ایک نیا اصلاحی ادارہ

لاہور کے ایک معزز دینی ماہنامہ ’’میثاق‘‘ سے یہ معلوم کر کے دِلی خوشی ہوئی کہ وہاں چندذی فہم و بصیرت مخلصوں کی سعی و اہتمام سے ایک نئے دینی ادارہ کی بنیاد بالکل صحیح اُصول پر پڑ رہی ہے. یہ حضرات زیادہ تر جماعت اسلامی سے نکلے ہوئے ارکان ہیں اور یقین ہے کہ یہ ان شاء اللہ ان غلطیوں سے محفوظ رہیں گے‘ جن کا خوب تجربہ انہیں جماعت مذکور میں شامل رہ کر ہو چکا ہے.ادارہ کے ایک بانی مولانا امین احسن اصلاحی کی یہ بات آب زر سے لکھنے کے قابل ہے:

’’جماعتیں اور تنظیمیں قائم تو ہوتی ہیں اصلاً کسی اعلیٰ و برتر نصب العین کے لیے لیکن قائم ہوجانے کے بعد وہ رفتہ رفتہ از خود نصب العین اور مقصد بن جاتی ہیں اور اصل نصب العین غائب ہو جاتا ہے!‘‘

یہ ’’صدق‘‘ کے مسلک کی صد فی صد ترجمانی ہے. مولانا اصلاحی کی تقریر کا یہ ٹکڑا بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے:

’’ارباب اقتدار کی ہر بات کو ہدفِ تنقید بنا لینا‘ یہاں تک کہ اُن کے خیر کو بھی شر قرار دے لینا‘ اور اُس کی مخالفت میں اِس حد تک بڑھ جانا کہ دوسروں کی بُرائیاں بھی اُن کے کھاتے میں ڈال دینا نہ عقل و منطق کی رُو سے جائز ہے‘ اور نہ اسلام کی رُو سے. یہ اقتدار کی ہوس میں اندھے ہو جانے کی علامت ہے!‘‘

اور پاکستان کی (ہندوستان کی نہیں) جماعت اسلامی کو شدید ترین نقصان شاید اسی چیز نے پہنچایا ہے. اللہ ہم کو پچھلی غلطیوں سے سبق لینے کی توفیق دے اور راہِ اصلاح و ہدایت پر مستقیم رکھے.

خدمت ِ دین کی گنجائشیں

’’پاکستان کے دینی ماہنامہ ’میثاق‘ لاہور سے نئی دینی و اجتماعی تنظیم کے سلسلے میں:
’’آخر میں اس امر کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ پیش نظر تنظیم ہرگز ’’الجماعت‘‘ کے حکم میں داخل نہ ہو گی. ’’الجماعت‘‘ کا مقام ہماری دانست میں اُمت مسلمہ کو بحیثیت مجموعی حاصل ہے. دین کی خدمت ایک نہایت وسیع و عریض کام ہے اور اس کے گوشے بے شمار ہیں. ہم ان تمام جماعتوں اوراداروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو کسی بھی گوشے میں دین کی خدمت کا کام کر رہی ہیں اور اِن شاء اللہ اُن کے ساتھ ہمارا رویہ تعاون و تائید ہی کاہو گا!‘‘

بات اصلاً بہت موٹی اور بالکل صاف و واضح ہے‘ لیکن اس زمانے میں بہت بڑی بات ہے. دین و اُمت کی خدمت کے اتنے پہلو ہیں اور خدمت کے لیے گنجائش اتنی ہے کہ اگر نفسانیت کو چھوڑ کر تھوڑے سے بھی عزم و حوصلہ کے ساتھ خدمت کا ارادہ ہو تو خلوص اور فہمِ سلیم سے کام لینے والا ہر فردِ اُمت اس کے اندر کھپ سکتا ہے اور باہمی مناقشہ سے جواب تک بڑا سنگِ راہ بنا ہوا ہے‘ نجات پاکر ہر گروہ اپنے مذاق و استعداد کے لحاظ سے سچا خادمِ دین بن سکتا ہے!‘‘ 

(میثاق‘ لاہور: جنوری ۱۹۶۸ء بحوالہ ’’صدقِ جدید‘‘ ۱۷ نومبر۱۹۶۷ء)