رفقائے محترم!

صبح کے درسِ قرآن‘ پھر قرارداد اور اس کی توضیح اور سب سے بڑھ کر مولانا اصلاحی کی تقریرسے معاملے کے اکثر پہلو اچھی طرح واضح ہو چکے ہیں اور اب میری تقریر کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی‘ تاہم جو خدمت میرے سپرد ہے میں اس کی انجام دہی میں بعض باتیں آپ حضرات کے سامنے رکھتا ہوں. تکرار سے بھی کم از کم تذکیر کا فائدہ تو حاصل ہو ہی جائے گا. 

ایک نئی دینی جماعت کے قیام کے فیصلے پر سب سے پہلے جو سوال ذہنوں میں پیدا ہونا لازمی ہے وہ یہ ہے کہ آخر ایک نئی جماعت کی ضرورت کیا ہے! اوّلاً کیا انفرادی طور پر کام کرنا کافی نہیں ہے؟ ثانیاً اگر اجتماعیت لازمی ہے تو بھی ڈیڑھ اینٹ کی ایک نئی مسجد الگ بنانے کی کیا حاجت ہے؟ بہت سی دینی تنظیمیں اور جماعتیں موجود ہیں‘ کیوں نہ ان میں سے کسی کے ساتھ شامل ہو کر کام کیا جائے؟

جہاں تک اجتماعیت کی ضرورت و اہمیت کا تعلق ہے ‘اس پر مولانا اصلاحی بہت مفصل روشنی ڈال چکے ہیں. یہ بدیہی بات ہے کہ بہت سے لوگوں کے علیحدہ علیحدہ کام کرنے اور ان سب کے مل کر اجتماعی طور پر کام کرنے میں نتائج کے اعتبار سے زمین آسمان کا فرق واقع ہو جاتا ہے. اجتماعیت میں ہر فرد ایک دوسرے کا سہارا اور ایک دوسرے کی کمی پورا کرنے والا ہوتا ہے ‘جس سے کام میں عظیم برکت پیدا ہوتی ہے. ظاہر بات ہے کہ اللہ نے مختلف لوگوں کو مختلف صلاحیتیں دی ہیں. کسی کو بولنے کی صلاحیت دی ہے‘ کسی کو لکھنے کی‘ کسی کو بھاگ دوڑ کی قوت دی ہے‘ کسی کو غور و فکر اور تدبر و تفکر کی. اسی طرح کسی کوعلومِ دینی سے سرفراز فرمایا ہے اور کسی کو معلوماتِ دنیوی سے بہرہ ور فرمایا ہے. کسی کو فہم قرآن کے بحرِ عمیق میں غوطے لگانے کی صلاحیت دی ہے تو کسی کو علومِ حدیث کی وسعتوں میں پیراکی کی صلاحیت سے نوازا ہے. 
کسی کو قدیم کی واقفیت عطا فرمائی ہے تو کسی کو جدید سے رُوشناس کیا ہے.

مختلف صلاحیتوں اور قوتوں سے مسلح افراد کے مجتمع اور متحد ہو کر کام کرنے سے ہی اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ کوئی جامع اور ہمہ گیر نوعیت کا کام سرانجام پاسکے. پھر دین و مذہب کے مخالف اور لادینیت کے علمبرداروں کو دیکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ پوری طرح منظم ہو کر کام کر رہے ہیں اور ان کے مختلف گروہ اور جتھے مختلف اطراف سے پوری تنظیم اور اجتماعیت کے ساتھ دینی قوتوں پریلغار کررہے ہیں. اب ظاہر ہے کہ اجتماعیت کا مقابلہ انفرادیت سے نہیں کیا جاسکتا ‘اس کے لیے اجتماعیت ہی کی ضرورت ہے. بنابریں دینی قوتوں کا منظم و مجتمع ہونا ایک ناگزیر ضرورت ہے. 
بلاشبہ جماعت سازی سے کچھ اندیشے بھی لاحق ہوتے ہیں. مثلاً ایک یہ کہ اس سے جماعتی و گروہی عصبیت‘ پھر تعصب اور بالآخرتحزّب و تفرّق کی لعنت وجود میں آتی ہے. دوسرے یہ کہ جماعتیں بالعموم شخصیتوں کے گرد گھومتی ہیں اور ان سے شخصیت پرستی کی مہلک بیماری پیدا ہوتی ہے. تیسرے یہ کہ خود جماعتیں عموماً داخلی انتشار کا شکار ہو جاتی ہیں اور بعض اوقات اس سے انتہائی کریہہ صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے. 

اس سلسلے میں اوّلین بات تو یہ ہے کہ ہر چیز کے مجموعی فائدے یا نقصان کو پیش نظر رکھنا چاہیے. بہت سے اچھے کاموں میں کوئی پہلو بُرائی کا ہوسکتا ہے اور بہت سی برائیوں میں کوئی پہلو اچھائی کا ہونا ممکن ہے. قرآن مجید نے خود شراب اور جوئے کے بارے میں بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ ان میں منفعت بھی ممکن ہے لیکن 
وَ اِثۡمُہُمَاۤ اَکۡبَرُ مِنۡ نَّفۡعِہِمَا ’’ان کا شر ان کی منفعت سے زیادہ ہے‘‘. اس سے معلوم ہوا کہ جس چیز میں خیر کا پہلو غالب ہو اس کو اختیار کرنا چاہیے اور اس کے شر سے بچاؤ کی ہر ممکن تدبیر کرنی چاہیے. 

’’شخصیت پرستی‘‘ کی لعنت کے پیدا ہونے کے امکانات وہاں زیادہ ہوتے ہیں جہاں کسی ایک داعی کی دعوت پر لوگ جمع ہوں اور اسی کے خیالات و نظریات و تصورات اور اسی کے فہم و فکر کو اس اجتماعیت میں مرکز و محور کی حیثیت حاصل ہو جائے. اس کے برعکس اگر ابتدا سے بہت سے لوگ باہمی مشاورت سے اپنے مقصد اور اس کے حصول کے طریق کو طے کریں اور 
مسلسل ’’ وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ‘‘ کی قرآنی ہدایت پر عمل پیرا رہیں تو ان شاء اللہ اس لعنت کا سدباب ہو جائے گا. 

’’تحزّب اور تفرق‘‘ سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ دین کی خدمت کے لیے جمع ہونے والے لوگ ہمیشہ 
’’اِنَّنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘ ہی کو اپنا واقعی شعار بنائیں اور اپنے آپ کو اُمت مسلمہ ہی کا ایک حصہ تصور کریں. چنانچہ نہ ان میں کوئی غرور و گھمنڈ پیدا ہو نہ اپنے ’’چیزے دگر‘‘ہونے کا احساس پیدا ہونے پائے اور نہ ہی وہ اپنے آپ کو عام مسلمانوں سے کسی اعتبار سے بہتر و برتر تصور کریں. 

یہاں یہ حقیقت بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ تحزّب اور تفرق محض جماعت سازی ہی سے پیدا نہیں ہوتے بلکہ کوئی ادارہ یا محض درس گاہ یا دارالعلوم بھی ان کا سبب بن سکتا ہے‘ اور واقعہ یہ ہے کہ بنا ہے‘ اور اس کی مثالیں خود ہمارے ملک میں موجود ہیں. ظاہر بات ہے کہ جو درس گاہ نئی قائم ہوتی ہے وہ بالعموم کسی ایک خصوصیت کی حامل ہوتی ہے. نتیجتاً اس سے فارغ ہونے والے نوجوانوں کا مزاج ایک خاص رنگ میں ڈھلنا شروع ہو جاتا ہے اور مرورِ ایام کے ساتھ اس کے فارغین و متوسلین میں گروہی و حزبی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے. اب نہ تو یہ صحیح ہے کہ ان خدشات کی بنا پر درس گاہیں اور دارالعلوم قائم کرنے بند کر دئیے جائیں اور نہ یہ صحیح ہے کہ دینی مقاصد کے حصول کے لیے ادارے یا جماعتیں قائم کرنا ممنوع قرار دے دیا جائے. اس کے برعکس دارالعلوموں اور اداروں کے قیام کے ساتھ حتی الامکان ایسی احتیاطی تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں کہ ان کے ذریعے اُمت میں تفرقہ و انتشار پیدا نہ ہو. اس سلسلے میں جس قدر میں نے غور کیا ہے‘ میں اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ایک تو جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے لوگوں میں کچھ ’’چیزے دگر‘‘ ہونے کے احساس کو پیدا ہونے سے روکا جائے اور 
’’اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘ کی قرآنی ہدایت کو ہمیشہ مستحضر رکھا جائے اور دوسرے یہ احتیاط کی جائے کہ عملاً جمعہ و جماعت اور ربط و ضبط اور رشتوں ناطوں کے معاملات کو صرف ہم خیال لوگوں کے حلقے میں محدود کرنے کا رجحان نہ پیدا ہو ان تدابیر پر اگر عمل کیا جائے تو میری رائے میں کوئی دینی جماعت فرقے میں تبدیل نہیں ہوگی. واللہ اعلم! تیسرا اندیشہ جماعتوں کے’’داخلی انتشار‘‘ کا ہے تو اگرچہ ماضی کے کچھ تلخ تجربات کی روشنی میں واقعتا اس اندیشے سے طبیعت میں بہت زیادہ توحّش پیدا ہوتا ہے تاہم یہ حقیقت بادنیٰ تامل سامنے آجاتی ہے کہ محض اس اندیشے کی بنا پر اجتماعی جدوجہد سے باز رہنا ہر گز ایک معقول بات نہیں ہے. اختلاف اس عالمِ واقعہ کی ایک عظیم (اگرچہ تلخ ) حقیقت ہے لَا یَزَالُوۡنَ مُخۡتَلِفِیۡنَ ﴿۱۱۸﴾ۙاِلَّا مَنۡ رَّحِمَ رَبُّکَ ؕ 

تحریکیں اُ ـٹھتی ہیں اور بہت کچھ مفید کام کرتی ہیں‘ پھر ان میں داخلی انتشار ونما ہو جاتا ہے تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ آپ اپنے خنجر سے خود کشی کر لیتی ہیں. لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ ان کا کام نسیاً منسیاً ہو جاتا ہے. ان کے اثرات ان کے بہت بعد تک بھی باقی رہتے ہیں.لہذا ضرورت اس کی ہے کہ خلوص اور للّٰہیت کے ساتھ کام شروع کیا جائے. اختلافات کے حل کے لیے صحت مند راستے حتی الامکان کھلے رکھے جائیں. اس کے بعد بھی کبھی ناگوار صورتِ حال پیدا ہو تو اس کا سامنا کیا جائے.

اب دوسرے سوال کو لیجیے یعنی یہ کہ آخر ایک نئی جماعت کا قیام ہی کیوں ضروری ہے؟ کیوں نہ موجود الوقت دینی جماعتوں میں سے کسی کے ساتھ مل کر کام کیا جائے؟

اس سوال کا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ جس طرح ملک میں بہت سی درس گاہوں اور دارالعلوموں کے وجود سے یہ لازم نہیں آتا کہ کوئی نئی درس گاہ قائم نہ کی جائے اسی طرح بہت سی دینی جماعتوں کا وجود کسی نئی جماعت کے قیام کی نفی نہیں کرتا اور جس طرح ایک نئے دارالعلوم کے مؤسسین کے بارے میں لازماً یہ نہیں سمجھا جاتا کہ ان کی رائے بقیہ درس گاہوں کے بارے میں بہت بُری ہے‘ اس طرح ایک نئی دینی جماعت کے مؤسسین کے بارے میں یہ سمجھنا کہ یہ لازماً دوسری دینی جماعتوں کے بارے میں بہت بُری یا حقارت آمیز رائے رکھتے ہیں‘ درست نہیں ہے. 

مزید وضاحت کے لیے عرض ہے کہ اس وقت جو جماعتیں ملک میں بالفعل موجود ہیں‘ ہمارے نقطہ ٔنظر سے ان کی دو قسمیں ہیں. ایک تو وہ ہیں جن سے ہمیں کلی اختلاف ہے ‘یعنی ان کے طریق کار اور ان کے مزاج اور ذہن کو ہم درست نہیں سمجھتے. ایسی جماعتوں میں مدغم ہونے یا ان کے ساتھ ملک کر کام کرنے کا توکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.دوسری جماعتیں ایسی ہیں 
جو ہماری رائے میں بعض کام بہت اچھے سرانجام دے رہی ہیں لیکن ان کے کاموں میں کچھ خلا ہے اور دین کے دوسرے بعض تقاضے اس کے ذریعے پورے نہیں ہو رہے ہیں. ایسی جماعتوں کے ساتھ دو طرح کا معاملہ نظری اعتبار سے ممکن ہے. ایک یہ کہ ان کے ساتھ شامل ہو کر کام کیا جائے اور ان کے اندر رہ کر زور ڈالا جائے کہ دین کے دوسرے تقاضوں کو بھی پورا کیا جائے. یہ طریق بظاہر بڑا معقول اور مستحسن نظر آتا ہے لیکن عملاً اپنے اندر بہت سی پیچیدگیاں رکھتا ہے. ہر جماعت کے مؤسسین کا ایک خاص مزاج ہوتا ہے اور ان کے ذہن کی ایک خاص ساخت ہوتی ہے جسے بآسانی بدلا نہیں جاسکتا‘ اور اگر بدلنے کی کوشش کی جائے تو اس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکتا کہ خواہ مخواہ کی کھینچ تان اور بدمزگی پیدا ہو اور ہاتھ کچھ نہ آئے. ظاہر بات ہے کہ اگر ان کے نزدیک کوئی دوسرا پہلو اہم تر ہے تو وہ آپ کی وجہ سے کسی اور پہلو پر کیوں زیادہ زور دیں. لہذا عملاً دوسرا طریق ہی ممکن العمل بھی ہے اور بہتر بھی یعنی یہ کہ دوسرے لوگ ایک علیحدہ اجتماعیت قائم کریں اور اپنے ذہن و فکر اور اپنی صوابدید کے مطابق کام کریں.اب اگر خلوص اور للّٰہیت موجود ہے تو یہ دونوں کام ایک دوسرے کے معاون اور ایک دوسرے کی کمی کو پورا کرنے والے بن جائیں گے اور اگر اخلاص کی دولت ہی سے تہی‘دامنی ہو تو پھر بھی زیادہ سے زیادہ یہی ہو گاکہ جیسا تصادم اندر تھا ویسا ہی باہر بھی ہو گا. اس صورت میں بھی علیحدہ جماعت سازی پہلی صورت کے مقابلے میں زیادہ نقصان دہ تو کسی طرح نہیں ہو سکتی !
اب میں آپ کے سامنے اس نئی دینی تنظیم کے کچھ خصائص پیش کروں گا‘ جس کے قیام کے لیے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں. ان کا تذکرہ قرارداد میں بھی ہے اور ان کی توضیحات میں بھی. پھر مولانا اصلاحی بھی اپنی تقریر میں ان میں سے بعض کی وضاحت کر چکے ہیں. میں ان کو سلسلہ وار پیش کرتا ہوں تاکہ جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا تھا ‘کم از کم تذکیر ہو جائے.

پہلی خصوصیت ہماری پیش نظر تنظیم کی یہ ہے کہ اس میں نصب العین کے مقام پر صرف نجات اور رضائے الٰہی کے حصول کو رکھا گیا ہے اور اس میں ایسی کوئی تفریق نہیں رکھی گئی کہ دنیا میں ہمارا مقصود یہ ہے اور آخرت میں یہ! دنیا دارالعمل ہے اور آخرت دار ِ جزا. دنیا میں انسان دین و شریعت کے جملہ تقاضوں کو اُخروی جزا ہی کے لیے پورا کرتا ہے.لہذا 
ہر آن اور ہر لمحہ ہمارا نصب العین ایک ہی ہے اور وہ ہے آخرت کی کامیابی!! اس کے لیے دین کے جملہ انفرادی و اجتماعی تقاضوں کو اسی ترتیب و تدریج اور تقدیم و تاخیر کے ساتھ پورا کرنا ضروری ہے جو خود نظامِ دین میں متعین ہے! ان میں سے کسی ایک تقاضے کو اہمیت دے کر ’’نصب العین‘‘ کے مقام پر لے آنا ہر گز صحیح نہیں!
دوسری خصوصیت ہماری اس تنظیم کی یہ ہو گی کہ ہماری دعوت صرف اللہ اور اس کے دین کی طرف ہو گی‘ نہ کسی خاص شخصیت یاجماعت کی طرف ہو گی‘ نہ کسی خاص مسلک یا فقہی مذہب کی طرف!

اسی بنا پر اس اجتماعیت کی تیسری خصوصیت یہ ہو گی کہ یہ نہ کسی فرد یا گروہ کی حلیف ہو گی نہ حریف. اس میں حب اور بغض اور محبت و نفرت کا معیار صرف اللہ اور اس کا دین ہوں گے . یہ 
کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ کے قرآنی حکم پر عمل پیرا ہونے کی مقدور بھر سعی کرے گی اور حتی الامکان کوشش کرے گی کہ ذاتی یا گروہی عصبیت یا تعصب کی بنا پر عدل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے. وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ چنانچہ ہمارے لیے کسی حزبِ اختلاف کا تصور خارج از بحث ہو گا.مغربی جمہوریت کے پیدا کردہ ان تصورات سے عدل و انصاف کے تقاضے پامال ہو جاتے ہیں اور انسان اپنی جماعت کے بُرے سے بُرے کام کی حمایت اور حزبِ مخالف کے اچھے سے اچھے کام کی مخالفت پر مجبور ہو جاتا ہے. پیش نظر اسلامی تنظیم ان شاء اللہوَ تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ۪ وَ لَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ کے قرآنی احکامات پر عمل پیرا ہو گی.

چوتھی خصوصیت ہماری اس اسلامی تنظیم کی یہ ہو گی کہ یہ طبقاتی تصور اور اس سے پیدا شدہ تنازع للبقا کے بجائے وحدتِ الٰہ و آدم اور توافق یا تعاون للبقا کے تصور کو اُجاگرکرنے کی کوشش کرے گی. 

پانچویں خصوصیت دینی مسائل اور ان سے متعلق اختلاف مذاہب و مسالک کے متعلق ہے. ہمارے نزدیک جملہ دینی مسائل تین طرح کے ہیں. ایک وہ جو اساسی اور بنیادی بھی ہیں اور متفق 
علیہ بھی. دوسرے وہ جو متفق علیہ تو ہیں لیکن اساسی نہیں ہیں. تیسرے وہ مسائل ہیں جن میں سلف اور خیر القرون ہی سے اختلاف چلا آرہا ہے. ہماری یہ تنظیم ان شاء اللہ اپنی اصل توجہ کا مرکز و محور پہلی قسم کے مسائل ہی کو بنائے گی. اس لیے بھی کہ فی الواقع وہی اساسی اور بنیادی ہیں اور اس لیے بھی کہ موجودہ دَور کے فتنوں کی زد دراصل ان ہی پر پڑ رہی ہے‘ یعنی ایمان باللہ‘ ایمان بالرسالت‘ اور ایمان بالآخرت ہی خطرے میں پڑ گئے ہیں لہذا اس وقت اصل ضرورت ان کے استحکام کی ہے‘ اور ان کے معاملے میں کسی قسم کی رواداری اور مداہنت کا کوئی امکان نہیں ہے. دعوت میں نرمی اور حکمت ِتبلیغ بالکل دوسری چیز ہے اور مداہنت فی الدین بالکل دوسری‘ ان معاملات میں مصلحت کی بنا پر رواداری ممکن نہیں ہے البتہ تیسری قسم کے مسائل میں تشدد اور غلو کسی طرح جائز نہیں ہے. ان میں بھی مذاکرہ اور باہمی تبادلہ خیال ہو سکتا ہے لیکن کسی ایک رائے یا مسلک کو بالجبر دوسروں پر ٹھونسنا کسی صورت میں درست نہیں. ہم اپنی اجتماعیت میں ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جس میں ان اختلافی مسائل کے بارے میں انتہائی رواداری اور فراخ دلی پائی جائے.

چھٹی خصوصیت جو قرارداد میں صراحت کے ساتھ مذکور ہو چکی ہے‘ یہ ہے کہ اس میں 
’’اَلْاَھَمُّ فَالْاَھَمُّ‘‘ کا اصول پیش نظر رکھا جائے گا اور تبلیغ و دعوت میں تدریج ملحوظ رہے گی.یہ تمام معاملات احادیث ِنبوی  میں بصراحت مذکور ہیں .
ساتویں خصوصیت اس اجتماعیت کی جیسا کہ قرارداد سے واضح ہے ‘یہ ہو گی کہ اس کا دائرۂ کار صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ غیر مسلم بھی اس کے مخاطب ہوں گے. مسلمانوں کی خامیوں کی اصلاح بھی ہمارے فرائضِ دینی میں شامل ہے اور غیر مسلموں تک اسلام کی تبلیغ اور ان پر رسالت ِمحمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی جانب سے اتمامِ حجت بھی ہماری دینی ذمہ داریوں میں سے ہے. ہماری یہ اسلامی تنظیم ان شاء اللہ اس ضمن میں بھی اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کوشاں ہو گی.

پیش نظر تنظیم کی متذکرہ بالا خصوصیات تو وہ ہیں جو ہمارے مابین متفق علیہ ہیں اور ہماری قرارداد میں صراحتاً یا دلالتاً مذکور ہیں. اب میں بعض ایسی خصوصیات کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو 
میری ذاتی رائے میں ہمیں اختیار کرنی چاہئیں. ان میں اختلاف کی گنجائش تو ہے لیکن مجھے امید ہے کہ ان میں سے اکثر کو آپ حضرات اپنے دل ہی کی آواز محسوس کریں گے. 

ان میں سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ ہمیں اذکار و اوراد کے معاملے میں یہ اُصول متعین کر لینا چاہیے کہ ہم اَوراد و وظائف اور اذکار و ادعیہ میں سے صرف ان کو اختیار کریں جو اﷲ کی کتاب یا رسول اللہ  کی سنت سے ماخوذ ہوں. ان کا اولین فائدہ تو یہ ہو گا کہ ہم خدا اور رسول  کے ساتھ جڑے رہیں گے اور اس سے یقینا ایک عظیم روحانی فائدہ ہو گا. اس کے ساتھ ہی اس سے افتراق و انتشار میں بھی کمی ہو گی. مختلف لوگ اپنے ذوق کے اعتبار سے مختلف اذکار اختیار کر لیں تو رفتہ رفتہ یہی ان کی مابہ الامتیاز خصوصیت بن جاتے ہیں اور اس سے ایک علیحدگی کا احساس پیدا ہو سکتا ہے‘ لہذا اس اعتبار سے بھی عافیت اسی میں ہے کہ صرف مسنون اور ماثور ادعیہ و اذکار پر اکتفا کیا جائے.

دوسرے یہ کہ مثبت اور منفی دونوں کام سامنے رکھے جائیں. دین میں معروف کے امر کے ساتھ منکر کی نہی کا بھی حکم دیا گیا ہے اور احقاقِ حق کے ساتھ ابطالِ باطل کو بھی لازم ٹھہرایا گیا ہے. آج کل جو عام خیال پھیل گیا ہے کہ صرف مثبت کام کرنا چاہیے ‘منفی کام نہیں کرنا چاہیے تو یہ میری ذاتی رائے میں ازرُوئے دین درست نہیں ہے. دعوت کا اچھے سے اچھا اسلوب اختیار کرنا اور حکمت ِتبلیغ کو پیش نظر رکھنا بالکل دوسری بات ہے اور انکارِ منکر اور ابطالِ باطل سے قطعاً صرفِ نظر کر کے صرف’’مثبت‘‘باتوں کو پیش کرتے رہنا بالکل دوسری چیز ہے. دینی غیرت و حمیت کا لازمی تقاضا میرے نزدیک یہ ہے کہ خلافِ دین و شرع امور پر برمَلا تنقید کی جائے‘ چاہے اس کا ہدف اصحابِ اقتدار بنتے ہوں چاہے عوام. اس معاملے میں یہ پہلو بھی لائق توجہ ہے کہ آج کل حکومت کی خلافِ مذہب باتوں پر تنقید کرنے والے تو پھر بھی مل جاتے ہیں‘ عوام کو ان کی خلافِ دین باتوں پر ٹوکنے ولا کوئی نہیں رہا‘ جبکہ میری ذاتی رائے میں آج کے زمانے میں عوام کو وہی حیثیت حاصل ہے جو کبھی سلاطین و اُمراء کو حاصل تھی اور اس اعتبار سے ان کی نظری و عملی گمراہیوں اور ضلالتوں پر تنقید بھی 
’’افضل الجہاد‘‘ کے حکم میں داخل ہوگئی ہے. تیسرے یہ کہ جاہلیت ِ قدیمہ اور جاہلیت ِ جدیدہ دونوں کا ابطال کیا جائے. یہ تو ہو سکتا ہے بلکہ غالباً یہی ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ جاہلیت ِ قدیمہ کی بیخ کنی کی صلاحیت و قدرت سے مسلح ہوں اور کچھ دوسرے لوگ جاہلیت جدیدہ کے استیصال کی قدرت و طاقت رکھیں. چنانچہ انہیں اپنے اپنے محاذوں پر کام کرنا ہو گا‘ لیکن یہ ضروری ہے کہ یہ دونوں محاذ پیش نظر رہیں اور کسی سے صرفِ نظر نہ ہونے پائے.
چوتھی کوشش پیش نظر تنظیم اسلامی میں اس امر کی ہونی چاہیے کہ نہ تو نری عقلیت پر انحصار کیا جائے اور نہ ہی نری جذباتیت پر دارومدار ہو بلکہ عقل اور جذبے دونوں کو مناسب مقام پر رکھ کر کام کیا جائے. جو بات کہی جائے وہ صرف عقلی ہی نہ ہو بلکہ دِل سے بھی نکلے تاکہ اس کے مخاطب اہل عقل بھی ہوں اور صاحبانِ دل بھی.اور دعوت خود اہل ِعقل کے بھی دل میں گھر کر جائے! 

پانچویں لازمی چیز جس کا پورا اہتمام ہماری اس تنظیم میں کیا جانا چاہیے یہ ہے کہ اس میں تنقید پر کوئی پہرا نہ لگایا جائے اور ایسی کوئی پابندی نہ لگائی جائے جس سے لوگوں کی زبانیں بند ہو جائیں. تنقید کے صحیح اسلامی آداب کی پابندی تو یقینا لازم ہے لیکن تنقید کے دروازوں کو بند کر دینا پیش نظر تنظیم کی پیشگی ہلاکت کا سامان ہو گا. اس تنظیم کے اربابِ حل و عقد کا تنقید کو برداشت کرنے کی ہمت و صلاحیت سے مسلح ہونا ضروری ہے. اس کے ساتھ ہی یہ بھی لازمی ہے کہ پیش نظر تنظیم کا نظام شورائی ہو اور قرآن حکیم کی اس ہدایت کہ: 
’’وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُم‘‘ کا جیتا جاگتا نمونہ ہو.

چھٹی خصوصیت ہماری اجتماعیت کی یہ ہونی چاہیے کہ اس میں زہدخشک اور تفریح بے قید کے مابین درمیانی کیفیت پیدا ہو اور نہ تو 
’’عَبُوۡسًا قَمۡطَرِیۡرًا ‘‘ کا نقشہ پیدا ہو جائے‘ نہ دوسری انتہا ہو کہ ہر وقت ہنسی دل لگی اور تفریح کا ماحول طاری رہے. اسی طرح ’’رہبانیت‘‘ اور ’’تنعم‘‘ کے مابین درمیانی کیفیت کا پیدا کرنا بھی لازمی ہے. دین میں نہ قطعی ترک لذائذ کی ترغیب ہے اور نہ عیش پرستی کی گنجائش ہے. اللہ کی نعمتوں سے جائز طریقے سے متمتع ہونے کو برا سمجھنا بھی دین کی رُوح کے منافی ہے اور عیش کوشی بھی ازروئے دین ممنوع ہے. ساتویں ضروری چیز جو قرارداد کی توضیح میں بہت وضاحت کے ساتھ آچکی یہ ہے کہ انتظامی اور تنظیمی امور میں دلچسپی کے ساتھ اسی درجہ کا گہرا شغف تعبدی امور میں ہونا لازمی ہے ورنہ بالکل یک رُخی شخصیتیں پیدا ہو جاتی ہیں جن کی بدولت دینی تنظیموں میں بہت سی خرابیاں رُونما ہو جاتی ہیں. پیش نظر تنظیم میں اِن شاء اللہ اس امر کی خصوصی نگہداشت کی جائے گی.

آٹھویں اور آخری ضروری چیز یہ ہے کہ اپنے زمانے کے مخصوص فتنوں کا صحیح فہم اور ان کی اہمیت کا صحیح شعور حاصل کیا جائے. اس معاملے میں دین کے خادموں کو بالکل ماہر تشخیص طبیب کے مانند ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے زمانے کی اصل اور بنیادی بیماریوں کی صحیح صحیح تشخیص کر سکیں. بصورت دیگر یہ ہو سکتا ہے اور بسا اوقات ہوتا ہے کہ ساری جدوجہد علامات کے خلاف ہوتی رہتی ہے اور بیماری کی اصل جڑ جوں کی توں قائم رہتی ہے. حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی نگاہِ حقیقت بین نے بالکل صحیح اندازہ کر لیا تھا کہ منع زکوٰۃ وغیرہ جیسے بظاہر’’فروعی‘‘ معاملات کی تہہ میں اصل مرض کون سا کام کر رہا ہے. اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی نگاہِ دُور رس نے بھی اپنے وقت کے فتنے کا صحیح اندازہ کر لیا تھا. پھر ان کے بعد بھی تمام مجددین اپنے اپنے دَور کے فتنوں کی اہمیت کا اندازہ کر کے ان کے سدّباب کی سعی کرتے رہے 
فَجَزَاھُمُ اللّٰہ خیر الجزاءِ عن جمیع المسلمین . اپنے وقت کے امراض کی صحیح تشخیص کے لیے بڑی گہری بصیرت کی ضرورت ہے اور یہ چیز درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف ہی سے ہوتی ہے. تاہم اپنے مقدور بھر اس امر کی سعی ضروری ہے کہ کسی ایک ہی پٹی ہوئی راہ پر چلتے رہنے کے بجائے اس پر مسلسل غور و فکر اور تفکر و تدبر کیا جاتا رہے کہ ہمارے زمانے کے اصل فتنے کون سے ہیں اور ان کے سدّباب کی صحیح راہ کون سی ہے.

آخر میں ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ کر کے اپنی معروضات کو ختم کرتا ہوں کہ جو کام کرنے کا عزم ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے کیا ہے وہ بیک وقت آسان بھی ہے اور مشکل بھی. آسان اس اعتبار سے کہ یہ ہمارے دین کا تقاضا‘ ہماری فطرت کی پکار اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے پروردگارکی جانب سے عائد کردہ فرض ہے. لہذا اس کی ادائیگی کی سعی و جہد سے دلوں کو راحت اور قلوب کو اطمینان و سکون حاصل ہو گا اور مشکل اس اعتبار سے کہ 
بسا اوقات اس راہ کی مسلسل جدوجہد کا کوئی محسوس نتیجہ برآمد ہوتا نظر نہیں آتا اور انسان کو کمال صبر و استقامت کے ساتھ اپنی محنت کے نتائج و ثمرات سے بالکل بے نیاز ہو کر کام کیے جانا پڑتا ہے. نبی اکرم  نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ ’’اے علی! اگر اللہ تیرے ذریعے کسی ایک انسان کو بھی ہدایت کی راہ پر لے آئے تو یہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے‘‘!بس یہی اس راہ کے ہر مسافر کا ماٹو (Motto) ہونا چاہیے اور اگر اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ایک فرد بشر کو بھی سیدھی راہ پر لے آئے تو اسے چاہیے کہ اس بات کو واقعتا ایک دولتِ بے بہا اور نعمت ِغیر مترقبہ تصور کرے. واقعہ یہ ہے کہ اگر ہمارے قلب و نظر کی کیفیت فی الواقع یہ نہ ہو جائے تو اس راہ میں ثابت قدم رہنا محال ہے.
آخر میں مَیں اپنے اور آپ سب کے لیے اللہ تعالیٰ سے ہدایت و استقامت اور عفو و مغفرت کی دعا کرتا ہوں.

وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ