن کی ان مساعی کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کے دلوں میں قیام اجتماعیت کی وہ چنگاری جو خاکستر کی موٹی تہہ میں دب چکی تھی دوبارہ پورے آب و تاب کے ساتھ بھڑک اُٹھی.

مولانا موصوف تو اپنی تعطیلات کے اختتام پر واپس مدینہ منورہ چلے گئے‘ لیکن اُن کی غیر حاضری 
میں شیخ سلطان احمد صاحب نے اُن کی نیابت کا حق بخوبی ادا کیا . اور نہ صرف مفصل خط و کتابت کے ذریعے بلکہ اپنی شدید خانگی اور کاروباری مصروفیات کے علی الرغم ایک رفیق کی معیت میں پاکستان کے متعدد اہم مقامات کے سفر کی صعوبت جھیل کر اس تحریک کے پودے کو پروان چڑھایا . نتیجتاً جون ۱۹۶۷ء میں آں محترم اور یہ خاکسار رحیم آباد ضلع رحیم یار خاں میں سردار محمد اجمل خان لغاری مرحوم کے دولت کدے پر جمع ہوئے‘ جہاں طویل گفت و شنید اور بحث و تمحیص کے بعد ہم تینوں نے ایک قرار داد پر دستخط ثبت کردیئے جو جولائی ۱۹۶۷ء کے ’’میثاق’’ میں ’’قرار داد رحیم آباد‘‘ کے نام سے شائع ہوگئی. 

اس قرار داد کا اکثر و بیشتر حصہ تو وہی ہے جو تنظیم اسلامی کی ’’قرار داد تاسیس‘‘ کے عنوان سے اس کتاب کے صفحات ۲۶۲۷ پر درج ہے‘ البتہ اُس کے پہلے پیراگراف کی بجائے ’’قرارداد رحیم آباد‘‘ میں حسب ذیل عبارت درج تھی: 
’’ہم اس امر پر اﷲ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہماری راہ کے موانع کو دور فرمایا اور حالات کو اس طرح ساز گار فرمایا کہ ہم ایک بار پھر ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے ایک مقام پر جمع ہوسکے.

ہمارے نزدیک یہ بھی اﷲ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم اور انعام و احسان ہے کہ گفت و شنید کے نتیجہ میں ہم نے محسوس کیا کہ بحمد اﷲ ہمارے نقطہ نظر اور طرز فکر میں بہت حد تک یکسانی و یک رنگی موجود ہے اور ہم دین کی کسی چھوٹی یا بڑی خدمت کے لیے جمع ہوکر سعی و جہد کرسکتے ہیں. 

بنابریں ہم یہ طے کرتے ہیں کہ ایک ایسی اجتماعیت کا قیام عمل میں لایا جائے جو دین کی جانب سے عائد کردہ جملہ انفرادی و اجتماعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں ہماری ممدو معاون ہو‘ جس میں وہ لوگ بھی شریک ہوسکیں جو اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے جماعت اسلامی میں شامل ہوئے تھے لیکن پھر مختلف مراحل پر اس سے مایوس ہوکر علیحدہ ہوتے چلے گئے اور اب کسی ہیئت اجتماعی میں منسلک نہ ہونے کی بنا پر تشنگی محسوس کررہے ہیں‘ اور وہ لوگ بھی شریک ہوسکیں جنہیں اپنے دینی فرائض کا احساس ہوجائے اور وہ اپنی اجتماعی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے کسی اجتماعی نظم میں منسلک ہونا چاہیں.‘‘ 

اور اختتام پر ان الفاظ کا اضافہ تھا: 
’’مندرجہ بالا رہنما اصولوں کی روشنی میں تفصیلی نقشہ کار کی تعیین اور ایک ہیئت اجتماعی کی تشکیل کے لیے طے کیا جاتا ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو‘ ہم خیال لوگوں سے رابطہ قائم کیا جائے اور پھر کوئی ایسی صورت اختیار کی جائے کہ ایسے لوگ ایک جگہ جمع ہوکر کسی اجتماعیت کے قیام کی عملی صورت اختیار کرلیں.اس کام کی انجام دہی کے لیے فی الحال شیخ سلطان احمد (صاحب) کو مامور کیا جاتا ہے.‘‘

واضح رہے کہ اس قرار داد کو بھی الفاظ کا جامہ راقم الحروف ہی نے پہنایا تھا اور پھر جب راقم نے لاہور واپس آکر اسے مولانا امین احسن اصلاحی کی خدمت میں پیش کیا اور اُن کی جانب سے اس کی بحیثیت مجموعی تائید و تحسین کے بعد طے کیا گیا کہ اس کی ایک مختصر وضاحت بھی ضبط تحریر میں لے آئی جائے تو یہ خدمت بھی راقم ہی نے سرانجام دی . دریں اثنا لاہور میں منعقدہ ایک اجتماع میں مجوزہ اجتماعیت کے ضمن میں ایک مجلس مشاورت کا قیام عمل میں آچکا تھا ‘جس کے ایک اجلاس میں نہ صرف ’’قرار داد رحیم آباد‘‘ بلکہ متذکرہ بالا توضیحات کو بھی معمولی حکّ و اضافے کے ساتھ منظور کرلیا گیا. چنانچہ ’’میثاق‘‘ بابت اگست۱۹۶۷ء میں یہ تمام چیزیں ’’مجلس مشاورت‘‘ کی جانب سے شائع ہوگئیں اور اُن کی اساس پر ایک اجتماع ۸۹ ستمبر کو بمقام رحیم یار خان طلب کرلیا گیا.

رحیم یار خان میں ۶۷ستمبر کو مجلس مشاورت کا اجتماع ہوا … اور بعد ازاں ۸۹ ستمبر کو کھلے اجلاس ہوئے‘ جن میں اولاً راقم ہی نے مجوزہ قرار داد اور اس کی توضیحات پڑھ کر سنائیں. پھر مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا عبدالغفار حسن نے مزید تائیدی اور توضیحی تقریریں کیں. شرکاء اجتماع کی جانب سے بعض لفظی ترامیم بھی پیش ہوئیں … اور بالآخر قرار داد کو مع توضیحات منظور کرلیا گیا‘ صرف اس فرق کے ساتھ کہ قرار داد رحیم آباد کے ان ابتدائی تین پیروں کی بجائے جو اوپر نقل ہوچکے ہیں‘ یہ پیرا شامل کیا گیا:

’’ آج ہم اﷲ کا نام لے کر ایک ایسی اسلامی تنظیم کے قیام کا فیصلہ کرتے ہیں جو دین کی جانب سے عائد کردہ جملہ انفرادی و اجتماعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں ہماری ممدو معاون ہو.‘‘ 
اور اسی طرح قرار داد رحیم آباد کے محولہ بالا آخری الفاظ کی جگہ یہ الفاظ درج کیے گئے کہ:

’’مندرجہ بالا رہنما اصولوں کی روشنی میں عملی جدوجہد کے آغاز اور ایک ہیئت اجتماعی کی باقاعدہ تشکیل کے لیے مندرجہ ذیل اصحاب پر مشتمل ایک مجلس مشاورت کے تقرر کی توثیق کی جاتی ہے:

۱.مولانا امین احسن اصلاحی ۲. مولانا عبدالغفار حسن
۳. مولانا عبدالحق جامعی ۴. شیخ سلطان احمد (معتمد)
۵. سردار محمد اجمل خان لغاری ۶. ڈاکٹر محمد نذیر مسلم 
۷ . ڈاکٹر اسرار احمد ‘‘

’’میثاق‘‘ کی ستمبر ‘اکتوبر ۱۹۶۷ء کی مشترکہ اشاعت میں ترمیم شدہ قرار داداور توضیحات بھی شائع کردی گئیں اور مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا عبدالغفار حسن کی تقاریر بھی. مزیدبرآں صرف قرارداد اور اس کی توضیحات کو ’’ایک نئی اسلامی تنظیم کے قیام کا فیصلہ‘‘ کے عنوان سے ایک کتابچے کی صورت میں بھی شائع کردیا گیا تاکہ اسے زیادہ وسیع حلقے تک پہنچایا جاسکے.

یہ عرض کرنے کی کوئی حاجت نہیں ہے کہ اگرچہ اس نئی تنظیم کی سربراہی یا امارت کے لیے تاحال رسمی طور پر کسی کا نام نہ تجویز ہوا تھا نہ منظور‘ لیکن اس ’’بارات کے دولہا‘‘ بہرحال مولانا امین احسن اصلاحی ہی تھے… اور اگرچہ اس نئی ہیئت اجتماعی کے نام کے بارے میں بھی متعدد تجاویز کے پیش ہونے کے باوجود کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا تھا‘ تاہم چونکہ مولانا امین احسن اصلاحی ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے نام پر مُصر تھے‘ لہذا غیر رسمی طور پر یہ نام بھی تقریباً طے شدہ ہی تھا (اگرچہ راقم الحروف نے یہ احتیاط ملحوظ رکھی تھی کہ یہ اسم علم نہ ’’میثاق ‘‘میں استعمال ہوا نہ متذکرہ بالا کتابچے میں).
اجتماع رحیم یار خان میں اپنے الوداعی خطاب میں بھی مولانا اصلاحی نے اپنی سابقہ تقصیر کے اعتراف کے ساتھ آئندہ کے لیے عزمِ مصمّم کا اظہار کیا تھا اور اس کے بعد بھی چند ماہ تک ان کی طبیعت میں نشاط کی کیفیت برقرار رہی اور ؏ ’’ ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا‘‘ کے سے انبساط و انشراح کا اظہار ہوتا رہا. چنانچہ بعض چھوٹے اسفار کے علاوہ ایک طویل سفر بھی انہوں نے ازلاہور تا سکھر بذریعہ کار اور وہاں سے کراچی بذریعہ ریل کیا جس میں راقم بھی حضرت موسیٰ ؑ کے فتی ٰ کے مانند اُن کے ساتھ رہا. 
لیکن افسوس کہ ایک حادثہ تو اس سفر کے دوران سکھر میں ایک اجتماع عام کے موقع پر پیش آگیا… اور بعض دوسرے حوادث اس کے کچھ عرصہ بعد رونما ہوگئے جن کے نتیجے میں ایک جانب تو مولانا اصلاحی کی طبیعت بجھ کر رہ گئی… اور دوسری جانب بعض اہم رفقاء کے مزاج میں بھی تکدر پیدا ہوگیا. چنانچہ جماعت اسلامی کے ساتھ سابق تعلق کی قدرِ مشترک کی اساس پر نئی تنظیم کے قیام کی یہ آخری کوشش بھی ؏ ’’خوش درخشیدولے شعلہ مستعجل بود‘‘ کا مصداقِ کامل بن گئی!

تاہم راقم الحروف نے اُ سی وقت طے کرلیا تھا کہ اقامت دین اور اعلاءِ کلمۃ اﷲ کے بلندو بالا مقاصد کے لیے خالص اصولی اور انقلابی طریق پر جدوجہد‘ یا بالفاظ دیگر اسلامی انقلاب کی سعی کے لیے ٹھیٹھ اسلامی اصولوں پر کسی نئی تحریک کے اجراء اور تنظیم کے قیام کے لیے خود اپنی بساط کے مطابق کوشش جاری رکھے گا‘ خواہ اُسے ’’نئے سفر‘‘ اور نئی تعمیر و تشکیل کے لیے تنہا ہی آغاز کرنا پڑے.

لاہور میں حلقہ ہائے مطالعہ قرآن اور ’’دارالاشاعت الاسلامیہ‘‘ کا قیام اور ماہنامہ ’’میثاق‘‘ کا دوبارہ اجراء پہلے ہی عمل میں آچکا تھا. چنانچہ قرآن حکیم کے انقلابی فکر اور ولولہ انگیز دعوت کی اساس پر ہم خیال لوگوں کا ایک بالکل نیا حلقہ وجود میں آچکا تھا جو فطری تدریج کے ساتھ مسلسل ترقی کررہا تھا. چنانچہ اب راقم نے اپنے جسم و جان کی تمام توانائیوں کو بالکل یکسو ہوکر اور ؏ ’’شرطِ اوّل قدم این است کہ مجنوں باشی‘‘ کے سے انداز میں قرآن کی انقلابی دعوت کے نشرواشاعت پر مرکوز کردیا. 
(۱اس کے نتیجے میں اولاً ۱۹۷۲ء میں مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کا قیام عمل میں آیا اور۲۱؍جولائی۱۹۷۴ء کی شام کو اکیس روزہ قرآنی تربیت گاہ کے اختتام پر راقم نے اپنے اس فیصلے کا اعلان کردیا کہ آئندہ معاملہ صرف قرآن کے درس و تدریس اور تعلیم و تعلّم تک محدود نہیں رہے گا اور صرف ’’انجمن‘‘ پر اکتفا نہیں ہوگی بلکہ اقامت دین کی اجتماعی جدوجہد کے لیے ایک باضابطہ ’’جماعت‘‘ کا قیام عمل میں لایا جائے گا.

راقم الحروف کی متذکرہ بالا تقریر‘ تسوید و تبییض کے جملہ مراحل طے کرکے بعض اضافوں کے ساتھ کچھ ’’میثاق‘‘ بابت ستمبر ۱۹۷۴ء میں اور بقیہ اکتوبر اور نومبر کی مشترک اشاعت میں شائع ہوگئی جس کے 
(۱) اس کی تفصیلی روداد کے لیے ملاحظہ ہو راقم کی تالیف : ’’دعوت رجوع الی القرآن کا منظر و پس منظر!‘‘. ذریعے راقم نے اپنا ذہنی و فکری پس منظر‘ سابقہ تحریکی و جماعتی تعلق اور فرائض دینی کے بارے میں اپنا تصور پوری طرح واضح کردیا (یہ تقریر جو پہلے ’’سرافگندیم‘‘ کے نام سے طبع ہوتی رہی تھی‘ اب ’’عزمِ تنظیم‘‘ کے عنوان سے شائع ہورہی ہے).

پھر’’میثاق‘‘ بابت اکتوبر‘ نومبر میں راقم نے ایک جانب ایک طویل مقالے کے ذریعے امّتِ مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ کے دوران عروج اور زوال کے دو دو ادوار کی وضاحت اور تیسرے عروج کی جانب پیش قدمی کے ضمن میں ’’ہمہ جہتی احیائی عمل‘‘کے مختلف گوشوں کی تعیین کے ساتھ یہ بات بھی واضح کردی کہ راقم اور اُس کی تجویز کردہ تنظیم اُن میں سے کون سے گوشے سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری جانب ۱۹۶۷ء کے اجتماع رحیم آباد کی منظور کردہ قرار داد مع توضیحات بھی شائع کردی اور مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا عبدالغفار حسن کی تقاریر کے علاوہ وہ تائیدی تبصرے بھی شائع کردیئے جو ۶۸.۶۷ء میں مولانا عبدالماجد دریابادی اور مولانا عبدالباری ندوی رحمہما اللہ نے کیے تھے… اور اعلان کردیا کہ ان ہی فکری و نظری اساسات پر ایک نئی تنظیم کی تشکیل اگلے سال (۱۹۷۵ء) کے اوائل میں ہوجائے گی!

۱۹۶۷ء کی قرارداد کے بارے میں راقم الحروف کو اُس وقت بھی یہ احساس تھا کہ اس میں اقامت دین کی فرضیت کا تصور کچھ دب گیا ہے اور اس کی اہمیت کما حقہ‘ واضح نہیں ہورہی… اور اگرچہ دین کی اقامت کی اصطلاح اس میں موجود ہے تاہم بحیثیت مجموعی اُس سے اصلاً ایک تبلیغی اور اصلاحی تحریک کا نقشہ سامنے آتا ہے. اس کا اصل سبب بھی راقم کے سامنے واضح تھا‘ یعنی یہ کہ جماعت اسلامی کی تحریک کی قلب ماہیت اور ایک اسلامی انقلابی جماعت کے بجائے اسلام پسند قومی سیاسی جماعت کا انداز اختیار کرلینے اور اس کے نتیجے میں اُس کے کارکنوں کے مزاج میں سیاسی رنگ کے غلبے نے سابقین جماعت کے حلقے میں ردّعمل کے طور پر ’’دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے! ‘‘ اور ’’سانپ کا ڈسا رسّی سے بھی ڈرتا ہے!‘‘ کے مطابق ’’انقلاب ‘‘کے لفظ سے وحشت 
(allergy) پیدا کردی تھی… اس کے باوجود راقم نے نئی تشکیل کے لیے قرار دادِ تاسیس کے طور پر اُسی کو اختیار کیا. اس لیے کہ ایک تو اس کی شدید خواہش تھی کہ ۱۹۶۷ء میں جمع ہونے والے تمام بزرگ اور احباب اس میںشمولیت اختیار کرلیں اور اس ضمن میں اُن پر یہ حجت قائم ہوجائے کہ نئے سفر کا آغاز ٹھیک اسی مقام سے کیا جارہا ہے جہاں سے سات سال قبل قافلہ منتشر ہوا تھا… اور دوسرے اسے یقین تھا کہ جیسے ہی قافلہ مصروف سفر ہوگاسابقہ تجربات اور ایک طویل عرصے کے جمود کے باعث جو وحشت پیدا ہوگئی ہے خود بخود رفع ہوجائے گی اور … ؏ ’’پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغامِ سجود!‘‘ کے مصداق سب بھولے ہوئے سبق دوبارہ یاد آجائیں گے. (اس کا ایک ثبوت بھی راقم کو بالکل ابتدائی مرحلے ہی پر مل گیا تھا جس کی تفصیل یہ ہے کہ سردار محمد اجمل خان لغاری مرحوم کے مزاج میں متذکرہ بالا وحشت کی شدت کے باعث قرار داد رحیم آباد میں ان الفاظ کے بعد کہ: ’’لہذا پیش نظر اجتماعیت کی نوعیت ایسی ہونی چاہیے کہ اس میں فرد کی دینی اور اخلاقی تربیت کا کما حقہ‘ لحاظ رکھا جائے!‘‘ مزید تاکید اور حزم و احتیاط کے لیے یہ الفاظ بھی شامل تھے کہ ’’اور اُسے محض کسی اجتماعی انقلاب کے لیے آلہ کار کی حیثیت نہ دے دی جائے!‘‘… لیکن جیسے ہی جمود ٹوٹا اور حرکت کا آغاز ہوا تو اس وحشت کی شدت میں فوراً کمی آگئی. چنانچہ رحیم یار خان میں منظور ہونے والی قرار داد سے یہ الفاظ حذف کردیئے گئے.

تنظیم اسلامی کا تاسیسی اجلاس ۲۷ اور ۲۸ مارچ ۱۹۷۵ء کو مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے دفتر واقع ۱۲- اے‘ افغانی روڈ‘ سمن آباد لاہور میں منعقد ہوا جس میں لاہور کے علاوہ کراچی ‘ سکھر‘ بہاول پور‘ ساہیوال‘ فیصل آباد‘ شیخوپورہ‘ گوجرانوالہ اور بعض دوسرے مقامات سے کُل ایک سو تین (۱۰۳) افراد شریک ہوئے. 

ان میں اوّل تو جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کرنے والے حضرات کی کل تعداد بھی پانچ چھ سے زیادہ نہ تھی‘ مزید برآں وہ سب بھی جماعت کے عام ارکان میں سے تھے‘ اور اُن میں سے کوئی بھی جماعت اسلامی میں کبھی کسی منصب پر فائز نہیں رہا تھا(سوائے شیخ جمیل الرحمن صاحب کے کہ وہ کراچی کی جماعت کے معروف اور نمایاں لوگوں میں شامل رہے تھے). گویا یہ پورا قافلہ راقم کی دعوتِ قرآنی کے نتیجے میں عالم ِوجود میں آیا تھا اور اس کے جملہ اساسی تصورات مطالعہ ٔ قرآن حکیم کے اُس منتخب نصاب پر مبنی تھے جسے راقم نے اپنی دعوتِ قرآنی کا مرکز و محور بنایا تھا. 
چنانچہ راقم نے اس اجلاس کی افتتاحی نشست میں بھی ایک بار پھر اپنے مطالعۂ قرآن کا نچوڑ پیش کیا اور سورۃ الصف کے دوسرے رکوع اور سورۃ الحجرات کی آیات ۱۴۱۵ کے حوالے سے فرائض دینی کا جامع تصور اور اس کے ضمن میں شہادت علی الناس اور غلبہ واقامت دین کی جدوجہد کی فرضیت اور اس کے لیے التزام جماعت کی اہمیت پر زور دیا. اس کے ساتھ ہی راقم نے ۱۹۶۷ء والی قراردادِ تاسیس مع توضیحات پڑھ کر سنائی اور اس کی پُرزور وکالت کی‘ صرف اس لیے نہیں کہ یہ اس کے اپنے رشحاتِ قلم تھے‘ بلکہ اس لیے کہ اقامتِ دین کے بلند و بالا مقصد کے لیے جو مردانِ کار درکار ہیں اُن کی فراہمی اور سیرت سازی کے لیے جو پروگرام اُس قرارداد اور اُس کی توضیحات کے ذریعے سامنے آتا ہے اُس کی صحت و حقانیت پر میرا دل ۷۵.۱۹۷۴ء میں بھی اتناہی مطمئن تھا‘ جتنا۶۷.۱۹۶۶ء میں. اور الحمد للہ کہ ان سطور کی تحریر کے وقت بھی (جنوری ۱۹۹۱ء ) راقم کو یقین کامل حاصل ہے کہ فرائضِ دینی کی پہلی دو منزلوں یعنی بندگی رب اور شہادت علی الناس کے اُصول و مبادی کے ضمن میں اس قرارداد اور اس کی توضیحات کو ایک اہم اور جامع دستاویز کی حیثیت حاصل ہے (چنانچہ اس کتاب کا حصہ اول اسی قراداد اور اس کے متعلقات پر مشتمل ہے). بہر حال چونکہ یہ اجتماع اِن ہی کی اساس پر طلب کیا گیا تھا لہذا اس کا کوئی امکان ہی موجود نہ تھا کہ ان کے کسی نکتے سے شرکاء اجلاس میں سے کسی کو کوئی اختلاف ہو. لہذا اِن کی منظوری کا مرحلہ بآسانی طے ہو گیا.

اگلا مرحلہ’’نام ‘ شرائط شمولیت‘ ہیئت تنظیمی‘ اور قواعد و ضوابط‘‘ کی منظوری کاتھاجن میں سے نہ نام کے سلسلے میں کوئی ردّ و قدح ہوئی‘ نہ ہیئت ِتنظیمی ‘ اور قواعد و ضوابط کے ضمن میں کوئی مشکل پیش آئی. البتہ شرائطِ شمولیت میں شامل بعض کڑوی گولیوں کا نگلنا موجود الوقت حالات میں بہت سے احباب کو دشوار ہی نہیں محال نظر آیا.
چنانچہ نام کے ضمن میں اتفاق رائے کے ساتھ ’’تنظیم اسلامی‘‘ہی کے حق میں فیصلہ ہو گیا‘ اور اُس وقت کے دستورِ تنظیمِ اسلامی کی دفعہ ’’۱‘‘یہ قرار پائی:

’’اس تنظیم کا نامتنظیم اسلامی ہو گا.‘‘

اسی طرح ہیئت تنظیمی کے ضمن میں حسبِ ذیل اُمور بھی بالاتفاق طے پا گئے:

دفعہ ۳: ہیئت ِ تنظیمی

’’تنظیمی اعتبار سے پہلے تین سال ایک عبوری دور شمار ہوں گے جن کے دوران میں مقدور بھر سعی کی جائے گی کہ تجدید ایمان‘ توبہ اور تجدید عہد کی وہ دعوت زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا دی جائے جس کی تفصیل دفعہ ۲ میں دی گئی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں شامل ہو سکیں. اس عرصے کی تکمیل پر ایسے تمام لوگوں کا ایک عام اجتماع طلب کیا جائے گا جو ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے لیے مستقل دستور طے کرے گا. گویا دفعاتِ آئندہ میں جو تنظیمی ڈھانچہ دیا جارہا ہے وہ صرف اس عبوری دور کے لیے شمار ہو گا. 

دفعہ ۴: مرکزی نظام

(الف) ڈاکٹر اسرار احمد کو تنظیمِ اسلامی کے ’’داعی عمومی‘‘ کی حیثیت حاصل ہو گی اور وہ اس عبوری دور میں ’’ وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُم‘‘ کے وسیع تر اصول کے تحت تنظیم کے معاملات کو بھی چلائیں گے اور اس کی دعوت کو بھی زیادہ سے زیادہ وسیع تر حلقے تک پہنچانے کی کوشش کریں گے. وہ ایک معین مجلس شوری کو بھی نامزد کرنے کے مجاز ہوں گے لیکن ان کو حق استقرار حاصل ہو گا. 

(ب) تمام رفقائے تنظیم داعی ٔ عمومی کی ’’اطاعت فی المعروف‘‘ کے پابند ہوں گے!‘‘

رہے ’’قواعد و ضوابط‘‘ تو چونکہ اِن اصولی باتوں کے طے ہو جانے کے بعد زیادہ تفصیلی قواعد و قوانین کی چنداں ضرورت ہی باقی نہیں رہی تھی‘ لہذا وہ سب کے سب پانچ دفعات کی صورت میں کل تین صفحات میں سما گئے اور وہ بھی بالاتفاق طے ہو گئے. 

جہاں تک متذکرہ بالا دستور کی دفعہ ۲ میں شامل ’’شرائط ِ شمولیت‘‘ کا تعلق تھا اس کی بھی کل چھ میں سے صرف ایک یعنی چوتھی شق ایسی تھی جو بہت سے احباب کے تنظیم میں شامل ہونے کی راہ میں رکاوٹ بن گئی. اس لیے کہ اُس کی رُو سے یہ لازم آتا تھا کہ صرف وہی لوگ تنظیم اسلامی میں شمولیت اختیار کر سکیں گے جو تجارتی اور نجی ہر نوع کے سُودی لین دین سے عملاًتائب ہو جائیں‘ اور ایسے اداروں کی ملازمت بھی ترک کر دیں جن میں سودی لین دین کا غلبہ ہوجیسے بنک اور انشورنس کمپنیاں وغیرہ. مزید برآں سرکاری محاصل یعنی انکم ٹیکس‘ سیلز ٹیکس وغیرہ کے ضمن میں بھی کسی غلط بیانی سے ہر گز کام نہ لیں. ان شدید و ثقیل اور موجود الوقت احوال و ظروف کے اعتبار سے تقریباً ناممکن العمل پابندیوں کا 
نتیجہ یہ نکلا کہ ان ۱۰۳حضرات میں سے جو اس اجتماع میں ابتداء ًشریک ہوئے تھے صرف ۶۲ حضرات نے تنظیم میں بالفعل شرکت اختیار کی. 

یہاں اس بات کی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ تنظیم کی ’’شرائط ِ شمولیت‘‘ کی متذکرہ بالا شق بھی اصلاً جماعت اسلامی ہی کے فلسفہ و اصولِ تنظیم کے تسلسل کی مظہر تھی. اس معاملے میں اگرچہ ذاتی طور پر راقم الحروف کے نظریات تبدیل ہو چکے تھے‘ تاہم چونکہ شدید دلی خواہش تھی کہ جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے والے احباب و اکابر کی زیادہ سے زیادہ تعداد اس نئے قافلے میں شامل ہو اور اُن کی اکثریت بالخصوص اہم شخصیات کے تصورات میں ابھی کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی‘ لہذا جہاں یہ مناسب سمجھا گیا کہ تنظیم کے ’’مستقل دستور‘‘ کے معاملے کو ابھی ’’کھلا‘‘ 
(open) رکھا جائے وہاں ’’شرائطِ شمولیت‘‘ کے ضمن میں بھی سابقہ طرزِفکر ہی کو برقرار رکھاگیا.

تنظیم اسلامی کے ابتدائی عارضی دستور کی دفعہ نمبر ۲ صرف مذکورہ شق نمبر ۴ میں معمولی لفظی تبدیلی کے ساتھ ‘پیش نظر کتابچے کے حصہ دوم میں ’’عقائد اور بنیادی دینی تصورات‘‘ کے عنوان سے شامل ہے. یہ بھی اصلاً راقم ہی کی تحریر پر مشتمل ہے جو جولائی ۱۹۷۴ء اور مارچ ۱۹۷۵ء کے درمیانی عرصے میں سپردِ قلم ہوئی. اس کی ترتیب و تسوید میں راقم نے جماعت اسلامی کے دستور سے بھی استفادہ کیا اور بعض علماء سے بھی مشورہ کیا جن میں مولانا سید وصی مظہر ندوی قابل ذکر ہیں‘ جو اگرچہ اُس وقت تک جماعت ِاسلامی میں شامل تھے تاہم اُن کی جماعت کی مقامی ‘ صوبائی اور مرکزی قیادت کے ساتھ کشاکش شدت کے ساتھ جاری تھی جس کے نتیجے میں وہ ۱۹۷۶ء میں جماعت سے خارج کر دئیے گئے.
اس کی پہلی شق ایمانِ مجمل اور ایمان مفصل پر مشتمل ہے‘ جن کی تشریح میں اہلِ سنت کے عقائد اختصار لیکن جامعیت کے ساتھ آگئے ہیں. واضح رہے کہ جماعت اسلامی کے دستور میں اِن کا کوئی تذکرہ نہیں ہے. 

دوسری شق کلمہ ٔ طیبہ اور کلمہ ٔ شہادت پر مشتمل ہے.اس کی تشریح کے سلسلے میں جماعت اسلامی کے دستور سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے‘ اس لیے کہ توحید الٰہی اور رسالت ِمحمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے اقرار کے مضمرات و مقدرات کو دستورِ جماعت میں بلاشبہ نہایت عمدگی سے بیان کیا گیا ہے (اور ایک 
روایت یہ بھی ہے کہ یہ تحریر اصلاً مولانا محمد منظور نعمانی کی ہے. واللہ اعلم) ـــــ .البتہ ایک جانب اس میں سے وہ الفاظ حذف کر دئیے گئے جن پر علماء کرام کی جانب سے شدید اعتراضات کیے گئے تھے‘ اور دوسری جانب عظمت صحابہؓ اور حجیت خلافت راشدہ سے متعلق شقوں کا اضافہ کیا گیا‘ اس لیے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نبی اکرم  کی تعلیم‘ تربیت اور تزکیے کا شاہکار ہونے کے اعتبار سے تعظیم و توقیر کے مستحق بھی ہیں اور بفحوائے الفاظِ قرآنی ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ ‘‘ اور ’’فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَ عَزَّرُوۡہُ وَ نَصَرُوۡہُ ‘‘ آنحضور  کے رفقاء و احباب اور اعوان و انصار ہونے کی بنا پر اس کا استحقاقِ کامل بھی رکھتے ہیں کہ آنحضور  کے ہر اُمتی کے دل میں ان کے لیے شدید محبت اور احسان مندی کے جذبات موجود ہوں اور خلافت ِراشدہ چونکہ اصلاً خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی حیثیت رکھتی ہے‘ لہذا اُس کے دوران میں جن امور پر اُمت کا اجماع ہو گیا انہیں دین کے دستوری اور قانونی نظام میں حجت کی حیثیت حاصل ہے. اس طرح عظمت صحابہؓ اور حجیت ِخلافت ِراشدہ کو گویا نبی اکرم  کی رسالت ِمبارکہ کے ساتھ تتمے اور ضمیمے کی حیثیت حاصل ہے!
تیسری اور چوتھی شقیں شرک‘ کفر اور ذمائم اخلاق سے برا ء ت اور جملہ ذنوب و معاصی سے توبہ و استغفار پر مشتمل ہیں. ان کے ضمن میں جہاں کفر اور شرک کی حقیقت اور اُن کی اقسام کی مختصر مگر جامع وضاحت آگئی ہے‘ وہاں فرائض و واجباتِ دینی اور محرمات و منہیاتِ شرعی کا اجمالی تذکرہ بھی ہو گیا ہے. ان ہی میں وہ ’’ کڑوی گولیاں‘‘ بھی شامل ہیں جن کا ذکر پہلے کیا جاچکا ہے‘ یعنی کسبِ معاش کے سلسلے میں محرمات و منکرات سے اجتناب!

جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے ‘ابتداء میں جو صورت اختیار کی گئی وہ یہ تھی کہ صرف وہی لوگ تنظیم اسلامی میں شامل ہو سکیں گے جو ان منکرات کو بالفعل ترک کر چکے ہوں. یہی وجہ ہے کہ تاسیسی اجلاس کے ابتدائی ۱۰۳شرکاء میں سے صرف ۶۲ حضرات تنظیم میں شمولیت اختیار کر سکے! لیکن تقریباً ڈھائی سال بعد جب تنظیم کے لیے بیعت کے نظام کو اختیار کیا گیا تو متعلقہ عبارت میں بھی مناسب لفظی ترمیم کر دی گئی اس لیے کہ نظامِ بیعت کا تو اصل الاصول ہی یہ ہے کہ کوئی شخص جب‘جہاں اور جیسے ہی عزم اور ارادہ کر لے کہ وہ مسلمان جئے اور مسلمان مرے گا اور اپنے جملہ فرائض دینی کوادا کرنے کے لیے 
امکان بھر کوشاں رہے گا وہ فوراً بیعت کر کے راہِ حق کے قافلے میں شامل ہو سکتا ہے. تعلیم‘ تربیت اور تزکیے کے مراحل بعد میں آتے ہیں. گویا اب اِس شق کی حیثیت اِس پیشگی تنبیہہ کی ہے کہ جو شخص بھی تنظیم میں شامل ہو وہ اچھی طرح جان لے کہ اسے اِن منکرات و محرمات کو جلد از جلد ترک کرنا ہے. 

پانچویں اور چھٹی شقیں دو ’’معاہدوں‘‘ پر مشتمل ہیں: پہلا عہد اللہ سے کہ میں نے اپنا رُخ ہر جانب سے یکسو ہو کر صرف تیری جانب کر لیا ہے اور اب میری نماز اور قربانی کی طرح میرا جینا اور مرنا بھی صرف تیرے لیے ہو گا اور دوسرا عہد تنظیم ِاسلامی سے کہ میں اس کے نظم کی پابندی اور اس کے ایسے جملہ احکام کی اِطاعت جو شریعت کی کسی واضح نص کے خلاف نہ ہوں ’’سمع و طاعت‘‘ کی ٹھیٹھ اسلامی روح کے مطابق کروں گا!

ان تصریحات سے یہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ تنظیم کے عقائد اور بنیادی دینی نظریات کی متذکرہ بالا چھ شقوں کا تعلق اُن تین اہم دینی اصطلاحات سے ہے جو ’’تنظیم اسلامی کی اساسی دعوت‘‘ کے عنوان سے چند آیاتِ قرآنیہ کے ساتھ ابتداء ہی سے جلی طور پر شائع ہوتی رہی ہیں‘ یعنی: تجدید ایمان‘ توبہ اور تجدیدِ عہد! چنانچہ پہلی دو شقوں کا تعلق تجدید ایمان سے ہے‘ درمیانی دو کا توبہ سے اور آخری دو کا تجدید عہد سے!!

اللہ تعالیٰ ہم سب کے قلوب و اذہان کو ایمانِ حقیقی اور یقین و معرفت کے نور سے منور فرمائے‘ ہمیں جملہ فرائض و واجبات کے التزامِ تام اورمنکرات و منہیات سے اجتنابِ کلی کی توفیق عطا فرمائے‘ اور اپنے جملہ عہُود و عقود کے ایفائے کاملہ کی ہمت عطا فرمائے .آمین یا ربّ العالمین!

ذاتی طور پر راقم الحروف کی رائے جماعت سے علیحدگی کے دو سال کے اندر اندر یعنی اپریل ۱۹۵۹ء کے لگ بھگ ہی یہ بن چکی تھی کہ اقامتِ دین کے لیے جدوجہد کرنے والی جماعت کی تنظیمی اساس بیعت کے مسنون اور ماثور اُصول پر قائم ہونی چاہیے نہ کہ عہدِ حاضر کے مغرب سے درآمد شدہ دستوری اور جمہوری اصولوں پر تاہم راقم کے نزدیک نہ مقدم الذکر ہیئت تنظیمی فرض یا واجب کے درجہ میں ہے نہ مؤخر الذکر مباحات کے دائرے سے خارج ہے. یہی وجہ ہے کہ آٹھ سال بعد ۱۹۶۷ء میں اولاً رحیم آباد اور پھر رحیم یار خاں میں ایک نئی تنظیم کے قیام کا فیصلہ ہوا تو راقم اُس میں پورے انشراح 
ہی نہیں ‘ بھر پور جوش و خروش کے ساتھ شریک ہوا‘حالانکہ جیسے کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے ‘ یہ بات اظہر من الشمس تھی کہ اس ’’بارات کے دولہا‘‘ کی حیثیت مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کو حاصل تھی‘ اور وہی بلاشائبہ ریب و شک مجوزہ تنظیم کے امیر بنتے اور اُن کے بارے میں یہ بات ظاہر و باہر اور معلوم و معروف تھی کہ اُن کا شدید رجحان ہی نہیں قطعی و حتمی رائے دستوری اور جمہوری نظام جماعت کے حق میں ہے.اسی طرح مزیدآٹھ سال بعد یعنی ۱۹۷۵ء میں جب موجودہ تنظیم اسلامی کی تاسیس کا مرحلہ آیا تب بھی راقم نے نظامِ جماعت کے مسئلے کو کھلا رکھا اور پہلے تین سالوں کو عبوری دور قرار دیتے ہوئے اپنی حیثیت صرف کنوینر کی رکھی تاکہ جماعت ِاسلامی سے علیحدگی اختیار کرنے والے دوسرے بزرگ حضرات بھی شمولیت پر آمادہ ہو جائیں تو اُن کے مشورے بلکہ صوابدید کے مطابق ہیئت ِتنظیمی تشکیل دے لی جائے! اور اس میں ہر گز کسی شک اور شبہ کی گنجائش نہیں تھی کہ اگر وہ حضرات شمولیت اختیار کر لیتے تو لامحالہ ایک دستوری اور جمہوری نظم ہی قائم ہوتا.

لیکن جب دو ڈھائی سال کے انتظار کے بعد ثابت ہو گیا کہ بزرگ سابقینِ جماعت میں سے کوئی ایک شخص بھی اس نئے قافلے میں شمولیت پر آمادہ نہیں ہے‘ تو چاروناچار راقم کو یہ فیصلہ کر لینا پڑا کہ اب اسے اپنی ذاتی صوابدید ہی کو بُروئے کار لانا ہے اور اپنی رائے کو پورے شرح و بسط کے ساتھ رفقاء کے سامنے رکھ دینا ہے تاکہ بفحوائے الفاظِ قرآنی: 
لِّیَہۡلِکَ مَنۡ ہَلَکَ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ وَّ یَحۡیٰی مَنۡ حَیَّ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ ؕ (الانفال:۴۲جسے ساتھ دینا ہے وہ بھی پورے انشراح صدر کے ساتھ دے‘ اور جسے ساتھ چھوڑ دینا ہے وہ بھی خوب سوچ سمجھ کر علیحدہ ہو!

تنظیم اسلامی کا پہلا سالانہ اجتماع ۲۵ تا ۲۷ مارچ ۱۹۷۶؁ اپنے مقامِ تاسیس ہی پر منعقد ہوا تھا اور دوسرے سالانہ اجتماع کے انعقاد کے لیے بھی اواخر مارچ ۱۹۷۷؁کی تاریخوں کا تعین ہو چکا تھا کہ اچانک ملکی انتخابات میں حکومت وقت کی جانب سے کی گئی دھاندلیوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں نے ملک گیر تحریک کی صورت اختیار کر لی جو ’’تحریک نظامِ مصطفی(  )‘‘ کے نام سے موسوم ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی. لہذا تنظیم کے اجتماع کو ملتوی کرنا پڑا. ۴ اور ۵ جولائی ۱۹۷۷؁ کی درمیانی شب کو ملک میں مارشل لاء نافذ ہوا تو امن و امان کی 
صورت حال بحال ہوئی اور چونکہ کچھ اندازہ نہ تھا کہ تین ماہ بعد مارشل لاء کے اختتام پر ملک میں دوبارہ کیسے حالات پیدا ہو جائیں‘ لہذا بعض اہم رفقاء کے مشورے سے طے کر لیا گیا کہ پہلی فرصت میں تنظیم کا ایک اجتماع منعقد کر لیا جائے جو دوسرے اور تیسرے سالانہ اجتماعات کا قائم مقام ہو اور اس میں تنظیم کے مستقل نظام کے بارے میں حتمی فیصلہ کر لیا جائے.

یہ اجتماع جو کچھ دو اجتماعات کے قائم مقام ہونے کے ناتے اور کچھ اہم موضوعات پر تفصیلی گفت و شنید اور بحث و تمحیص کی ضرورت کے پیشِ نظر پورے ایک ہفتے کے لیے طلب کیا گیا تھا‘ ۵ تا۱۱ اگست ۱۹۷۷ء قرآن اکیڈمی‘ ماڈل ٹاؤن ‘لاہور میں جاری رہا. اس میں راقم نے حسبِ ذیل تین تنقیحات کے ذیل میں نہ صرف یہ کہ اپنے دینی فکر کو پوری وضاحت اور شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا بلکہ جملہ شرکاءِ اجتماع کو بھی اظہارِ خیال اور اختلافِ رائے کا پورا موقع فراہم کیا:

’’۱) اقامت دین‘ شہادت علی الناس اور غلبہ و اظہارِ دین کی سعی و جہد نفلی عبادت یا اضافی نیکی نہیں بلکہ ازروئے قرآن و حدیث بنیادی دینی فرائض میں شامل ہے. 
۲) اس دینی فریضہ کی ادائیگی کے لیے التزامِ جماعت واجب ہے. 
۳) ایسی دینی جماعت کی ہیئتِ تنظیمی مغرب سے درآمد شدہ دستوری‘ قانونی اور جمہوری طرز کی نہیں بلکہ قرآن و سنت اور اسلاف کی روایات سے مطابقت رکھنے والے بیعت کے اصول پر مبنی ہونی چاہیے.‘‘ 

الحمد للہ کہ ان تنقیحاتِ ثلاثہ پر پورے چھ دن سیر حاصل گفتگو ہوئی جس کے نتیجے میں شرکائِ اجتماع کی غالب اکثریت نے راقم کے خیالات اور نظریات سے کامل اتفاق کیا اور بالآخر ناظم عمومی جناب شیخ جمیل الرحمن صاحب کی تحریک پر حسب ذیل قرار داد منظور ہو گئی:

’’تنظیم اسلامی کا یہ اجتماع عام حسبِ دفعہ ۳ دستور تنظیم اسلامی طے کرتا ہے کہ:

۱. آئندہ تنظیم ِاسلامی کا نظام مغرب سے درآمد شدہ دستوری ‘قانونی اور جمہوری اُصولوں کے بجائے قرآن و سنت سے ماخوذ اور اسلاف کی روایات کے مطابق بیعت کے اصول پر مبنی ہو گا. چنانچہ تنظیم اسلامی کے داعی عمومی جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب آج کے بعد سے ’’امیر تنظیم اسلامی‘‘ ہوں گے. تنظیم میں داخلہ ان کے ساتھ اطاعت فی المعروف کی بیعت کا شخصی رابطہ استوار کرنے سے ہو گااور 
وہ بحیثیت امیر تنظیم اسلامی اپنے فرائض وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ اور وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ کی قرآنی ہدایات کے مطابق ادا کریں گے.

۲. اس فیصلے سے لازم آتا ہے کہ:
(i) تنظیم اسلامی میں جو حضرات اب تک شریک رہے ہیں ان کی رفاقت آج سے ختم شمار ہو گی‘ تا آنکہ وہ اس قرارداد کے جزو اوّل کے مطابق بیعت کے نظم میں شامل ہو جائیں.
(ii) تنظیم اسلامی کا موجودہ دستور بھی کالعدم متصور ہو گا اور امیر تنظیم اسلامی جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو اختیار ہو گا کہ وہ جن رفقاء سے مناسب سمجھیں مشورہ کر کے آئندہ کا دستور العمل طے کر لیں.‘‘

۱۰ /اگست ۱۹۷۷؁ کو اس قرارداد کی منظوری اور اس پر جملہ شرکاء اجتماع کے د ستخط ثبت ہونے پر گویا تنظیم اسلامی کا عبوری دور ختم اور نیا اور مستقل دور شروع ہو گیا‘ جو بحمد اللہ تاحال جاری ہے. 

اس عرصے کے دوران اگر کوئی خیر ذاتی طور پر راقم الحروف اور اجتماعی طور پر تنظیم اسلامی سے بن آیا ہے تو وہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور توفیق و تیسیر کا مظہر ہے اور کوتاہیاں اور لغزشیں سرزد ہوئیں تو ہمارے اپنے نفوس کی شرارتوں کی بنا پر چنانچہ آئندہ کے لیے اللہ تعالیٰ ہی سے دعا ہے کہ وہ اپنے خصوصی فضل و کرم سے نوازتے ہوئے ہدایت و استقامت میں اضافہ فرمائے اور شیطان کے فریب اور نفس کی شرارتوں سے اپنی حفاظت میں رکھے! 
رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَ ہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ ﴿۸﴾! آمین!

تنظیم اسلامی کے لیے اُصولی طور پر ’’بیعت سمع و طاعت فی المعروف‘‘کی تنظیمی اساس کو اختیار کر لینا تو مشکل نہ تھا لیکن موجودہ حالات میں اس بنیاد پر ایک جماعتی نظام کا ڈھانچہ بالفعل کھڑا کرناہر گز آسان نہ تھا. اس لیے کہ ایک جانب یہ تصور ’’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل‘‘کے مصداق ذہنوں سے بالکل خارج ہو چکا تھا‘ اور دوسری جانب ’’بیعت‘‘ کے ساتھ ایسے بہت سے عجیب و غریب تصورات لازم و ملزوم کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں جن سے موجودہ ذہن ہی نہیں خود فطرتِ انسانی اِبا کرتی ہے. یہی وجہ ہے کہ ابتداء میں کچھ عرصے تک ہم خود بھی اس کے اظہار و اعلان میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے رہے کہ دنیا کیا کہے گی ؏ ’’ کہ اکبر ؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں!‘‘ بعد میں جب اس کا 
چرچا عام ہوا تو نہ صرف تمسخر اور استہزاء ‘ بلکہ تردید اور مخالفت کا بازار بھی گرم ہوا لیکن بحمد اللہ اب جبکہ اس نظام کو بالفعل چلتے ہوئے چودہ برس ہونے کو آئے ہیں‘ اور نہ صرف اندرون ملک کثیر تعداد میں‘ بلکہ بیرون ملک حتی کہ انگلستان اور امریکہ میں مقیم حضرات نے بھی معتدبہ تعداد میں اپنے فرائضِ دینی کی ادائیگی کے لیے بیعت کا قلادہ گردن میں ڈالنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ہے‘ ہم اپنے دلوں میں گہرے تشکر آمیز اطمینان کا احساس موجزن پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک مردہ سنت کے احیاء کی توفیق عطا فرمائی. وَ مَا کُنَّا لِنَہۡتَدِیَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ ہَدٰىنَا اللّٰہُ!! 

بیرونی تمسخر اور مخالفت کو برداشت کرنے سے زیادہ کٹھن مرحلہ اُن غلط تصورات کے خاتمے کا تھا جو بیعت کے لفظ کے ساتھ لامحالہ وابستہ ہو گئے ہیں. ان میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور مکروہ تصور یہ ہے کہ بیعت کے نظام میں نہ باہمی مشاورت کی کوئی گنجائش ہے نہ اختلافِ رائے اور اظہارِ خیال کا کوئی موقع! چنانچہ ہمیں اس غلط تصور کی نفی اور اس حقیقت کے اثبات میں بہت محنت بھی کرنی پڑی اور بہت سا وقت بھی صرف کرنا پڑا کہ نظامِ بیعت میں اختلافِ رائے کی گنجائش ’اظہارِ خیال کے مواقع‘ اور باہمی مشاورت کا میدان نام نہاد جمہوری نظام سے بھی وسیع تر موجودہ ہے اور فرق صرف اتنا ہے کہ جمہوری نظام میں آخری فیصلہ ؏ ’’بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے!‘‘ کے مصداق آراء کی گنتی کی بنیاد پر ہوتا ہے جبکہ نظامِ بیعت میں اظہارِ رائے اور کھلی بحث وتمحیص کے بعد آخری فیصلہ صاحبِ امر کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے! گویا نظامِ بیعت میں اُصولِ قرآنی: وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ (الشوریٰ : ۳۸کی بالفعل تعمیل حکم قرآنی: وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ (آل عمران: ۱۵۹کے مطابق ہوتی ہے. 

دوسری جانب اس تصور کا خاتمہ بھی ہر گز آسان نہ تھا کہ مشاورت باہمی کا لازمی اور منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اکثریت کی رائے کو فیصلہ کن قرار دیا جائے‘ اس لیے کہ عہد حاضر میں ’’سلطانی ٔ جمہور‘‘ کا تصور نہ صرف یہ کہ حد درجہ عالمگیراور ہمہ گیر ہو چکا ہے بلکہ لوگوں کے شعور ہی نہیں تحت الشعور کی گہرائیوں میں اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ بسا اوقات بیعت کے نظام کو اصولاً تسلیم اور اختیار کر لینے کے بعد بھی اس پر اصرار برقرار رہتا ہے کہ امیر کو شوریٰ کی اکثریت کے فیصلے کا ’’پابند‘‘ ہونا چاہیے.

الغرض تنظیم اسلامی کے لیے بیعت کا نظام اُصولی طور پر تو ۱۹۷۷ء میں اختیار کر لیا گیا تھا‘ اور 
اس کے بعد سے عملاً تنظیم کی گاڑی اسی پٹڑی پر چل رہی ہے‘ تاہم اس کے مضمرات اور متضمنات کے واضح ہونے اور اسی کی بنیاد پر ایک جماعتی نظام کی تفصیلی تشکیل اور اس کے خدوخال کے صفحۂ قرطاس پر مرتسم ہونے میں کم و بیش دس سال کی مدت صرف ہوئی. یوں نہ صرف اصولی غور و خوض بلکہ دس سالہ تجربات کی روشنی میں تنظیم اسلامی کے لیے ایک تحریری ’’نظام العمل‘‘ کی تسوید وتبییض کا مرحلہ اوائل ۱۹۸۸ ؁ میں شروع ہو سکا‘ جبکہ تنظیم کی مرکزی مجلس مشاورت نے اپنے اجلاس منعقدہ ۲‘ ۳ مارچ ۱۹۸۸؁ میں باضابطہ طے کیا کہ: 

’’تنظیم اسلامی میں شمولیت کے لیے بیعت کی اساس اگرچہ دس سال قبل اختیار کر لی گئی تھی لیکن فی زمانہ کسی ہیئت ِاجتماعیہ کے لیے اس مسنون اساس کے متروک العمل ہونے کے باعث تنظیم اسلامی کو بھی اس کے عملی تقاضوں سے کامل ہم آہنگی کے ضمن میں تدریجی مراحل سے گزرنا پڑا ہے. اسی ضمن میں اگرچہ متعدد فیصلے مختلف اوقات میں کیے جاتے رہے ہیں لیکن ان کو باضابطہ ضبط تحریر میں نہیں لایا گیا. اسی طرح اگرچہ تنظیم کی قراردادِ تاسیس اور اس کی توضیحات میں بعض تاریخی اسباب کی بنا پر فریضہ ٔ اقامت دین کی اہمیت اور اس کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کے لزوم کے قدرے خفی اور غیر نمایاں ہونے کے پیش نظر تنظیم کے آٹھویں سالانہ اجتماع میں یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ آئندہ تنظیم اسلامی محض اصلاحی اور دعوتی نہیں بلکہ انقلابی تنظیم ہو گی‘ تاہم ابھی تک یہ بات بھی پوری وضاحت کے ساتھ تحریری طور پر سامنے نہیں آئی. لہٰذا ضروری ہے کہ ان دونوں اُمور کو مجوزہ نظام العمل میں صراحت کے ساتھ درج کر دیا جائے اور جیسے کہ پانچ سال قبل طے کیا گیا تھا تنظیم اسلامی کی ’’قراردادِ تاسیس مع توضیحات‘‘ اور ’’شرائط ِ شمولیت‘‘ پر مشتمل مفصل تحریر کو آئندہ تنظیم کی آئینی و دستوری اساس نہیں بلکہ اس کے دعوتی اور تربیتی لٹریچر کا اہم اور اساسی حصہ سمجھا جائے.‘‘

الحمد للہ کہ اندریں اَثنا تنظیم کا تفصیلی ’’نظام العمل‘‘ تیار ہو کر ’’سلسلۂ اشاعت تنظیم اسلامی نمبر ۴‘‘ کی حیثیت سے شائع ہو رہا ہے جبکہ پیش نظر کتاب تنظیم کے اساسی نظریات کی وضاحت پر مشتمل ہونے کے ناتے اس کے دعوتی اور تربیتی لٹریچر کا اہم حصہ ہے. 

اس کتاب کے تیسرے اور مختصر ترین حصے میں ’’فرائضِ دینی کا جامع تصور‘‘ مختصر ترین الفاظ میں بیان ہوا ہے. یہ راقم الحروف کے عمر بھر کے مطالعۂ قرآن و حدیث اور سنت و سیرتِ رسول
( ) کے خلاصے اور لب لباب کی حیثیت رکھتا ہے اور اس اعتبار سے بلاشبہ تنظیم کے اساسی دینی فکر کا جزوِ لاینفک ہے. 

راقم نے اپنے ان تصورات کے سلسلے میں علماء کرام سے استصواب اور اُن کی آراء سے رفقاء تنظیم کو براہ راست آگاہ کرنے کے لیے یہ اہتمام کیا کہ ۱۹۸۵ء میں تنظیم کا سالانہ اجتماع بھی ۲۳ تا۲۸ مارچ مسلسل چھ دن جاری رہا اور انہی ایام میں مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے سالانہ محاضراتِ قرآنی بھی منعقد کر لیے گئے. چنانچہ جامع القرآن‘ قرآن اکیڈمی‘ ماڈل ٹاؤن لاہور میں صبح کے اوقات میں تنظیم کے سالانہ اجتماع کی کارروائی جاری رہتی تھی اور شام کو تین ساڑھے تین گھنٹے کا اجلاس محاضرات کا ہوتا تھا‘ جن کا موضوع میری یہی تحریر تھی جس پر تقریباً یک صد علماء کو اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی تھی. ان میں سے پچیس حضرات نے باضابطہ شرکت فرما کر بالمشافہہ خطاب فرمایا اور تقریباً اتنے ہی حضرات نے اپنی آراء تحریری صورت میں ارسال کر دیں. چنانچہ روزانہ اوسطاً چار حضرات کا خطاب ہوا جن میں سے بعض نے میرے خیالات کی کامل تصویب فرمائی‘ بعض نے جزوی اتفاق کا اظہار فرمایا‘ بعض نے شدید تنقید کی‘ یہاں تک کہ بعض نے فقرے بھی چست کیے اور مذاق اُڑایا. الحمد للہ کہ تنظیم کے لگ بھگ ساڑھے تین سو رفقاء نے جملہ تقاریر کو پورے سکون و اطمینان اور کامل توجہ و انہماک کے ساتھ سنا‘ جس سے بحمدا للہ اُن کے اعتماد ہی میں اضافہ ہوا اور کسی ایک کے دل میں بھی فرائض دینی کے اس جامع تصور کے بارے میں کوئی اشتباہ پیدا نہ ہوا. 

ذاتی طور پر راقم کو ان محاضرات سے دو فائدے حاصل ہوئے. ایک تو رواروی میں لکھی ہوئی عبارت میں بعض الفاظ کے بے محل استعمال سے جو مغالطے پیدا ہوئے اُن کی اصلاح کی صورت پیدا ہوگئی. دوسرے یہ کہ راقم کو اپنے فکر کی مجموعی تصویب مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ ‘ مولانا مفتی سیاح الدین کاکا خیلؒ ‘ مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری‘ مولانا سید مظفر حسین ندوی اور ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی ایسے اصحاب علم و فضل سے حاصل ہوئی‘ جس سے ؏ ’’متفق گر دید رائے بو علی بارائے من!‘‘ کے مصداق خود راقم کے اعتماد میں اضافہ ہوا. 
فجزاھم اللّٰہ عنّی و عن جمیع رفقاء التنظیمِ خیر الجزائ.

آمین!
اسرارا حمد عفی عنہ