تقریر مولانا امین احسن اصلاحی

بھائیو اور دوستو!

ایک طویل مدت کے بعد ہم خیال و ہم مقصد دوستوں کی صحبت جومیسر آئی ہے تو معلوم نہیں دل کے کتنے گوشے ہیں جن کے دریچے کھل گئے ہیں اور کتنے سوئے ہوئے خیالات ہیں جو جاگ پڑے ہیں. ظاہر ہے کہ ان ساری باتوں کو ایک صحبت میں کہہ ڈالنا ممکن نہیں ہے. یہ تو جب بھی کہی جائیں گی مختلف قسطوں ہی میں کہی جائیں گی. اس وقت تو صورتِ حال یہ ہے کہ سِرا نہیں مل رہا ہے کہ بات کہاں سے شروع کی جائے. کیا بات کہی جائے ‘کیا نہ کہی جائے اور شروع کرکے بات کہاں ختم کی جائے. اِس اُلجھن کی وجہ سے آپ مجھے اجازت دیجیے کہ میں گفتگو صرف اس قراداد کی وضاحت تک محدود رکھوں جواپنے پورے مالہ‘ اور ماعلیہ کے ساتھ آپ کے سامنے آچکی ہے.

اس قرارداد کی وضاحت کرنے میں اِس وجہ سے نہیں اٹھا کہ اِس میں کوئی ابہام و اجمال ہے. یہ اپنے مقصد و مفہوم میں بالکل واضح ہے. جس طرح میں نے اس کو سمجھ لیا ہے اسی طرح آپ نے بھی اس کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے. میری اس وضاحت کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس میں جو نصب العین اور جو طریقۂ کار اپنانے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے اس کے بعض دلائل آپ کے سامنے عرض کروں تاکہ اس کی پوری اہمیت آپ کے سامنے آجائے. 
ہم نے اس قرار داد میں اللہ کا نام لے کر ایک ایسی تنظیم کے قیام کا فیصلہ کیا ہے ’’جو دین کی جانب سے عائد کردہ جملہ انفرادی و اجتماعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں ہماری مدد کرے!‘‘قرارداد کا یہ جملہ دو اہم حقیقتوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے. ایک اس حقیقت کی طرف کہ آپ تنظیم کو بجائے خود غایت و مقصد نہیں سمجھتے بلکہ اس کو صرف دین کی عائد کردہ انفرادی و اجتماعی ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں اپنے لیے ممدّ و معاون سمجھتے ہیں. دوسرے اس بات کی طرف کہ آپ اپنا نصب العین دین کو سمجھتے ہیں اور اس دین کو اپنی انفرادی و اجتماعی دونوں زندگیوں پر حاوی مانتے ہیں. 

جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے وہ درحقیقت ایک بہت بڑے خطرے سے آگاہی ہے. وہ خطرہ یہ ہے کہ جماعتیں اور تنظیمیں قائم تو ہوتی ہیں اصلاً کسی اعلیٰ اور برتر نصب العین کے لیے‘ لیکن قائم ہو جانے کے بعد آہستہ آہستہ وہ خود نصب العین اور مقصد بن جاتی ہیں‘ اور اصل نصب العین غائب ہو جاتا ہے. آپ کو اس خطرے سے ہر قدم پر ہوشیار رہنا ہے. اس چیز نے نہ صرف جماعتوں اور تنظیموںکو تباہ کیا ہے‘ بلکہ ملتوں اور اُمتوں کو بھی بالکل برباد کر کے رکھ دیا ہے. اِس تغیر کا نتیجہ صرف یہی نہیں ہوتا کہ اصل مقصد غائب ہو جاتا ہے بلکہ مقصد وسیلہ اور ذریعہ کا ایک ادنی ٰ خادم اور چاکر بن کے رہ جاتا ہے. پھر تنظیم مقصد کی خدمت نہیں کرتی بلکہ مقصد کو اپنی خدمت اور اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہے. مذہب کے نام قائم ہونے والی جماعتوں کے لیے یہ چیز خاص طور پر خطرناک ہے‘ اس لیے کہ جب اس طرح کی کوئی جماعت خود اپنے وجود اور اُس کے قیام و بقا کو مقصود بنا لیتی ہے تو وہ مذہب کی بھی جن چیزوں کو اپنے اِس مقصد کی راہ میں مزاحم پاتی ہے‘ اُن کو بدل کر اپنے جماعتی اغراض کے سانچے میں ڈھال لیتی ہے. مذاہب کی تاریخ ایک ساتھ شہادت دیتی ہے کہ اس چیز نے بے شمار تحریفات کی راہیں کھولی ہیں اور اس سے بڑے فتنے ظہور میں آئے ہیں. اس خطرے کے پیشِ نظر اس قرار داد میں اس امر کو خاص طور پر پیش ِنظر رکھا گیا ہے کہ تنظیم بجائے خود غایت و مقصد نہ بننے پائے بلکہ وہ اصل مقصد کے وسیلہ و ذریعہ کی حد تک محدود رہے. قرارداد کے اس پہلو پر بہت سی باتیں کہنی ہیں جو آگے کے مراحل میں بتدریج آپ کے سامنے آئیں گی. اس کے لیے لازماً اس کے تنظیمی ڈھانچہ میں ایسی 
حد بندیاں کرنی پڑیں گی جو اس کو بے راہ روی اور گمراہی سے محفوظ رکھیں. 

جہاں تک دوسری چیز یعنی دین ہی کو نصب العین بنانے کا تعلق ہے یہ کم از کم ہمارے اور آپ کے لیے محتاجِ دلیل نہیں. ہم خدا کے فضل سے مسلمان ہیں اور ہمارا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ انسانیت کی اصل ترقی و فلاح مذہب کے ساتھ وابستہ ہے. مذہب کے بغیر انسان بس ایک ترقی یافتہ حیوان ہے‘ جیسا کہ نظریۂ ارتقاء کے قائلین کہتے ہیں‘ یا زیادہ سے زیادہ ایک حیوانِ ناطق جیسا کہ ارسطو نے انسان کی تعریف کی ہے. ہم ان دونوں میں سے کسی تعریف کو بھی انسان کی صحیح تعریف نہیں سمجھتے. ہمارے نزدیک انسان ایک رُوحِ یزدانی کا حامل ہے‘ جیسا کہ قرآن نے 
وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ کے الفاظ سے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے .یہی رُوحِ یزدانی ہے جو انسان کا شرفِ خصوصی ہے اور اسی کی بدولت انسان مسجودِ ملائک بنا ہے. یہی رُوحِ ملکوتی اگر انسان کی رُوحِ بہیمی پر غالب رہے تو انسان حقیقی انسان ہے ورنہ وہ بس دو ٹانگوں پر چلنے والا ایک جانور ہے. اس رُوحِ ملکوتی کے رُوحِ بہیمی پر غالب رہنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے ارادے کی باگ خدا کی شریعت کے ہاتھ میں ہو. اگر انسان کا ارادہ شریعت کے ہاتھ میں نہ ہو اور اس کی عقل خدا کی وحی سے رہنمائی حاصل نہ کرے تو جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ کپڑوں میں ملبوس ایک جانور ہے. یہ جانور گدھا بھی ہو سکتاہے‘ کتا بھی ہوسکتا ہے اور بندر اور خنزیر اور ایک خوفناک درندہ بھی ہو سکتا ہے. چنانچہ قرآن نے شریعت سے بے قید انسان کو مذکورہ تمام جانوروں سے تشبیہہ دی ہے. یہ تشبیہہ محض برائے تشبیہہ نہیں ہے بلکہ اظہارِ حقیقت ہے. اگر ہمارے پاس حقیقت کو دیکھنے والی آنکھیں ہوتیں تو ہم اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ لیتے کہ ہمارے متمدن شہروں میں کپڑوں میں ملبوس کتنے چوپائے اور درندے انسانوں کے بھیس میں پھر رہے ہیں‘ اور اس صفحۂ ارضی پر قوموں کی قومیں ہیں جو متمدن کہلانے کے باوجود اپنی سرشت کے اعتبار سے درندوں سے زیادہ سفاک اور خونخوار بن گئی ہیں.

ہمارے لیے شریعت کے انتخاب کا معاملہ بھی کوئی پیچیدہ معاملہ نہیں ہے. ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اسلام تمام دنیا کا مشترک دین ہے اور قرآن خدا کی آخری اور کامل کتاب‘ اور محمد رسول اللہ خدا کے آخری رسول ہیں. اس وجہ سے یہ عین ہمارے عقیدے کا تقاضا 
ہے کہ ہم اپنی زندگی اسلام کے احکام و ہدایت کے تحت گزاریں اور اسی کی دعوت دوسروں کو بھی دیں. 

یہ دوسروں کو دعوت دینا بھی عین ہماری فطرِت بشری کا اقتضاء اور ہماری اپنی اصلاح اور ترقی کا لازمہ ہے. آپ اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہو سکتے کہ انسان تنہا نہیں پایا جاتا‘ وہ ایک مدنی الطبع ہستی ہے. وہ کسی خاندان کے فرد‘ کسی قبیلہ کے رکن‘ کسی شہر کے شہری اور کسی ملک کے باشندے کی حیثیت سے پایا جاتا ہے اور اپنی فطری صلاحیتوں کے پروان چڑھنے کے لیے وہ ان سب باتوں کا محتاج ہے.اسی بنا پر انسان کو 
Social Animal کہا گیا ہے. جس طرح مچھلی پانی سے مستغنی نہیں ہو سکتی‘ اسی طرح انسان معاشرے سے مستغنی نہیں ہو سکتا.اگر انسان معاشرے سے بے تعلق ہو کر اپنی صلاحیتوں کو صحیح طور پر اُجاگر کر سکتا تو اسلام رہبانیت کی ممانعت نہ کرتا. انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے نباتات میں سے Creepers سے مشابہ ہے. جس طرح انگور کی بیل صحیح طور پر اسی طرح پروان چڑھتی ہے جب اس کو کوئی سہارا ملے‘ بغیر اس سہارے کے وہ سکڑ کر رہ جاتی ہے اسی طرح انسان بھی صحیح طور پر اسی طرح پروان چڑھتا ہے جب اس کو معاشرے کا سہارا ملے‘ بغیر اس سہارے کے اس کی صلاحیتیں سکڑ کے رہ جاتی ہیں.

اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی ضروری ہے کہ یہ سہارا اس کے روحانی تقاضوں کے موافق ہو. جس طرح انگور کی بیل اس سہارے کے اثرات میں سے حصہ لیتی ہے جس پر وہ چڑھتی ہے‘ اسی طرح انسان اس معاشرے کے خیر و شر سے متاثر ہوتا ہے جس میں زندگی گزارتا ہے. انگور کی بیل کو نیم پر چڑھا دیجیے تو اس کے پھل کڑوے کسیلے ہو سکتے ہیں. اسی طرح انسان اگر برے معاشرے میں زندگی گزارے تو وہ برا بن سکتا ہے.

انسان کی اس فطرت نے اس کے لیے ایک سخت مشکل پیدا کر دی ہے. ایک طرف تو اس کی فطرت کی رُو سے یہ واجب ہے کہ وہ اپنے لیے سازگار معاشرہ تلاش کرے اور اگر معاشرہ سازگار نہ ہو تو اپنے روحانی و اخلاقی تقاضوں کے لیے پورے اخلاص کے ساتھ اس کو ساز گار بنانے کی جدوجہد کرے. اگر کوئی شخص یہ جدو جہد نہ کرے تو اس کی اخلاقی و رُوحانی موت یقینی ہے. 
اگرچہ کوئی شخص کسی دوسرے کی اصلاح پر اختیار نہیں رکھتا‘ دوسرے کی اصلاح اللہ کی توفیق پر منحصر ہے‘ لیکن ہر شخص خود اپنی اصلاح کے لیے اس جدوجہد پر اپنے امکان اور اپنی صلاحیتوں کی حد تک مامور ہے.

اس وجہ سے ہمارے پیغمبر  نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے اُس پر واجب ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے اس کی اصلاح کرے‘ اگر اس کی قدرت رکھتا ہو. اگر ہاتھ سے اس کی اصلاح کی قدرت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اس کی اصلاح کی کوشش کرے‘ اگر اس کی صلاحیت رکھتا ہو. اگر اس کی بھی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو ادنیٰ درجہ کا ایمان یہ ہے کہ اس کو دل سے بُرا جانے (یعنی اس میں کسی نوعیت سے بھی تعاون نہ کرے)!اس سے نیچے ایمان کا کوئی درجہ نہیں ہے.

معاشرہ سے متعلق افراد کی ذمہ داریوں کو واضح کرنے کے لیے حضور نے معاشرہ اور افراد کو ایک کشتی کے مسافر سے تشبیہہ دی ہے. ایک کشتی میں کچھ لوگ عرشے پر سفر کرتے ہیں اور کچھ لوگ اس کے نیچے کے حصے میں. فرض کیجیے نیچے والے یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں پانی لینے کے لیے اُوپر جانے کی مشقت اُٹھانی پڑتی ہے‘ کیوں نہ ہم اپنے حصے میں کشتی کے پیندے میں سوراخ کرلیں ‘اور اوپر والے یہ خیال کرکے کہ وہ اپنے حصے کی کشتی میں سوراخ کررہے ہیں‘ ان کو اس ارادے سے باز رکھنے کی کوشش نہ کریں بلکہ سوراخ کرنے کے لیے ان کو آزاد چھوڑ دیں تو سوراخ ہوجانے کے بعد کشتی جو ڈوبے گی تو اُوپر والوں اور نیچے والوں سب کو لے کر ڈوبے گی. یہی حال معاشرے کا ہے. اس میں اچھے بھی ہوتے ہیں‘ بُرے بھی . اگر اچھے لوگ معاشرے کے خیر و شر سے بے تعلق ہو جاتے ہیں تو بروں کی برائی سے جو آفت ظہور میں آتی ہے اس میں اچھے اور بُرے دونوں ہی حصہ پاتے ہیں. 

حدیثوں میں ایک بستی کا ماجرا بھی بیان ہوا ہے‘ جس سے یہ حقیقت مزید واضح ہوتی ہے. مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بستی کے متعلق فرشتہ کو حکم دیا کہ جاکر اُس کو اُلٹ دو.فرشتہ نے عرض کی کہ باری تعالیٰ اس میں تو تیرا ایک ایسا بندہ بھی ہے جو برابر تیری عبادت میں لگا رہتا ہے. اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کے سمیت بستی کو اُلٹ دو‘ اس لیے کہ اُس کا چہرہ کبھی میرے دین کی 
بے حرمتی پر غیرت سے تمتمایا نہیں.

اس تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ ہمارے لیے اپنے معاشرے کے خیر و شر سے بے:تعلق رہنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے. نہ ہماری فطرت اس بے تعلقی کی روادار ہے‘ نہ ہمارا مذہب اِس کی اجازت دیتاہے. دوسروں کی اصلاح سے قطع نظر ہم خود اپنی اصلاح و فلاح کے لیے اِس بات کے محتاج ہیں کہ اپنے معاشرے کو اپنے رُوحانی و اخلاقی تقاضوں کے لیے سازگار بنانے کی کوشش کریں. اِس کوشش سے دوسروں کی اصلاح ہو یا نہ ہو‘ لیکن ہماری اصلاح ہو گی. اِس سے ہماری اپنی صلاحیتیں پروان چڑھیں گی اور ہماری اپنی فطرت کے مضمرات بروئے کار آئیں گے. جو شخص یہ کام کرتا ہے وہ خود اپنا فرض انجام دیتا ہے اور دوسروں سے زیادہ وہ خود اپنے اُوپر احسان کرتا ہے. اس وجہ سے اگر کوئی شخص یہ فرض انجام دیتا ہے تو اُس کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو معاشرے کا محسن سمجھنے لگے بلکہ وہ یہ سمجھے کہ اُس نے اپنا ہی فرض انجام دیا ہے. جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں تو کسی پر احسان نہیں کرتے بلکہ خود اپنے اُوپر احسان کرتے ہیں اسی طرح اگر ہم معاشرے کی کسی بُرائی کی اصلاح کرتے ہیں تو کسی پر احسان نہیں کرتے بلکہ صرف اپنا فرض ادا کرتے ہیں. دین میں دوسروں کے نیک و بد سے متعلق ہم پر جو ذمہ داری عائد کی گئی ہے وہ ہمارے ذاتی فرض ہی کی حیثیت سے عائد کی گئی ہے.

زیر بحث قرارداد میں یہ تصور اچھی طرح واضح کر دیا گیا ہے اور اس کے دو بڑے اہم فائدے ہیں. ایک تو یہ ہے کہ کوئی شخص دعوت و اصلاح کا کوئی کام کرتے ہوئے یہ نہیں سمجھے گا کہ وہ کسی دوسرے کا کام کر رہا ہے‘ بلکہ وہ یہی سمجھے گا کہ اپنا ہی کام کر رہا ہے. دوسرا یہ کہ کوئی شخص دوسروں کی اصلاح میں اتنا مستغرق نہیں ہو گا کہ وہ خود اپنی اصلاح سے غافل اور بے پروا ہو جائے . یاد رکھیے کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ دوسروں کی اصلاح کی کوشش اصلاً خود اپنی ہی اصلاح کی کوشش کا ایک حصہ ہے. جو شخص دوسروں کی اصلاح میں رات دن سرگرم رہتا ہے لیکن اسے خود اپنی اصلاح کی فکر نہیں ہے‘ وہ محض نمائشی مصلح ہے. جو خود بھٹک رہا ہو وہ دوسروں کی رہبری نہیں کرسکتا. انگور کی وہ بیل سوکھ جاتی ہے جس کی اپنی جڑ اُ کھڑی ہوئی ہو‘ اگرچہ اس کو کتنے ہی خوبصورت سہارے پر چڑھادیجیے. اس زمانے میں چونکہ زیادہ تر مدعیانِ اصلاح ایسے ہی ہیں جنہیں 
خود اپنے دین و ایمان کا کچھ ہوش نہیں لیکن دوسروں میں دین کی سوغات بانٹنے کے لیے خشکی و تری کا سفر کرتے پھرتے ہیں‘ اس وجہ سے ضروری ہے کہ اصل نقطہ پر لوگوں کی توجہ مرکوز کرائی جائے. چنانچہ قرارداد میں اِس حقیقت کو یوں واضح کیا گیا ہے کہ: ’’ہمارے نزدیک دین کا اصل مخاطب فرد ہے. اُسی کی اخلاقی و روحانی تکمیل اور فلاح و نجات دین کا اصل موضوع ہے اور پیشِ نظر اجتماعیت اصلاً اسی لیے مطلوب ہے کہ وہ فرد کو اس کے نصب العین یعنی رضائے الٰہی کے حصول میں مدد دے . ‘‘

اس تصور کا قدرتی مطالبہ یہ ہے کہ اس تنظیم کا ڈھانچہ ایسا بنایا جائے کہ وہ اپنے اعضاء و ارکان کی اصلاح و تربیت کا ایک جامع ادارہ بن جائے. اس عزم کا اظہار قرارداد میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:

’’لہذا پیش نظر اِجتماعیت کی نوعیت ایسی ہونی چاہیے کہ اُس میں فرد کی دینی و اخلاقی تربیت کا کماحقہ‘ لحاظ رکھا جائے اور اس امر کا خصوصی اہتمام کیا جائے کہ اس کے تمام شرکاء کے دینی جذبات کو جِلا حاصل ہو‘ ان کے علم میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے‘ ان کےعقائد کی تصحیح و تطہیر ہو‘ عبادات اور اتباعِ سنت سے اُن کا شغف اور ذوق و شوق بڑھتا چلا جائے‘ عملی زندگی میں حرام و حلال کے بارے میں اُن کی حس تیز اور اُن کا عمل زیادہ سے زیادہ مبنی بر تقویٰ ہوتا چلا جائے اور دین کی دعوت و اشاعت اور اس کی نصرت و اقامت کے لیے اُن کا جذبہ ترقی کرتا چلاجائے.‘‘

اِن تمام مقاصد کے حصول کے لیے تنظیم کیا وسائل و ذرائع اختیار کرے گی؟ اس کا جواب دینا بروقت میرے لیے مشکل ہے. اِس کا جواب بہت کچھ منحصر ہے اس بات پر کہ اس تنظیم کو کن صلاحیتوں کے افراد حاصل ہوتے ہیں اور وہ اپنی مجموعی کوشش سے کیا اسباب و وسائل فراہم کرنے پر قادر ہوتے ہیں. افراد اور وسائل کی وسعت کے ساتھ ساتھ امکانات کا جائزہ لینا اور ان کے مطابق قدم اٹھانا تنظیم کے اربابِ حل و عقد کا کام ہے لیکن اتنی بات بدیہی ہے کہ اس مقصد کے بروئے کار لانے میں اس امر کی پوری کوشش کی جائے گی کہ جو قدم بھی اُٹھے اسوۂ انبیاء کی روشنی میں اُٹھے اور جماعت کی تربیت اس نہج پر ہو جس کی طرف کتاب و سنت میں رہنمائی کی گئی ہے.

ہم اپنی تربیت کے لیے سب سے پہلے تو صحیح علم کے محتاج ہیں. صحیح علم سے میری مراد دین کا علم ہے. اس زمانے میں دین کا علم عنقا ہو رہا ہے‘ اس کے حصول کے لیے وسائل و ذرائع 
بھی روز بروز کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں اور لوگوں کے اندر ا س کی رغبت بھی بالکل ختم ہوتی جارہی ہے. اگر دین کا علم ہی مٹ گیا تو پھر دین کے باقی رہنے کا کیا امکان ہے؟ یہ امر بھی بدیہی ہے کہ اِس زمانے میں دین کا روایتی علم بالکل غیر مفید ہے.یہ زمانہ عقلیت کا زمانہ ہے. اس زمانے میں لوگ ہر چیز کی دلیل و حجت کو سمجھنا چاہتے ہیں. مجرد یہ بات لوگوں کو اپیل نہیں کرتی کہ فلاں بات دین کی بات ہے. دین پر آج جو اعتراضات ہو رہے ہیں‘ وہ کل کے اعتراضات سے بالکل مختلف ہیں. یہ اعتراضات جدید مغربی فکر و فلسفہ کی پیداوار ہیں اور ان کو زور و قوت کے ساتھ پھیلانے والے خود ہمارے اندر پیدا ہو گئے ہیں. جب تک ان اعتراضات و شبہات کا مؤثر ازالہ نہ ہو اس وقت تک ممکن نہیں ہے کہ آپ دین کی کوئی مفید خدمت انجام دے سکیں. افسوس ہے کہ اس خدمت کی صلاحیت رکھنے والے آج ہمارے اندر اگر مفقود نہیں تو اتنے کم ہیں کہ وہ دین کے محاذ کو کسی طرح بھی سنبھال نہیں سکتے. اس وجہ سے وقت کی ایک بہت بڑی ضرورت یہ ہے کہ ایسے حاملان ِ دین پیدا کرنے کی مؤثر جدجہد کی جائے جو جدید علوم وافکار سے بھی کماحقہ‘ آگاہ ہوں اور کتاب و سنت کے دلائل و براہین پر بھی وہ براہِ راست نظر رکھتے ہوں.میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ہمارا دین دنیا میں بے دلیل نہیں آیا ہے. وہ بہتر سے بہتر فطری و عقلی دلائل سے مسلح ہو کر آیاہے جو ہر دور کے فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی ہیں‘ بشرطیکہ ان کو اُجاگر کرنے والے اور اُن کو دنیا کے سامنے حالات کے مطابق پیش کرنے والے موجود ہوں. دوستو! یہ کام کوئی آسان کام نہیں ہے. اس قسم کے افراد صرف اُردو میں لکھی ہوئی چند کتابیں پڑھ لینے سے نہیں پیدا ہوں گے‘ بلکہ اس کے لیے کتاب و سنت اور علومِ اسلامیہ سے براہِ راست گہری واقفیت ضروری ہے. میں جانتا ہوں کہ اس قسم کی صلاحیت ہم میں سے ہر شخص اپنے اندر نہیں پیدا کر سکتا‘ لیکن معتدبہ تعداد ہمارے اندر جب تک ایسے لوگوں کی نہ ہو گی ہم ان ذمہ داریوں سے کماحقہ عہدہ برآ نہ ہو سکیں گے جو دین سے متعلق اس زمانے میں ہم پر عائد ہوتی ہیں.

جہاں تک عامۃ المسلمین کو دین کی دعوت دینے کا تعلق ہے‘ اِس کے بارے میں مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ اِس زمانے میں مجرد تذکیر کافی نہیں ہے‘ بلکہ وسیع پیمانے پر تعلیم و تفہیم 
کی ضرورت ہے. یہ صورت نہیں ہے کہ لوگ دین کی باتیں بھولے ہوئے ہیں‘ اگر انہیں یاد دِلا دی جائیں تو وہ ان کو اختیار کر لیں گے‘ بلکہ اشاعت ِباطل کے وسیع ذرائع نے اِس زمانے میں عام اذہان کے اندر بھی دین اور دینی احکام سے متعلق بے شمار غلط فہمیاں بھر دی ہیں جن کے دُور کرنے کا سامان کرنا ان لوگوں پر واجب ہے جو آج ملک کے عوام کی اس پہلو سے کوئی خدمت کرنا چاہتے ہوں. آج اخبارات گھر گھر پہنچ رہے ہیں. ریڈیو کھیتوں اور کھلیانوں تک موجود ہے. اس وجہ سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ زندگی کے جدید شیطانی نظریات سے ہمارے عوام بے خبر ہیں یا وہ ان سے بالکل بے تعلق ہیں. ان سے تاثر کے معاملے میں شہری اور دیہاتی آبادی میں کچھ فرق ہونا تو ایک قدرتی امر ہے لیکن دیہاتی آبادی کو ان فتنوں سے بالکل الگ تھلگ خیال کرنا صحیح نہیں ہے. اِس وجہ سے ان کے اندر کام کرنے کے وہ طریقے اختیار کرنے ہوں گے جو موجودہ حالات میں اُن کے لیے مؤثر اور مفید ہوں.

جہاں تک ملک کے اربابِ اقتدار کا تعلق ہے‘ اُن کے بارے میں بھی ہمارے ہاں سخت افراط و تفریط پائی جاتی ہے. ایک تو وہ لوگ ہیں جو اُن کی اصلاح کے معاملے میں بالکل بےتعلق ہیں‘ انہیں اُن کے خیر و شر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے. دوسرے وہ لوگ ہیں جو ان کےشر کو بھی خیر ہی کہنا پسند کرتے ہیں. تیسرے وہ لوگ ہیں جو اُن کے خیر کو بھی شر قرار دیتے ہیں اور ہر حالت میں اُن کی مخالفت کرنا اُن کے ہاں جزوِ ایمان ہے.

آپ کی یہ قرارداد اِن تینوں طریقوں کو غلط قرار دیتی ہے اور دین کی روشنی میں ایک چوتھا طریقہ آپ کے سامنے پیش کرتی ہے. جہاں تک پہلے طریقے یعنی لاتعلقی کے رویہ کا تعلق ہے اس کے بارے میں تفصیل کے ساتھ میں عرض کر چکا ہوں کہ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے. یہ کوئی پرایا جھگڑا نہیں ہے جس سے علیحدہ رہنے میں آدمی کے لیے سعادت ہو بلکہ ہم میں سے ہر شخص کے اپنے دین و ایمان کا معاملہ ہے. میں پیغمبر  کی واضح تعلیمات کی روشنی میں بتا چکا ہوں کہ جو شخص معاشرے کے خیر و شر سے بے پروا ہے وہ خود اپنے دین و ایمان سے بے پروا ہے اور اُس کی یہ بے پروائی اُس کی ساری دینداری غارت کر کے رکھ دے گی. ہم جس کشتی پر سوار ہیں اپنے امکان کی حد تک کسی کو اس کے پیندے میں سوارخ کرتے ایک 
تماشائی کی طرح نہیں دیکھ سکتے.

دوسرے گروہ کا رویہ بھی بالکل غلط ہے. جو چیز غلط ہے‘ اگر وہ اربابِ اقتدار کی طرف سے ظہور میں آئے تو اُس کی غلطی اور بھی سنگین ہو جاتی ہے اس لیے کہ اس کے اثرات بہت دُوررس ہوں گے. اگر کوئی شخص اس غلطی کوصواب قرار دے تو یہ اُس پر خاموش رہنے سے بھی بڑا جرم ہے. یہ رویہ اگر خوف یا طمع کی بنا پر اختیار کیا جائے تو اسلام میں صریح نفاق ہے‘ جو ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتا اور اگر یہ اس بنیاد پر اختیار کیا جائے کہ اس سے حکومت کو ضعف پہنچتا ہے تو یہ بھی غلط ہے. اول تو حکومت کو ضعف پہنچ سکتا ہے تو غلط چیز سے نہ کہ صحیح چیز سے‘ ثانیاً حکومت بجائے خود مقصد و غایت نہیں ہے بلکہ اسلام میں وہ اللہ کے قانونِ عدل و قسط کا ذریعہ ہے. اس وجہ سے حکومت کی مصلحت کے لیے بھی کسی شر کو خیر قرار دینا اپنے دین و ایمان پر کلہاڑی مارنا ہے. 

تیسرے گروہ کا رویہ بھی بالکل غلط ہے. اربابِ اختیار کی ہر بات کو ہدفِ تنقید بنا لینا یہاں تک کہ اُن کے خیر کو بھی شر قرار دینا اور اُس کی مخالفت میں اِس حد تک بڑھ جانا کہ دوسروں کی بُرائیاں بھی اُن کے کھاتے میں ڈال دینا نہ عقل و منطق کی رُو سے جائز ہے‘ نہ اسلام کی رُو سے. یہ اقتدار کی ہوس میں اندھے ہو جانے کی علامت ہے‘ اور اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی صحیح بات بھی اربابِ اقتدار کو اپیل نہیں کرتی. جن کی ذہنیت یہ بن جاتی ہے وہ خیر خواہی کے جذبے سے بالکل خالی ہو جاتے ہیں‘ درآں حالیکہ یہ جذبہ دعوتِ دین کی اصل روح ہے. اگر انسان خیر خواہی کے جذبے سے خالی ہو تو اُس کی ہر بات نفرت اور عناد کی تخم ریزی کرتی ہے اور اگر وہ اس کے ساتھ دین کا نام لیتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ دین کو بھی لوگوں کی نگاہوں میں ایک نفرت انگیز چیز بنانا چاہتا ہے.ایسے لوگوں کے ہاتھوں دین کو جو نقصان پہنچا ہے‘ وہ دین کے کھلے ہوئے دشمنوں کے ہاتھوں بھی نہیں پہنچا ہے. اس لیے کہ یہ لوگ اپنی ایک نفسیاتی جنگ میں دین کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اس طرح بلاوجہ دین کو ان تمام لوگوں کے سامنے ایک حریف بنا کر کھڑا کر دیتے ہیں جن سے ان کی لڑائی ہوتی ہے. میں نے دیکھا ہے کہ اس طرح کے لوگ انسانیت اور خلق کی محبت سے بالکل عاری ہوتے ہیں . یہ لوگ دل سے اس بات کے آرزو مند ہوتے ہیں کہ ملک میں زلزلے 
آئیں‘ قحط پڑیں‘ سیلاب آئیں‘وبائیں پھیلیں تاکہ یہ ان سب چیزوں کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرا کر اپنے اقتدار کے لیے راہ ہموار کر یں. ایسے بے درد اور سنگ دل لوگوں سے یہ توقع رکھنا کہ یہ دین کی کوئی خدمت انجام دے سکیں گے‘ محض خام خیالی ہے.

آپ نے جو قرارداد پاس کی ہے اُس میں آپ نے ان تمام طریقوں سے الگ اپنے لیے 
’’الدّین النّصیحۃ‘‘ کی راہ اختیار کی ہے‘ جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ لوگوں کی خیر و شر سے بے نیاز نہیں ہو سکتے‘ اس لیے کہ یہ خیر خواہی کے خلاف ہے. اسی طرح آپ کسی کے شر کو خیر بھی نہیں کہہ سکتے‘ اس لیے کہ یہ بھی حق اور خیر خواہی کے خلاف ہے. علیٰ ہٰذا القیاس آپ کسی کی مخالفت کے جوش میں اس کی نیکی کو بدی نہیں ٹھہرا سکتے‘ اس لیے کہ یہ بھی سچائی اور خیر خواہی کے خلاف ہے. سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ دین کو ہوسِ اقتدار کی جنگ میں ایک ہتھیار کے طور پر کبھی استعمال نہیں کریں گے بلکہ جس کے سامنے بھی اس کو پیش کریں گے‘ اللہ کے دین کی حیثیت سے پیش کریں گے‘ کہ اسی میں اُس کی بھی بھلائی ہے اور اسی میں آپ کی بھی بھلائی ہے. یہی حضرات انبیاء علیہم السلام کا طریقِ کار ہے اور یہی آپ کو اختیار کرنا ہے. 

رفیقو! میں سمجھتا ہوں کہ ایک واضح چیز کی وضاحت کرنے میں آپ کا بہت سا وقت میں نے لیا. اب میں اپنی تقریر ختم کرتا ہوں اور اپنے لیے اور آپ کے لیے دعا کرتا ہوں کہ ہم نے جو کچھ طے کیا ہے‘ اس پر ہم عمل کرنے کی توفیق پائیں. 

اَقُولُ قَوْلِی ھٰذَا وَاَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ لِیْ وَلَکُمْ وَلِسَائِرِ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ!