قرارداد میں جن اُمور کی وضاحت کی گئی ہے ان میں اوّلین اور اہم ترین امر یہ ہے کہ ’’ہمارے نزدیک دین کا اصل مخاطب فرد ہے. اسی کی اخلاقی اور روحانی تکمیل اور فلاح و نجات‘ دین کا اـ صل موضوع ہے اور پیش نظر اجتماعیت اصلاً اسی لیے مطلوب ہے کہ وہ فرد کو اس کے اصل نصب العین یعنی رضائے الٰہی کے حصول میں مدد دے! ‘‘ اس تصریح کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ماضی میں مسلمانوں کو ان کی یہ ذمہ داری تو بالکل ٹھیک یاد کرائی گئی کہ جس دین کے وہ مدعی ہیں اسے دنیا میں عملاً قائم کرنے کی سعی و جہد بھی ان پر فرض ہے اور یہ کہ دین محض ذاتی عقائد اور کچھ مراسمِ عبودیت یعنی انسان اور رب کے مابین پرائیویٹ تعلق کا نام نہیں ہے بلکہ وہ انسان کی پوری انفرادی و اجتماعی زندگی کو اپنے احاطے میں لینا چاہتا ہے لیکن ان اُمور پر اس قدر زور دیا گیا کہ بندے اور رب کے مابین تعلق کی اہمیت اور افراد کی اپنی علمی‘ اخلاقی اور رُوحانی ترقی نظر انداز ہوتی چلی گئی. آئندہ جو کام پیش نظر ہے اُس کے اُصول و مبادی میں یہ نکتہ بہت زیادہ قابل لحاظ رہے گا کہ ایک مسلمان کا اصل نصب العین صرف نجات اُخروی اور رضائے الٰہی کا حصول ہے اور اس کے لیے اسے اصل زور اپنی سیرت کے تطہیر و تزکیے اور اپنی شخصیت کی تعمیر و تکمیل پر دینا ہو گا‘ جس سے تعلق مع اللہ اور محبت خدا اور رسول  میں اضافہ ہوتا رہے اور اس میں زیادہ سے زیادہ اخلاص پیدا ہوتا چلا جائے. دین کی تائید و نصرت اور شہادت و اقامت یقینا فرائض دینی میں سے ہیں لیکن ان کے لیے کوئی ایسی اجتماعی جدوجہد ہرگز جائز نہیں ہے جو افراد کو ان کے اصل نصب العین سے غافل کر کے انہیں محض ایک دُنیوی انقلاب کے کارکن بنا کے رکھ دے! چنانچہ پیش نظر اجتماعیت میں اوّلین زور افراد کی دینی و اخلاقی تربیت پر دیا جائے گا اور اس امر کا خصوصی اہتمام کیا جائے گا کہ’’اس کے تمام شرکاء کے دینی جذبات کو جِلا حاصل ہو‘ ان کے علم میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے‘ ان کے عقائد کی تصحیح و تطہیر ہو‘ عبادات اور اتباعِ سنت سے ان کا شغف اور ذوق و شوق بڑھتا چلا جائے‘ عملی زندگی میں حلال و حرام کے بارے میں ان کی حِس تیز تر اور ان کا عمل زیادہ سے زیادہ مبنی بر تقویٰ ہوتا چلا جائے اور دین کی دعوت و اشاعت اور اس کی نصرت و اقامت کے لیے ان کا جذبہ ترقی کرتا چلا جائے.‘‘

’’دینی جذبات کے جِلا‘‘ کے لیے قرآن مجید کی بلا ناغہ تلاوت مع تدبر‘ سیرتِ نبویؐ اور سِیَر الصحابہؓ کا مطالعہ‘ مجالس ِوعظ کا انعقاد‘ باہمی مذاکرۂ آخرت اور مضامین موعظت پر مشتمل آسان لٹریچر کی اشاعت پر زور دیا جائے گا.

’’علم میں مسلسل اضافے‘‘ کے لیے عربی زبان کی تحصیل کی عام ترغیب اور اس کا اہتمام ‘قرآنِ حکیم اور حدیثِ نبویؐ کے باقاعدہ حلقہ ہائے درس کا قیام اور جاہلیت قدیمہ و جدیدہ پر اسلام کے نقطۂ نظر سے تنقیدی کتب کی نشرواشاعت کا اہتمام کیا جائے گا.

مندرجہ بالا دونوں اُمور سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ جاہلیتِ قدیم و جدید دونوں کے اثرات قلوب و اذہان سے محو ہوں‘ عقائد کی تصحیح و تطہیر ہو اور صحیح اسلامی عقائد کی تخم ریزی و آبیاری ہو سکے.

شرکائے تنظیم کے دینی جذبات کے جِلااور علم میں اضافے کا براہِ راست اثر عملی زندگی پر پڑے گا اور ان کی زندگیوں میں دینی تبدیلی عملاً پیدا ہوتی چلی جائے گی لیکن اس میدان میں اس امر کی شدید ضرورت ہو گی کہ اس بات کی کڑی نگرانی کی جائے کہ یہ تبدیلی 
ہمہ جہتی ہو اور اعمالِ انسانی کے مختلف گوشوں میں متناسب انداز میں ظہور پذیر ہو. چنانچہ عبادات میں ذوق و شوق‘ معاملات میں احتیاط و تقویٰ اور دعوتی و تنظیمی سرگرمیوں میں شغف اور دلچسپی متناسب انداز میں بڑھے. یہ صورتِ حال کہ جلسوں کے انعقاد کے ضمن میں تو پابندی بھی ملحوظ رہے اور جوش و خروش کا بھی مظاہرہ کیا جائے لیکن نماز باجماعت کی پابندی گراںمحسوس ہو اور نوافل سرے سے خارج از بحث ہو جائیں‘ دین کی نصرت و حمایت کا جذبہ تو ترقی کرتا چلا جائے لیکن تزکیۂ باطن کی طرف کوئی توجہ نہ دی جائے‘ یا سنت ِنبویؐ کی حجیت و اہمیت پر دلائل تو ازبر ہوں لیکن خود اپنی زندگی میں اتباعِ نبویؐ کی جھلک نظر نہ آئے‘ نہ صرف یہ کہ افراد کے حق میں سمِّ قاتل ہے بلکہ خوداجتماعیت کے لیے بھی سخت مُضر اور مہلک ہے لہذا اس امر کی کڑی نگرانی ضروری ہو گی کہ شرکاء میں عبادات سے شغف‘ اتباعِ سنت کا جذبہ‘ معاملات میں حلال و حرام کی حدود و قیود کی پابندی اور دعوتی و تنظیمی سرگرمیوں سے دلچسپی توافق و تناسب کے ساتھ بڑھیں. خصوصاً یہ احتیاط تو انتہائی لازمی ہو گی کہ پیشِ نظر اجتماعیت کے تنظیمی ڈھانچے میں جو لوگ آگے آئیں وہ تیزی و مستعدی اور نفاست و باقاعدگی سے کام کرنے کی صلاحیت کے اعتبار سے چاہے کسی قدر تہی دست ہوں‘ عبادات اور اتباعِ سنت کے ذوق و شوق سے ہر گز تہی دامن نہ ہوں.

شرکائے جماعت میں مندرجہ بالا تبدیلیوں یا بالفاظ دیگر ان کے نفوس کے تزکیہ اور ان کی شخصیت کی دینی تعمیر کے لیے جہاں ذہنی و علمی رہنمائی اور فکری تربیت لازمی و لابدی ہیں وہاں عملی تربیت اور تاثیرِ صحبت کا موثر اہتمام بھی ضروری و ناگزیر ہے. اس غرض کے لیے مختلف مقامات پر تربیت گاہوں کا سلسلہ بھی شروع کیا جاسکتا ہے اور ایک ایسی مرکزی تربیت گاہ کا قیام بھی عمل میں لایا جاسکتا ہے جس میں مختلف مقامات کے رفقاء گروپس 
(groups) کی صورت میں شریک ہوں اور ایک مقررہ میعاد میں نہیں قرآن و حدیث کے منتخب حصص کا درس بھی دیا جائے اور ایک ایسی دینی فضا بھی مہیا کی جائے جس میں ان کے دینی جذبات بھی ازسرنو تروتازہ ہوں اور ایک خالص اسلامی زندگی بسر کرنے کا عملی تجربہ بھی حاصل ہو جائے.

قرار داد کے بنیادی نکات میں سے دوسرا اہم اور بنیادی نکتہ یہ ہے کہ: ’’دعوت کے ضمن میں ہمارے نزدیک 
’’الدِّین النَّصیحۃ‘‘ کی روح اور ’’الاقرب فالاقرب‘‘ کی تدریج ضروری ہے. ‘‘پیش نظر اجتماعیت لازماً یہ چاہے گی کہ اس کا ہر شریک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں داعی الی اﷲ اور اپنے ماحول میں حسب مقدور و صلاحیت اور بقدر ہمت و استطاعت ہدایت کا ایک روشن چراغ بن کر رہے اور اس کی شخصیت پر بحیثیت مجموعی داعیانہ رنگ غالب ہوجائے.
اس دعوت کا اصل محرک ابنائے نوع کی ہمدردی اور نصح و خیر خواہی کا جذبہ ہونا چاہیے اور اس میں نہ تو اپنی شخصیت کی نمود کا کوئی شائبہ شامل ہونا چاہیے نہ طلب جاہ کا. حتیٰ کہ اﷲ، رسولؐ اور شریعت کی وفاداری کے جذبے کے تحت اگر کبھی کسی فرد، گروہ یا ادارے پر تنقید کی نوبت آجائے تو اس میں بھی ہمدردی اور دل سوزی غالب رہے اور ذاتی رنجش یا انتقامِ نفس کا کوئی شائبہ نہ پیدا ہونے پائے.

اس سلسلے میں یہ وضاحت بہت ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے کا مجموعی مزاج اگرچہ دین سے بہت دور جاچکا ہے اور اس اعتبار سے انتہائی اصلاح طلب ہے لیکن دعوت و اصلاح کے عمل میں دو حقائق کا لحاظ ضروری ہے. ایک یہ کہ یہ معاشرہ ایک مجموعی اکائی ہے اور اس کے تمام طبقات میں انحطاط سرایت کرچکا ہے. اس اعتبار سے اس کے مختلف طبقات میں کمیت کا تھوڑا بہت فرق چاہے موجود ہو ‘کوئی بنیادی امتیاز موجود نہیں ہے . دوسرے یہ کہ انحطاط براہِ راست نتیجہ ہے جذبات ایمانی کے ضعف اور کتاب و سنت کے علم کی کمی کا. اس میں دین دشمنی کا عنصر 
چند ایسی استثنائی صورتوں کے سوا موجود نہیں ہے جو اگرچہ بجائے خود تو بہت خطرناک ہیں اور ان سے خبردار رہنے کی بھی ضرورت ہے تاہم مجموعی اعتبار سے ہمارے معاشرے کے عام بگاڑ کا اصل سبب دین دشمنی نہیں بلکہ دین سے لاعلمی ہے. حکومت اس معاشرے کا جامع عکس اور اربابِ اقتدار اس کا اہم جزو ہیں. اُن کو اپنی اہمیت اور معاشرے میں اثر و نفوذ کی قوت و صلاحیت کے اعتبار سے دعوت و تخاطب میں اولیت تو دی جاسکتی ہے اور دی جانی چاہیے لیکن انہیں دین کا دشمن قرار دے کر ان کے خلاف نفرت و عداوت کے جذبات پیدا کرنے کے لیے عوام کے دینی جذبے کو مشتعل کرنا درآں حالیکہ عوام کی ایک عظیم اکثریت کا حال دین سے بے خبری اور عملی بُعد کے اعتبار سے کم و بیش وہی ہے جو اصحابِ قوت و اختیار کا‘ نہ ان کی خیر خواہی ہے نہ خود دین کی. رہا اقتدار کے حصول کی خاطر برسر اقتدار طبقے کے مخالف و معاند کی حیثیت اختیار کرنا تو یہ ہمارے نزدیک دینی نقطہ نظر سے نہایت مضر ہی نہیں سخت مہلک ہے جس سے کُلی اجتناب لازمی و لابدی ہے. ہمارے نزدیک ’’اَئمّۃُ المُسْلِمِین‘‘ اور ’’عامّتھم‘‘ دونوں ہی نصح و خیرخواہی کے برابر مستحق اور دعوت و اصلاح کے یکساں محتاج ہیں!

یہاں یہ تصریح بھی ضروری ہے کہ ہماری دانست میں انتخابات کے ذریعے عمومی اصلاح کا نظریہ نری خام خیالی پر مبنی ہے‘ بحالاتِ موجودہ تو اس امر کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں ہے کہ انتخابات کے ذریعے اصلاح کی اُمید کی جائے. ویسے بھی ہماری رائے میں انتخابات میں دوسری جماعتوں کے مخالف و مقابل کی حیثیت سے شرکت‘ دعوت و اصلاح کے صحیح نہج کے منافی ہے اور اس سے قبولِ حق کے دروازے بند ہوجاتے ہیں.

داعی کے قلب میں اپنے ابنائے نوع کے لیے جس ہمدردی اور نصح وخیر خواہی 
کا ہونا لازمی ہے‘ اسی کا ایک اہم مظہر رافت و رحمت اور شفقت و رقت کا وہ جذبہ ہے جو ابنائے نوع کو تکلیف اور مصیبت میں دیکھ کر اس کے دل میں پیدا ہوتا ہے اور عملی زندگی میں خدمتِ خلق اور ایثار و انفاق کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے. دعوت دین اور خدمت خلق کا ایسا چولی دامن کا ساتھ ہے کہ ایک کو دوسرے سے علیحدہ کرنا ممکن نہیں بلکہ بلا خوف تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ دین کا وہ داعی جو خادم خلق نہ ہو اپنی دعوت میں دولت اخلاص سے محروم ہے. اس ضمن میں یہ فرق البتہ ضرور پیش نظر رہنا چاہیے کہ خدمت خلق کی اجتماعی سکیموں کو زیر عمل لانا بالکل دوسری بات ہے اور افراد میں خدمت خلق کے جذبے کا پیدا ہونا اور بڑھنا بالکل دوسری چیز ہے. خدمت خلق کی اجتماعی سکیموں کی اہمیت اپنی جگہ کتنی ہی مسلم ہو‘ دعوت دین کے نقطہ نظر سے اصل مطلوب افراد کے قلوب میں شفقت و رحمت کے جذبے اور عمل میں ایثار و انفاق کی کیفیت کا ظہور ہے. پیش نظر اجتماعیت میں اصل زور اِن شاء اﷲ اسی پر دیا جائے گا. 

دعوت کے ضمن میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس کا تخاطب لازماً ایک تدریج کے ساتھ داعی کے اپنے نفس سے شروع ہوکر 
عَلَیۡکُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ ۚ لَا یَضُرُّکُمۡ مَّنۡ ضَلَّ اِذَا اہۡتَدَیۡتُمۡ اپنے اہل و عیال قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا اور کنبے قبیلے وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ سے ہوتے ہوئے اپنی قوم یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ اور پھر پوری انسانیت لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ تک پہنچنا چاہیے. ہمارے نزدیک یہ صورت کہ داعی اپنے آپ کو بھول جائے اور برّو تقویٰ کی ساری دعوت دوسروں کو دیتا رہے اَتَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبِرِّ وَ تَنۡسَوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ یا اپنے خاندان اور کنبے قبیلے کو تو بھول جائے اور دور دراز کے لوگوں میں ہدایت کی سوغات بانٹنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہو‘ نہایت خطرناک مرض کی علامت ہے. دعوت کے عمل کا صحیح نہج یہ ہے کہ ’’اَلْاَقْرَبُ فَالْاَقْرَبُ‘‘ کے اصول پر آگے بڑھے اور جس سے جتنی قربت اور محبت داعی کو ہو دعوت و تخاطب میں اسی قدر اسے مقدم رکھا جائے. اس سلسلے میں یہ خیال البتہ صحیح نہ ہوگا کہ ایک مرحلے کی تکمیل کے بعد ہی دوسرا مرحلہ شروع کیا جائے. مطلوب صرف یہ ہے کہ دعوت کے عمل کو ایک فطری تدریج اور حسین تناسب کے ساتھ اپنی ذات‘ اہل و عیال‘ کنبے قبیلے اور پھر عوام الناس تک بڑھنا چاہیے.

اس سلسلے میں ہمیں اپنی اولاد اور فی الجملہ نئی نسل کے بارے میں خصوصی توجہ و اہتمام سے کام لینا ہوگا‘ اس لیے کہ ان کے بارے میں ہم حدیث نبویؐ 
کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّکُلُّکُمْ مَّسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ ...الخ کی رو سے براہِ راست مسئول اور ذمہ دار ہیں. اولاد کی دینی تعلیم و تربیت کا یہ اہتمام ذاتی و انفرادی بھی ہوگا اور جہاں جہاں ممکن ہوگا اور وسائل دستیاب ہوسکیں گے اس امر کی سعی بھی کی جائے گی کہ ایسے مدارس اپنے اہتمام میں قائم کیے جائیں جن میں نئی نسل کے قلوب و اذہان میں ایمان کی تخم ریزی و آبیاری اور اخلاقی و عملی تربیت کا بندوبست کیا جائے.
وسائل دعوت کے ضمن میں کوئی تعین غیرضروری ہے. حسب صلاحیت و استعداد انفرادی و نجی گفتگو‘ خطاب ہائے عام‘ خطباتِ جمعہ اور دروسِ قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف اور نشرواشاعت کے تمام جدید طریقوں کو اختیار کیا جاسکتا ہے!

قرارداد کا تیسرا اہم نکتہ ’’عامۃ الناس کو دین کی دعوت و تبلیغ‘‘کی اس ذمہ داری سے بحث کرتا ہے جو ’’امت مسلمہ پر بحیثیت مجموعی عائد ہوتی ہے‘‘. ہمارے نزدیک انذار و تبشیر‘ دعوت و تبلیغ اور شہادتِ حق علی الناس کی جو ذمہ داریاں انبیائے کرام علیہم السلام پر عائد ہوا کرتی تھیں‘ وہ اب حضور نبی کریم  پر نبوت و رسالت کے ختم ہوجانے کے بعد آپؐ کی اُمت پر بحیثیت مجموعی عائد ہوتی ہیں. اوّل اوّل اس 
اُمت نے ’’خلافت علیٰ منہاج النبوۃ‘‘کے نظام کے تحت اپنی اس ذمہ داری کو اجتماعی حیثیت سے ادا کیا. اس کے خاتمے کے بعد بھی ایک عرصے تک مسلمان حکومتیں اِس فرضِ منصبی کو ادا کرتی رہیں. اس کے بعد ایک طویل عرصے تک اتقیاء و صلحاء ذاتی طور پر دُور دراز علاقوں میں پہنچ کر دین کی دعوت و تبلیغ کا فریضہ ادا کرتے رہے. ادھر عرصے سے یہ سلسلہ بھی تقریباً ختم ہو چکا ہے اور اُمت ِمسلمہ بحیثیت مجموعی ’’کتمانِ حق ‘‘کے جرم کی مرتکب ہو رہی ہے اور صورتِ حال یہ ہے کہ اُمت کی تمام اجتماعی سرگرمیاں صرف اپنے دفاع اور دُنیوی ترقی و استحکام تک محدود ہیں. کچھ تھوڑا بہت دینی رنگ کسی اجتماعی سرگرمی میں ہے بھی تو وہ محض اُمت کی داخلی اصلاح کی حد تک ہے. ہمارے نزدیک یہ صورتِ حال سخت تشویش ناک ہے اور اس سے نہ صرف یہ کہ اُخروی بازپُرس کا اندیشہ ہے‘ بلکہ ہماری رائے میں ہماری دنیوی نکبت و ذلّت کا اصل سبب بھی یہی ہے!

اس ضمن میں ہمارے نزدیک اس وقت کرنے کا اہم ترین کام یہ ہے کہ ایک طرف ادیانِ باطلہ کے مزعومہ عقائد کا مؤثر و مدلل ابطال کیا جائے اور دوسری طرف مغربی فلسفہ و فکر اور اس کے لائے ہوئے زندقہ و الحاد اور مادہ پرستی کے سیلاب کا رُخ موڑنے کی کوشش کی جائے اور حکمت ِقرآنی کی روشنی میں ایک ایسی زبردست جوابی علمی تحریک برپا کی جائے جو توحید‘ معاد اور رسالت کے بنیادی حقائق کی حقانیت کو بھی مبرہن کر دے اور انسانی زندگی کے لیے دین کی رہنمائی و ہدایت کو بھی مدلل و مفصل واضح کر دے. ہمارے نزدیک اسلام کے حلقے میں نئی اقوام کا داخلہ اور جسد ِدین میں نئے خون کی پیدائش ہی نہیں‘ خود اسلام کے موجود الوقت حلقہ بگوشوں میں حرارتِ ایمانی کی تازگی اور دین و شریعت کی عملی پابندی اسی کام کے ایک مؤثر حد تک تکمیل پذیر ہونے پر موقوف ہے‘ اس لیے کہ دورِ جدید کے گمراہ کن افکار و نظریات کے سیلاب میں خود مسلمانوں کے ذہین 
اور تعلیم یافتہ طبقے کی ایک بڑی تعداد اس طرح بہہ نکلی ہے کہ ان کا ایمان بالکل بے جان اور دین سے ان کا تعلق محض برائے نام رہ گیا ہے اور اسی بنا پر دین میں نِت نئے فتنے اُٹھ رہے ہیں اور ضلالت و گمراہی نت نئی صورتوں میں ظہور پذیر ہو رہی ہے.

اس سلسلے میں انفرادی کوششیں تو اب بھی جیسی کچھ بھی عملاً ممکن ہیں‘ جاری ہیں اور آئندہ بھی جاری رہیں گی. ضرورت اس کی داعی ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو وسائل فراہم کیے جائیں اور ایک ایسے باقاعدہ ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے جو حکمت ِقرآنی اور علم ِدینی کی نشرواشاعت کا کام بھی کرے اور ایسے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا بھی مناسب اور مؤثر بندوبست کرے جو عربی زبان‘ قرآن حکیم اور شریعت ِاسلامی کا گہرا علم حاصل کر کے اسلامی اعتقادات کی حقانیت کو بھی ثابت کریں اور انسانی زندگی کے مختلف شعبوں کے لیے جو ہدایات اسلام نے دی ہیںانہیں بھی ایسے انداز میں پیش کریں جو موجودہ اذہان کو اپیل کر سکے. 

آخر میں اس امر کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ پیشِ نظر تنظیم ہر گز ’’الجماعت‘‘ کے حکم میں نہ ہو گی. الجماعہ کا مقام ہماری دانست میں اُمت ِمسلمہ کو بحیثیت مجموعی حاصل ہے. پیش ِنظر اجتماعیت کی حیثیت مسلمانوں کی ایک ایسی تنظیم کی ہو گی جس میں وہ لوگ شریک ہوں گے جو خود اصلاحِ نفس اور تعمیر ِسیرت کے خواہش مند ہوں اور ان جملہ انفرادی و اجتماعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا چاہیں جو دین کی جانب سے ان پر عائد ہوتی ہیں تاکہ ایک طرف اُن کا باہمی تعاون ایک دوسرے کے لیے سہارا بن سکے اور دوسری طرف اصلاحِ معاشرہ کے لیے ایک مؤثر قوت فراہم ہو جائے.دین کی خدمت نہایت وسیع و عظیم کام ہے اور اس کے گوشے بے شمار ہیں. ہم ان تمام جماعتوں اور اداروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو کسی بھی گوشے میں دین کی خدمت کا کام کر رہے ہیں اور ان شاء اللہ ان کے ساتھ ہمارا رویہ تعاون و تائید ہی کا ہو گا.اپنے فہم و فکر کے مطابق ہم بھی دین کی خدمت کی ایک ادنیٰ کوشش کے لیے جمع ہو رہے ہیں اور یہ توقع کرنے میں اپنے 
آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں کہ دین کے تمام خادم ہمیں اپنے رفیق ِراہ ہی گردانیں گے اس تصریح کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ ہم واقعۃً تمام دینی عناصر خصوصاً علمائے کرام کے تعاون کی شدید احتیاج محسوس کرتے ہیں.
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ