قرار دادِ تاسیس

بسم اللہ الرحمن الرحیم

’’ آج ہم اللہ کا نام لے کر ایک ایسی اسلامی تنظیم کے قیام کا فیصلہ کرتے ہیں جو دین کی جانب سے عائد کردہ جملہ انفرادی و اجتماعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں ہماری ممدو معاون ہو. 

ہمارے نزدیک دین کا اصل مخاطب فرد ہے. اُسی کی اخلاقی و روحانی تکمیل اور فلاح و نجات‘ دین کا اصل موضوع ہے‘ اور پیش نظر اِجتماعیت اصلاً اسی لیے مطلوب ہے کہ وہ فرد کو اس کے نصب العین یعنی رضائے الٰہی کے حصول میں مدددے.

لہذا پیش نظر اِجتماعیت کی نوعیت ایسی ہونی چاہیے کہ اُس میں فرد کی دینی اور اخلاقی تربیت کا کماحقہ‘ لحاظ رکھا جائے اور اس امر کا خصوصی اہتمام کیا جائے کہ اس کے تمام شرکاء کے دینی جذبات کو جِلا حاصل ہو‘ ان کے علم میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے‘ ان کے عقائد کی تصحیح و تطہیر ہو‘ عبادات اور اتباعِ سنت سے اُن کا شغف اور ذوق و شوق بڑھتا چلا جائے‘ عملی زندگی میں حلال و حرام کے بارے میں اُن کی حس تیز تر اور اُن کا عمل زیادہ سے زیادہ مبنی بر تقویٰ ہوتا چلا جائے اور دین کی دعوت و اشاعت اور اس کی نصرت و اقامت کے لیے اُن کا جذبہ 
ترقی کرتا چلاجائے. اِن تمام اُمور کے لیے ذہنی اور علمی رہنمائی کے ساتھ ساتھ عملی تربیت اور تاثیر صحبت کے اہتمام کی جانب خصوصی توجہ ناگزیر ہے.
دعوتِ دین کے ضمن میں ہمارے نزدیک 
’’الدِّینُ النَّصیحۃُ‘‘ 

کی روح اور ’’الاقرب فالاقرب‘‘ کی تدریج ضروری ہے. لہذا دعوت و اصلاح کے عمل کو فرد سے اوّلاًکنبہ اور خاندان اور پھر تدریجاً ماحول کی جانب بڑھانا چاہیے. اس ضمن میں نئی نسل کی دینی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام ناگزیر ہے.
عامۃ النّاس کو دین کی دعوت و تبلیغ کی جو ذمہ داری اُمت مسلمہ پر بحیثیت مجموعی عائد ہوتی ہے‘ اس کے ضمن میں ہمارے نزدیک اہم ترین کام یہ ہے کہ جاہلیت قدیمہ کے باطل عقائد و رسوم اور دورِ جدید کے گمراہ کن افکارو نظریات کا مدلل ابطال کیا جائے اور حیاتِ انسانی کے مختلف پہلوؤں کے لیے کتاب و سنت کی ہدایت و رہنمائی کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا جائے‘ تاکہ ان کی اصلی حکمت اور عقلی قدر و قیمت واضح ہو اور وہ شبہات و شکوک رفع ہوں جو اس دَور کے لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں.‘‘