عزیز ساتھیو!

اللہ تعالیٰ کی توفیق سے آپ نے ایک جماعتی نظم کے قیام کی قرارداد پر اتفاق کر لیا. میں اس پر آپ کو مبارک باد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کام کے لیے عزم و ہمت عطا فرمائے‘ اور ہر قدم پر ہماری دست گیری اور رہنمائی فرمائے میں اس موقع پر آپ کے سامنے یہ اعتراف کرتا ہوں کہ ہر چند اس کی ضرورت اور اہمیت مجھ پر واضح تھی‘ لیکن میں دو سبب سے اس قسم کی ذمہ داری سے گریز کرتا رہا. ایک تو یہ کہ اب میرے قویٰ ضعیف ہو رہے ہیں‘ کوئی بھاری بوجھ اُٹھانا میرے لیے ممکن نہیں رہا. دوسرا یہ کہ زندگی کے اِس آخری دور کے لیے اپنے ذوق کے مناسب جو کام میں نے تجویز کر لیا تھا‘ اب وقت و فرصت کا لمحہ لمحہ اس پر صرف کرنا چاہتا تھا.چنانچہ دوستوں کے شدید اصرار بلکہ دباؤ کے باوجود میں خود اس 
کے لیے پہل کرنے کی ہمت نہیں کر سکا. دوستوں نے جب کبھی اس فریضہ کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی‘ میں ان کے دلائل کا تو انکار نہ کر سکا لیکن اپنی کمزوریوں اور مجبوریوں پر نگاہ کر کے اُن کی بات کو ٹالتاہی رہا. میں یہ بھی محسوس کرتا رہا کہ اگرچہ میرے اوقات تمام تر دینی و علمی کاموں ہی میں بسر ہو رہے ہیں‘ تاہم معاشرے سے متعلق مجھ پر جو فریضہ عائد ہوتا ہے اُس میں مجھ سے کوتاہی ہو رہی ہے‘ جس کے سبب نہ صرف میری بعض صلاحیتیں سکڑ رہی ہیں‘ بلکہ اندیشہ اس بات کا ہے کہ اس پر مجھ سے مواخذہ ہو. ان تمام احساسات کے بوجود میں اپنے آپ کو معذور سمجھتا رہا‘ جس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آدمی اپنے آپ کو معذور سمجھنے میں بڑا فیاض ہوتا ہے. 

بہرحال اب میں پورے شرحِ صدر کے ساتھ اس کام میں شریک ہوتا ہوں اور اُن تمام دوستوں کا دل سے شکر گزار ہوں جنہوں نے اس عظیم فرض کی اہمیت کو سمجھا اور ہم سب کو اس کے سمجھانے کا اہتمام کیا. اللہ تعالیٰ ہم سب کی طرف سے ان کو جزائے خیر عطا فرمائے.

میرے ذمہ اس وقت آپ تمام شرکائے مجلس کو بعض ضروری ہدایات دینے کا کام سپرد کیا گیا ہے. یہ ہدایات ان کاموں سے متعلق ہیں جو آپ کو یہاں سے رخصت ہونے کے بعد کرنے ہیں. براہ کرم اِن کو نوٹ کر لیجیے.
جماعتی تنظیم سے متعلق اس وقت آپ کو پہلا کام یہ کرنا ہے کہ تنظیم کے نظام و دستور سے متعلق آپ کے سامنے جو تجویزیں ہیں وہ مقامی رفقاء سے مشورہ کے بعد قلم بند کر کے شیخ سلطان احمد صاحب کے پاس بھیج دیجیے تاکہ مجلس ِمشاورت اُن سے فائدہ اٹھا سکے.حتی الوسع اس بات کی کوشش کیجیے کہ تجاویز کے بارے میں اگراختلاف رائے ہو تو وہ غور و بحث سے مقامی رفقاء ہی کے اندر طے ہو جائے‘ تاکہ آگے کا کام آسان ہو جائے. اگر غور و بحث کے بعد بھی کسی امر میں اختلاف باقی رہ جائے تو اس کو نوٹ کر دیا جائے.

اپنی اور اپنے دوسرے بھائیوں کی اصلاح و تربیت سے متعلق جو کام آپ کو کرنے ہیں ان کے بارے میں مفصل ہدایات تو افرادی قوت کا جائزہ لینے کے بعد ہی دی جاسکیں گی لیکن چند کام ایسے ابتدائی اور بدیہی نوعیت کے ہیں کہ ان کا اہتمام بلا تاخیر آپ کو کرنا چاہیے.

پہلا کام نماز کا اہتمام ہے. نماز ہمارے دین میں ایمان کا اوّلین تقاضا ہے. قرآن و حدیث 
سے یہ بات ثابت ہے کہ اسلامی تنظیم کی شیرازہ بندی اسی چیز سے ہوتی ہے‘ اور انبیاء علیہم السلام نے اصلاح و تربیت کا پہلا قدم اسی سے اٹھایا ہے. آپ بھی اس کی پابندی کے لیے مضبوط عہد کیجیے اور اپنے عزیزوں‘ قریبوں‘ دوستوں‘ پڑوسیوں اور محلہ داروں کو بھی دل سوزی اور خیر خواہی کے ساتھ اس کی تلقین کیجیے. نماز کے اہتمام میں یہ بات بھی داخل ہے کہ حتی الوسع محلہ کی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کیجیے. بغیر کسی معقول عذر کے اس میں کوتاہی نہ کیجیے اور دوسروں کو بھی نماز باجماعت کی عظمت و اہمیت سمجھانے کی کوشش کیجیے!!

دوسرا کام یہ ہے کہ اپنے دینی علم میں اضافہ کا اہتمام کیجیے. جن مقامات پر یہ ممکن ہو کہ کسی ذی علم کی رہنمائی میں قرآن مجید کا اجتماعی مطالعہ کیا جاسکے‘ وہاں حلقہ تدبر ِقرآن قائم کیجیے اور ہفتہ میں کم از کم ایک دن اس کام کے لیے خاص کیجیے کہ کچھ وقت قرآن کے فکر و مطالعہ میں بسر ہو. اس کے ساتھ اگر حدیث کی ایسی کتابوں کا مطالعہ بھی کیا جائے جو اخلاقی احادیث پر مشتمل ہیں‘ مثلاً ریاض الصالحین وغیرہ‘ تو اس سے مزید خیر و برکت ہو گی. اگر کسی ذی علم کی رہنمائی حاصل نہ ہو تو عام حلقہ مطالعہ ٔاسلامی قائم کیجیے اور منتخب اسلامی کتب کا التزام سے مطالعہ کیجیے. اس قسم کے حلقوں میں اپنے اُن دینی بھائیوں کو بھی شرکت کی دعوت دیجیے جن کے اندر دین اور علم دین کی رغبت محسوس کریں.

آپ لوگوں میں سے جن لوگوں نے جدید تعلیم پائی ہو‘ اُن کو میں یہ مشورہ بھی دُوں گا کہ وہ عربی زبان سیکھنے کی کوشش کریں‘ تاکہ وہ قرآن و حدیث سے براہ راست استفادہ کر سکیں. بظاہر یہ کام مشکل نظر آتا ہے لیکن شوق اور طلب سے ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے. اپنے اپنے شہروں میں جس عالم سے بھی اس کام میں آپ کو مدد ملنے کی توقع ہو ‘اس سے استفادہ کیجیے. ہم خود بھی حالات کا جائزہ لینے کے بعد اس مسئلہ پر غور کریں گے کہ آسان طریقہ سے آپ کو عربی سکھانے کی کیا شکل اختیار کی جاسکتی ہے. لاہور میں اس سلسلے میں ہم نے جو تجربے کیے ہیں‘ ہم ان سے بھی آپ کو آگاہ کریں گے تاکہ جن مقامات پر اس نہج پر درس جاری ہو سکے وہاں اس نہج پر درس جاری کیے جائیں.

تیسرا کام یہ ہے کہ اپنے اپنے مقامات پر اپنے ہم خیال اور رفیق تلاش کیجیے جن کے 
تعاون سے پیش نظر مقصد کو تقویت حاصل ہو. جو اس جدوجہد میں آپ کے لیے سہارا بن سکیں‘ جو آپ کی اصلاح کریں‘ اور جن کی آپ اصلاح کریں. جماعتی زندگی کی یہی خیر و برکت ہے جو انفرادی زندگی میں حاصل نہیں ہو سکتی. اگرچہ یہ زمانہ بہت بُرا ہے لیکن اِس بُرے زمانے میں بھی اچھی روحیں اور نیک نفوس موجود ہیں‘ ضرورت ٹٹولنے اور جستجو کی ہے. جب آپ جستجو کریں گے تو اللہ کے بے شمار بندے ایسے مل جائیں گے جو آپ کی رفاقت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے. کتنے نفوس ہوتے ہیں جن کے اندر دینی حس موجود ہوتی ہے لیکن کوئی اُس کو اکسانے ولا نہیں ہوتا‘ اس وجہ سے وہ دبی ہوئی رہتی ہے. آپ ایسے نفوس تلاش کیجیے‘ اُن تک پہنچئے‘ اُن سے تبادلۂ خیالات کیجیے‘ اور اس کام میں اُن کو تعاون کی دعوت دیجیے.آپ کی اجتماعی طاقت جتنی ہی بڑھتی جائے گی اتنی ہی ان کاموں کی انجام دہی آپ کے لیے آسان ہوتی جائے گی جو افراد اور معاشرہ کی اصلاح سے متعلق آپ پیش نظر رکھتے ہیں.

یہ چند ابتدائی کام ہیں جو اس قرارداد کی روشنی میں‘ جو آپ نے پاس کی ہے‘ فی الفور شروع کیے جاسکتے ہیں. آگے اللہ مزید کاموں کی راہیں کھولے گا‘ اگر ہمارے اندر اس کے دین کی خدمت کے لیے اخلاص ہو گا. اب دُعا کیجیے کہ ہمیں اس کام کے لیے سچا عزم حاصل ہو اور ہر قدم پر توفیق الٰہی ہماری رہنمائی فرمائے. 


عن تمیم الدّارمی رضی اللہ عنہ
انّ رسولَ اللہ  قال:
اِنَّ الدِّیْنَ النَّصِیْحَۃُ
قُلْنَا:لِمَنْ یَا رَسُوْلَ اللہِ؟
قَالَ:لِلّٰہِ،وَلِکِتَابِہٖ،وَلِرَسُوْلِہٖ،
وَلِأَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِینَ،وَعَامَّتِھِمْ 
(رواہ مسلم)