فرنگی ساخت کی جماعت سازی اور اُس کی فتنہ سامانی!

تازہ ’میثاق‘ میں زیادہ تر پرانی جماعت ِ اسلامی سے علیحدہ ہونے والے حضرات جو ایک نئی جماعت بنا رہے ہیں اور جس کا ہمارے حضرت صاحبِ ’’صدق‘‘ نے بھی خیرمقدم کیا ہے‘ اس کی تفصیلات معلوم ہوئیں. آپ کی تقریر کی جس بات کی صاحبِ صدق نے داد دی ہے‘ میں بھی اُسے ہی سب سے زیادہ قابل داد اور آبِ زر کیا‘ آبِ جواہر سے لکھنے کے قابل پاتا ہوں. میں تو فرنگی ساخت کی جماعت سازیوں کے عین خمیر ہی میں اس فساد کو داخل جانتا ہوں اور علی الاعلان کہا کرتا ہوں کہ یہ افتراق سازی کی بنیاد ہوتی ہے.

انبیاء کا طریق یہ ہے کہ صاحبِ دعوت و عزیمت اپنی دعوت لے کر کھڑا ہوتا ہے اور بلاکسی مصنوعی جماعت سازی کے جو لوگ برضا و رغبت اِس کے ساتھ شریک ہوتے ہیں‘ بس وہی ’’حزب اللہ‘‘ بن جاتے ہیں اور قواعد و ضوابط اور کثرتِ رائے وغیرہ کی بحث کے بغیر جب تک وہ داعی کے ساتھ چلتے رہتے ہیں تبھی تک خیریت رہتی ہے. باقی جہاں اقلیت و اکثریت وغیرہ کی رائے شماری اور صدر و سیکرٹری اور چندہ بازی وغیرہ کے جدیدفرنگی طریقے داخل ہوئے‘ بس پھوٹ یقینی ہے کہ ایسی صورت میں جیسا آپ نے بالکل صحیح لکھا ہے‘ (بالکل نفسیاتی طور پر) جماعت مقصود بن جاتی ہے اور اصل مقصود غائب ہوتے ہوتے بمنزلۂ صفر ہو جاتا ہے. اس کے علاوہ جب تک غیر معمولی اخلاص و للہیت کم و بیش تمام افرادِ جماعت میں نہ ہو‘ جماعتی عصبیت و رقابت اس جماعت سازی کا لازمہ ہے. مجھے تو ہمیشہ الٰہ آباد کے عارفِ اکبرؔ کا یہ عارفانہ شعر برابر یاد آتا رہتا ہے‘ جس کے ذریعے اِس طرز کی جماعت سازیوں کے آغاز ہی میں انہوں نے آگاہ فرما دیا تھا: ؎

کریما بہ بخشائے برحالِ بندہ
کہ ہستم اسیرِ کمیٹی و چندہ!

اور یہ سراپا ناکارہ …اور…کے حضرات سے یہی عرض کرتا رہتا ہے کہ اپنی جماعتوں کو توڑ دیں کہ اُن میں سے انجام کسی ایک کا بھی بخیر نہ ہوا … میں جب آخر تک کوئی صدارت سے کنارہ کش ہونے سے راضی نہ ہوا تو بالآخر صدارت کو دو صدروں میں تقسیم کرنا پڑا! 

(مولانا اصلاحی کے نام ایک خط سے ماخوذ)