تنظیم اسلامی کے بنیادی دینی تصوراتیعنی عقائداہل سنت والجماعت کے مطابق ہیں‘ جن کی رُو سے: ہر عاقل و بالغ مسلمان خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘ پر لازم ہے کہ وہ:

(الف) پورے شعور و ادراک کے ساتھ اقرار کرے کہ:

آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ھُوَ بِاَسْمَائِہٖ وَصِفَاتِہٖ وَقَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہٖ‘ اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَتَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ 
یعنی میں یقین رکھتا ہوں اﷲ پر جیسا کہ وہ اپنے اسماء و صفات سے ظاہر ہے اور قبول کرتا ہوں اس کے جملہ احکام‘ اقرار کرتا ہوں زبان سے اور تصدیق کرتا ہوں دل سے!اور 

اٰمَنْتُ باِللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ مِنَ اللّٰہِ تَعَالـٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ
یعنی میں یقین رکھتا ہوں اﷲ پر‘ اور اس کے فرشتوں پر ‘ اور اس کی کتابوں پر‘ اور اس کے رسولوں پر‘ اور یوم آخر پر‘ اور تقدیر پر کہ اس کی بھلائی اور بُرائی سب اﷲ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے اور مرنے کے بعد جی اُٹھنے پر.

تشریح: اسلام کی اساس ایمان پر قائم ہے اور ایمان کی تعبیر کے لیے ایمان مجمل اور ایمان مفصّل کے مندرجہ بالا الفاظ جو سلف سے منقول ہیں‘ حد درجہ موزوں بھی ہیں اور نہایت جامع و مانع بھی. اس لیے کہ ان میں ایمانیات کی تفصیل کے علاوہ دو اہم اور بنیادی نکتے بھی واضح ہوجاتے ہیں. ایک یہ کہ ایمان زبانی اقرار (جو اُس قانونی ایمان یعنی اسلام کا رکن اولین ہے جس پر تمام دنیوی معاملات کا دارومدار ہے اور جس پر اسلامی ہیئت اجتماعی کی بنیاد قائم ہوتی ہے) اور تصدیق قلبی (جس پر اُس حقیقی ایمان کا دارومدار ہے جس کی بناء پر آخرت میں کوئی شخص مومن قرار پائے گا) دونوں کا مجموعہ ہے اور دوسرے یہ کہ علمی و نظری اور اصولی اعتبار سے ایمان حقیقتاً ایمان باﷲ ہی کا نام ہے.بقیہ تمام ایمانیات اسی اصل کی فروع اور اسی اجمال کی تفصیل ہیں. چنانچہ ایمان بالآخرت بھی اﷲ تعالیٰ کی صفاتِ حکمت و عدل ہی کا مظہرہے اور ایمان بالرسالت بھی اس کی صفاتِ ربوبیت و ہدایت 
ہی کی توسیع.

اﷲوہ زندۂ جاوید ہستی ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا. وہ اَلْاَحَد ہے یعنی ہر اعتبار سے تنہا اور اکیلا‘ چنانچہ نہ کوئی اس کی ذات میں شریک ہے نہ صفات میں‘ نہ حقوق میں نہ اختیارات میں‘ نہ اس کا کوئی ہم جنس ہے نہ ہم کفو‘ نہ ہم سرہے نہ ہم پلّہ‘ نہ ضد ہے نہ ند‘ نہ مثل ہے نہ مثال. وہ 
الصَّمَد ہے یعنی وہ پورے سلسلہ کون و مکان کا مبدع بھی ہے اور موجد بھی‘ خالق بھی ہے اور باری بھی‘ صانع بھی ہے اور مصور بھی‘ اور اسی کی توجہ و عنایت اسے تھامے ہوئے بھی ہے اور قائم کیے ہوئے بھی.

وہ پاک اور منزہ و مبرا ہے ہر عیب ‘ ہر نقص‘ ہر کمی‘ ہر ضعف ‘ ہر احتیاج‘ ہر غلطی اور ہر کوتاہی سے. گویا وہ 
سبُّوح بھی ہے اور القُدّوس بھیاور جامع ہے تمام محاسن و کمالات کا‘ اور ہر خیر اور خوبی کا بدرجہ تمام و کمال‘ گویا وہ الغنی بھی ہے اور الحمید بھی. کسی کو کوئی قوت و طاقت حاصل نہیں بجز اس کے اذن و اجازت کے‘ گویا وہی‘ العَلِیِّ بھی ‘ العظیم بھی‘ المُتَعَال بھی ہے اور الکبیر ‘ المُتَکَبِّربھی. ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلاَ اِلٰــہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَلاَحَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ‘‘.

اس کی ذات وراء ُالوراء ثم وراء ُالوراء ہے اور اس کی ماہیت اور کنہہ کو کوئی نہیں جان سکتا ‘اور اس کی معرفت کی واحد راہ اس کے اسماء و صفات کے واسطے ہی سے ہے. چنانچہ تمام اچھے نام اسی کے ہیں اگرچہ متعین طور پر اس کے اسماءِ حسنیٰ وہی ہیں جو قرآن اور حدیث نبویؐ میں وارد ہوئے. اسی طرح وہ تمام صفات کمال سے بتمام و کمال متصف ہے جن میں سے اہم ترین آٹھ ہیں یعنی(۱)حیات‘ (۲)علم‘ (۳)قدرت‘ (۴)ارادہ‘ (۵)سمع‘ (۶)بصر‘ (۷)کلام اور(۸) تکوین.چنانچہ وہی الحَیّ بھی ہے اور القَیُّوم بھی ‘ السَّمِیع بھی ہے اور البصیر بھی‘ ’’عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ‘‘ بھی ہے اور ’’ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡم‘‘ بھی ’’فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیۡدُ‘‘ بھی ہے اور ’’اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ‘‘ کی شان کا حامل بھی.مزید برآں اس کی جملہ صفات اس کی ذات ہی کے مانند مطلق ولا متناہی ہیں نہ کہ محدود و مقید‘ اور قدیم ہیں نہ کہ حادث‘ اور ذاتی ہیں نہ کہ کسی اور کی عطا کردہ. فرشتے وہ برگزیدہ ہستیاں ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ نے نور سے تخلیق فرمایا. وہ صاحب تشخص وجود کے حامل ہیں نہ کہ مجرد قوائے طبیعیہ. ان کا نہ مذکر ہونا معلوم ہے نہ مؤنث. وہ خدا سے قرب ضرور رکھتے ہیں لیکن الوہیت میں ان کا کوئی حصہ نہیں. وہ اﷲ کے حکم کے خلاف کچھ نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جس کا حکم انہیں بارگاہِ خداوندی سے ملے. وہ اﷲ کے احکام کی تنفیذ بھی کرتے ہیں اور خالق و مخلوق کے مابین پیغام رسانی بھی‘ چنانچہ وہی انبیاء و رُسل تک وحی لاتے رہے ہیں. ان کی تعداد بے شمار ہے لیکن چار بہت مشہور بھی ہیں اور جلیل القدر بھی یعنی حضرت جبرئیل‘ حضرت میکائیل‘ حضرت اسرافیل اور حضرت عزرائیل علیہم السلام.

اﷲ کی کتابوں میں سے بھی چار ہی معلوم و معروف ہیں‘ یعنی توراۃ جو حضرت موسیٰ ؑ کو عطا ہوئی اور زبور جو حضرت دائودؑ کو عطا ہوئی اور انجیل جو حضرت عیسٰی ؑ کو عطا ہوئی اور قرآن جو حضرت محمد کو عطا ہوا‘ جو اﷲ کی آخری کتاب اور نوعِ انسانی کے نام اﷲ کا آخری اور مکمل پیغام ہے‘ جس کے بعد کوئی اور کتاب نازل نہ ہوگی اور جو من و عن محفوظ موجود ہے اور ہمیشہ رہے گا جبکہ باقی تینوں کتابیں ردوبدل اور تغیر و تحریف کا ہدف بن چکی ہیں‘ گویا اب قرآن ہی اُن کا مُصَدِّق بھی ہے اور مُھَیْمِن بھی. ان کے علاوہ اور بھی بہت سے پیغمبروں کے صحیفے عطا ہوئے جن میں سے کچھ اب دنیا میں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں‘ باقی محرف اور مبدل ہیں.

اﷲ کے رسول نوعِ انسانی کے وہ برگزیدہ افراد ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ نے بنی آدم تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے وقتاً فوقتاً چنا اور پسند فرمایا. وہ انسانیت کا اعلیٰ ترین نمونہ تھے اور سب گناہ سے پاک یعنی معصوم تھے. ان کی تعداد اﷲ ہی کو معلوم ہے‘ قرآن مجید میں جن کے نام مذکور ہیں ان کے سوائے کسی اور کو یقین کے ساتھ نبی یا رسول قرار نہیں دیا جاسکتا. ان میں سے پانچ حد درجہ اولوالعزم اور نہایت عالی مرتبہ ہیں یعنی حضرت نوح علیہ السلام ‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام ‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام ‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور سیدنا محمد  . ان میں سے بعض کو بعض پر بعض پہلوؤں سے جزوی فضیلت حاصل ہے لیکن جملہ انبیاء و رُسل پر فضیلت کلی سید ِوُلد ِآدم حضرت محمد  کو حاصل ہے‘ جو خاتم النبیین بھی ہیں اور آخر الرسل بھی اور جن کے بعد وحی نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کلی طور پر بند ہوچکا ہے. 
انبیاء و رُسل کی تائید و تقویت کے لیے اﷲ تعالیٰ عام مادی ضوابط کو عارضی طور پر معطل کرکے گویا عادی قانون کو توڑ کر اپنی آیات ظاہر کرتا اور معجزات دکھاتا رہا ہے. نبی اکرم کو بھی بے شمار حسی معجزے عطا ہوئے لیکن آپ کا اہم ترین اور عظیم ترین معجزہ معنوی ہے یعنی قرآن حکیم.

یوم آخر وہ دن ہے جس میں تمام انسان دوبارہ زندہ ہوکر عدالت خداوندی میں محاسبے اور جزا و سزا کے فیصلے کے لیے پیش ہوں گے ‘جس کے نتیجے میں یا جنت میں داخلہ ہوگا یا جہنم میں.اس دن اقتدار مطلق اور اختیار کلی صرف اﷲ واحد و قہار کے ہاتھ میں ہوگا. نہ کسی کو کسی جانب سے کوئی مدد مل سکے گی‘ نہ کوئی کچھ دے دلا کر چھوٹ سکے گا‘ نہ کوئی سفارش ہی خدا کی پکڑ سے بچا سکے گی. انبیاء و رُسل‘ صلحاء و اتقیاء‘ ملائکہ و ارواح اور سب سے بڑھ کر نبی اکرم  کے مراتب ِعالیہ کے اظہار و اعلان اور ان کے اعزاز و اکرام کے لیے شفاعت کی اجازت دی جائے گی اور گناہ گار اہل ایمان کے حق میں ان کی شفاعت قبول بھی ہوگی لیکن نہ وہ خدا کی مرضی اور منشاء کے خلاف کچھ کہیں گے اور نہ ہی خدا کی صفت عدل باطل ہوگی.

تقدیر کے خیر و شر کا من جانب اﷲ ہونا یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ قادر مطلق ہے اور مخلوقات میں سے کسی کے بس میں نہیں کہ بغیر اس کی اجازت محض اپنے ارادے سے کچھ کرسکے. لہذا یہاں جو کچھ ظہور پذیر ہوتا ہے ‘خواہ وہ کسی کو بھلا لگے یا بُرا‘ اﷲ کے اذن ہی سے ہوتا ہے. اگر ایسا نہ ہو تو خدا کا عاجز و لاچار ہونا لازم آتا ہے. مزید برآں وہ 
’’عَالِمُ مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ‘‘ بھی ہے. چنانچہ اس پورے سلسلہ کون و مکان میں جو کچھ ماضی میں ہوا‘ یا حال میں ہورہا ہے یا مستقبل میں ہوگا سب اس کے علم قدیم میں پہلے سے موجود ہے‘ اگرچہ اس کا یہ علم جبرِ محض کو مستلزم نہیں. گویا‘ ایمان بالقدر دراصل اﷲ تعالیٰ کی دو صفات یعنی قدرت اور علم کے مضمرات اور مقدرات ہی کو ماننے کا نام ہے.

بعث بعد الموت سے مراد یہ ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ کا حکم ہوگا نفخہ اُولیٰ ہوگا ‘جس کے نتیجے میں کائنات کا پورا موجودہ نظام درہم برہم ہوجائے گا اور سب پر ایک عمومی موت طاری ہوجائے گی. پھر جب اﷲ کا اذن ہوگا نفخہ ثانیہ ہوگا اور سب جی اُٹھیں گے اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر کر تاقیامِ قیامت پیدا ہونے والے آخری انسان تک سب میدان حشر میں جمع کیے جائیں گے! 

(ب) کلمہ طیبہ 
’’لاَاِلٰــہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کے جملہ مضمرات و مقدرات کے فہم و شعور کے ساتھ گواہی دے کہ: 
’’اَشْھَدُ اَنْ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ‘‘ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوائے کوئی معبود نہیں‘ وہ تنہا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد  اس کے بندے اور رسول ہیں.

تشریح: اس شہادت کے جزو اوّل کا مطلب یہ ہے کہ زمین اور آسمان اور جو کچھ آسمان و زمین میں ہے سب کا خالق‘ پروردگار ‘ مالک اور تکوینی و تشریعی حاکم صرف اﷲ ہے. ان میں سے کسی حیثیت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں ہے. گویا 
’’اَلَا لَہُ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُ‘‘ اور ’’لَــہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ‘‘ 

اس حقیقت کو جاننے اور تسلیم کرنے سے لازم آتا ہے کہ:
۱. انسان اﷲ کے سوا کسی کو ولی و کارساز‘ حاجت روا اور مشکل کشا‘ فریادرس اور حامی و ناصر نہ سمجھے‘ کیونکہ کسی دوسرے کے پاس کوئی اقتدار ہے ہی نہیں.

۲. اﷲ کے سوا کسی کو نفع یا نقصان پہنچانے والا نہ سمجھے‘ کسی سے تقویٰ اور خوف نہ کرے‘ کسی پر توکل نہ کرے‘ کسی سے اُمیدیں وابستہ نہ کرے‘ کیونکہ تمام اختیارات کا مالک تنہا وہی ہے.

۳. اﷲ کے سوا کسی سے دُعا نہ مانگے‘ کسی کی پناہ نہ ڈھونڈے‘ کسی کو مدد کے لیے نہ پکارے. کسی کو خدائی انتظامات میں ایسا دخیل اور زور آور بھی نہ سمجھے کہ اس کی سفارش قضائے الٰہی کو ٹال سکتی ہو‘کیونکہ خدا کی سلطنت میں سب بے اختیار رعیت ہیں‘ خواہ فرشتے ہوں یا انبیاء یا اولیاء.

۴. اﷲ کے سوا کسی کے آگے سر نہ جھکائے‘ کسی کی پرستش نہ کرے‘ کسی کو نذرنہ دے اور کسی کے ساتھ وہ معاملہ نہ کرے جو مشرکین اپنے معبودوں کے ساتھ کرتے رہے ہیں‘ کیونکہ تنہا ایک اﷲ ہی عبادت کا مستحق ہے. 
۵. اﷲ کے سوا کسی کو بادشاہ‘ مالک الملک اور مقتدر اعلیٰ تسلیم نہ کرے‘ کسی کو باختیار خود حکم دینے اور منع کرنے کا مجاز نہ سمجھے‘کسی کو مستقل بالذات شارع اور قانون ساز نہ مانے اور اُن تمام اطاعتوں کو قبول کرنے سے انکار کردے جو ایک اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کے تحت اور اُس کے قانون کی پابندی میں نہ ہوں کیونکہ اپنے ملک کا ایک ہی جائز مالک اور اپنی خلق کا ایک ہی جائز حاکم اﷲ ہے. اس کے سوا کسی کو مالکیت اور حاکمیت کا حق نہیں پہنچتا. 
نیز اس عقیدے کو قبول کرنے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ:

۶. انسان اپنی آزادی و خود مختاری سے دست بردار ہوجائے‘ اپنی خواہش نفس کی بندگی چھوڑ دے اور اﷲ کا بندہ بن کر رہے جس کو اس نے الٰہ تسلیم کیا ہے.

۷. اپنے آپ کو کسی چیز کا مالک مختار نہ سمجھے‘ بلکہ ہر چیز حتیٰ کہ اپنی جان‘ اپنے اعضاء اور اپنی ذہنی اور جسمانی قوتوں کو بھی اﷲ کی ملک اور اس کی طرف سے امانت سمجھے.

۸. اپنے آپ کو اﷲ کے سامنے ذمہ دار اور جواب دہ سمجھے اور اپنی قوتوں کے استعمال اور اپنے برتائو اور تصرفات میں ہمیشہ اس حقیقت کو ملحوظ رکھے کہ اُسے قیامت کے روز اﷲ کو ان سب چیزوں کا حساب دینا ہے.

۹. اپنی پسند کا معیار اﷲ کی پسند کو اور اپنی ناپسندیدگی کا معیار اﷲ کی ناپسندیدگی کو بنائے.

۱۰. اﷲ کی رضا اور اس کے قرب کو اپنی تمام سعی و جہد کا مقصود اور اپنی پوری زندگی کا محور ٹھہرائے. گویا اﷲ تعالیٰ ہی اس کا محبوب حقیقی اور مطلوب و مقصود اصلی بن جائے.

۱۱. اپنے لیے اخلاق میں‘ برتائو میں ‘ معاشرت اور تمدن میں‘ معیشت اور سیاست میں‘ غرض زندگی کے ہر معاملے میں صرف اﷲ کی ہدایت کو ہدایت تسلیم کرے اور ہر اُس طریقے اور ضابطے کو رد کردے جو اﷲ کی شریعت کے خلاف ہو.
اس شہادت کے جزوِثانی سے واضح ہوتا ہے کہ سید ِ وُلدِ آدم نبی اکرم  کی دو حیثیتیں ہیں. ایک یہ کہ آپؐ اﷲ کے بندے ہیں اور دوسرے یہ کہ آپؐ اﷲ کے رسول ہیں. پہلی حیثیت کے اعتبار سے آپ عبدیت کاملہ کے مقام پر فائز ہیں اور آپؐ کی اس حیثیت کے علم اور اعتراف سے شرک کی ان جملہ اقسام کا کامل سدّباب ہوجاتا ہے جن میں سابقہ امّتیں اپنے 
اپنے انبیاء و رُسل کے فرطِ احترام‘ شدتِ عقیدت اور غلومحبت کے باعث ملوث ہوگئیں . دوسری حیثیت کے اعتبار سے آپؐ کے فرقِ مبارک پر ختم نبوت اور ختم ِ رسالت کا تاج بھی ہے اور آپؐ کے دستِ مبارک میں شہنشاہِ ارض و سماء کی جانب سے اِتمام نعمت ِ شریعت اور تکمیل دینِ حق کا فرمانِ شاہی بھی. گویا سلطانِ کائنات کی طرف سے رُوئے زمین پر بسنے والے انسانوں کو جس آخری نبیؐ کے ذریعہ سے مستند ہدایت نامہ اور ضابطہ قانون بھیجا گیا اور جس کو اس ضابطہ کے مطابق کام کرکے ایک مکمل نمونہ قائم کردینے پر مامور کردیا گیا‘ وہ محمد  ہیں.

اس امر واقعی کو جاننے اور تسلیم کرنے سے لازم آتا ہے کہ انسان کو جملہ مخلوقات میں شدید ترین محبت آنحضور  ہی سے ہو اور آپؐ کی اطاعت اور اتباع ہی زندگی کا اصل طریق بن جائے. گویا:

۱. انسان ہر اُس تعلیم اور ہر اُس ہدایت کو بے چون و چرا قبول کرے جو محمد سے ثابت ہو. 

۲. اس کو کسی حکم کی تعمیل پر آمادہ کرنے کے لیے اور کسی طریقہ کی پیروی سے روک دینے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہو کہ اس چیز کا حکم یا اس چیز کی ممانعت رسولِ خدا  سے ثابت ہے.

۳. رسولِ خدا کے سوا کسی کی مستقل بالذات پیشوائی و رہنمائی تسلیم نہ کرے. دوسرے انسانوں کی پیروی کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ کے تحت ہو‘ نہ کہ ان سے آزاد.

۴. اپنی زندگی کے ہر معاملے میں خدا کی کتاب اور اُس کے رسولؐ کی سُنّت کو حجت اور سند اور مرجع قرار دے. جو خیال یا عقیدہ یا طریقہ کتاب و سنت کے مطابق ہواسے اختیار کرے‘ جو اس کے خلاف ہو اسے ترک کردے‘ اور جو مسئلہ بھی حل طلب ہو اسے حل کرنے کے لیے اُسی سرچشمہ ہدایت کی طرف رجوع کرے.

۵. تمام عصبیتیں اپنے دل سے نکال دے خواہ وہ شخصی ہوں یا خاندانی ‘یا قبائلی و نسلی‘ یا قومی و وطنی‘ یافرقی و گروہی کسی کی محبت یا عقیدت میں ایسا گرفتار نہ ہو کہ رسولِؐ خدا کے لائے ہوئے حق کی محبت و عقیدت پر وہ غالب آجائے یا اس کی مدِّمقابل بن جائے.

۶. نبی اکرم  کے بعد پیدا ہونے والے کسی شخض کو نہ تو کسی بھی معنی میں نبی یا رسول سمجھے نہ معصوم اور نہ ہی کسی کا یہ منصب اور مرتبہ سمجھے کہ اس کے ماننے پر انسان کا مومن و مسلم سمجھا جانا منحصر ہو.
نیز اسی کے متضمّنات کی حیثیت سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ:

۷. یہ تسلیم کیا جائے کہ آپؐ نے جو نظام قائم فرمایا اور جو خلافتِ راشدہ کے دوران بتمام و کمال قائم رہا‘ وہی ’’دین حق‘ اور ’’نظام اسلامی‘‘ کی صحیح ترین اور واحد مسلّمہ تعبیر ہے. گویا خلافتِ راشدہ فی الواقع ’’خلافت علیٰ منہاج النبوۃ‘‘ تھی اور خلفائے اربعہ یعنی حضرات ابو بکر صدیق‘ عمر فاروق‘ عثمان غنی اور علی حیدر رضی اللہ تعالیٰ عنہم وارضاہم نبی اکرم  کے وہ ’’خلفائے راشدین و مہدیین‘‘ ہیں جن کی سنت آنحضور کے بعد دین میں حجت کا درجہ رکھتی ہے.

۸. یہ یقین رکھا جائے کہ صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین جنہیں آنحضور  کی صحبت اور آپؐ کی تعلیم اور تزکیہ و تربیت سے براہِ راست فیض یاب ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ‘من حیثیت الجماعت پوری اُمت میں افضلیت مطلقہ کے حامل ہیں. حتیٰ کہ کوئی غیرصحابی کسی صحابی سے افضل نہیں ہوسکتا. ان کی محبت جزو ایمان ہے‘ ان کی تعظیم و توقیر دراصل نبی اکرم  کی تعظیم و توقیر ہے اور ان سے بغض و عداوت اور ان کی تحقیر و توہین درحقیقت آنحضور سے بغض و عداوت اور آپؐ کی تحقیر و توہین ہے .ان کے مابین جزوی فضیلت کے بہت سے پہلو ہوسکتے ہیں لیکن فضیلت کلّی متعین طور پر اس طرح ہے کہ تمام صحابہؓ میں ایک اضافی درجۂ فضیلت حاصل ہے حضراتِ اصحاب بیعت رضوان کو‘ پھر ان پر ایک مزید درجہ فضیلت حاصل ہے حضرات اصحاب بدر کو‘ پھر ان پر ایک اور درجہ فضیلت کے حامل ہیں حضرات عشرۂ مبشرہ اور ان میں فضیلت مطلقہ حاصل ہے حضراتِ خلفاء اربعہ کو جن کی افضلیت علیٰ ترتیب الخلافت ہے یعنی افضل البشر بعد الانبیاء بالتحقیق ہیں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ‘ پھر درجہ ہے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا‘ پھر مقام ہے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا اور پھر مرتبہ ہے حضرت علی حیدر رضی اللہ عنہ کا!

مزید برآں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کل کے کل ’’عدول‘‘ ہیں اور ان کے مابین اختلاف و نزاع نفسانیت کی بناء پر نہیں بلکہ خطائے اجتہادی کی بنا پر ہوا. چنانچہ مشاجراتِ صحابہؓ کے باب میں محتاط ترین روش 
تو یہ ہے کہ ’’کَفِّ لِسان‘‘ سے کام لیا جائے اور کامل سکوت اختیار کیا جائے تاہم کوئی حقیقی اور واقعی ضرورت ہی لاحق ہوجائے تو ایک کو ’’مُصیب‘‘ یعنی صحیح مؤقف پر اور دوسرے کو ’’مُخطِی‘‘ یعنی راہِ خطائے اجتہادی پر توقرار دیا جاسکتا ہے لیکن کسی کو بھی سبّ و شتم یا الزام و اتہام کا ہدف بنانا جائز نہیں ہے!
(ج) ہر قسم کے کفر اور جملہ انواع و اقسام شرک اور تمام رذائل و ذمائم اخلاق سے شعوری طور پر اعلانِ براء ت کرے‘ بایں الفاظ کہ: 

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَیْئًا وَّ اَنَا اَعْلَمُ بِہٖ وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لاَ اَعْلَمُ بِہٖ تُبْتُ عَنْہُ وَتَبَرَّاْتُ مِنَ الْکُفْر وَالشِّرْکِ وَالْکِذْبِ وَالْغِیْبَۃِ وَالْبِدْعَۃِ وَالنَّمِیْمَۃِ وَالْفَوَاحِشِ وَالْبُھْتَانِ وَالْمَعَاصِیْ کُلِّھَا. 
’’اے اﷲ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ تیرے ساتھ کسی کو جانتے بوجھتے شریک کروں اور تجھ سے مغفرت کا طلب گار ہوں اگر کبھی بے سمجھے بوجھے ایسا ہوجائے اور میں اعلان براء ت کرتا ہوں ہر نوع کے کفر سے‘ شرک سے‘ جھوٹ سے‘ غیبت سے‘ بدعت سے‘ چغل خوری سے‘ بے حیائی کے کاموں سے‘ بہتان طرازی سے اور جملہ نافرمانیوں سے.‘‘

تشریح : ایمان کی طرح کفر کی بھی دو قسمیں ہیں :ایک کفر حقیقی یا کفر قلبی اور دوسرے کفرِ قانونی باکفرظاہری. کفر حقیقی یا کفر قلبی کا اطلاق اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری و ناشکری اور اس کی ہر معصیت اور ہر نافرمانی پر ہوجاتا ہے لیکن جہاں تک اُس کفر قانونی یا کفر شرعی کا تعلق ہے جس کی بناء پر کسی کی تکفیر کرکے اس کا رشتہ ملتِ اسلامی سے منقطع کردیا جائے تو وہ ضروریات دین میں سے کسی کے انکار ہی سے لازم آتا ہے‘ مجرد بے عملی یا نافرمانی حتیٰ کہ کبائر کے ارتکاب سے بھی لازم نہیں آتا.

اسی طرح شرک کی بھی بے شمار اقسام ہیں. بعض شرک اعتقادی ہیں اور بعض صرف عملی‘ 
بعض جلی ہیں اور بعض خفی. تاہم جملہ انواع و اقسام شرک کا ایک احصاء اور احاطہ اس طرح ممکن ہے کہ ایک شرک فی الذات ہے یعنی یہ کہ کسی کو کسی اعتبار سے خدا کا ہم جنس یا ہم کفو بنادیا جائے جس کا کامل ردہے سورۃ اخلاص میں. دوسرے شرک فی الصفات ہے یعنی کسی کو کسی صفت کے اعتبار سے خدا کا مثل یا مثیل بنادیا جائے جس کا نہایت مکمل سدباب ہے آیت الکرسی میں. اور تیسرے شرک فی الحقوق ہے جس کی جامع ترین تعبیر شرک فی العبادت ہے جس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کوئی خدا سے بڑھ کر یا اُس جتنا محبوب و مطلوب ہوجائے اور یہ بھی کہ کسی کو علی‘الاطلاق مطاع مان لیا جائے یعنی اس کی اطاعت خدا کی اطاعت سے آزاد تسلیم کرلی جائے‘ اور یہ بھی کہ عام مادی قانون اور ظاہری قواعد و ضوابط کے دائرے سے باہر کسی سے استعانت اور استمداد و استغاثہ کیا جائے یا اس سے دُعا کی جائے اور اسے پکارا جائے (عام مادی قوانین کے تحت بھی اگر کسی کے بارے میں یہ خیال ہو کہ محض اپنی قوت اور ارادے سے کسی کو نفع یا ضرر پہنچا سکتا ہے تو یہ شرک فی الصفات کی ایک قسم یعنی شرک فی القدرت اور شرک فی التصرف ہوگا). مزید برآں شرک کی اسی نوع کے ذیل میں آتے ہیں ریا اور سمعہ بھی اور کسی کے لیے کسی بھی نیت سے ان مراسم عبودیت کو بجالانا بھی جو صرف اﷲ کے لیے خاص ہیں جیسے سجدہ اور نذر!
رذائل و ذمائم اخلاق کی مکمل فہرست دینا ممکن نہیں ‘تاہم اگر انسان ان سے اجتناب کرے جو اُوپر بیان ہوئے تو دوسروں کا سدباب خود بخود ہوجائے گا.

(د)سابقہ زندگی کے تمام گناہوں پر نہایت الحاح و زاری سے بارگاہِ خداوندی میں مغفرت کا طلب گار ہو اور آئندہ کے لیے کامل خلوص و اخلاص کے ساتھ توبہ کرے‘ ان الفاظ کے ساتھ کہ:
اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّی مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُــہٗ عَمَدًا اَوْ خَطَاً سِرًّا اَوْ عَلَانِیَۃً وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہِ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِیْ اَعْلَمُ وَمِنَ الذَّ نْبِ الَّذِیْ لَا اَعْلَمُ اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ وَسَتَّارُ العُیُوْبِ وَغَفَّارُ الذُّنُوْبِ

’’میں اللہ سے معافی کا خواستگار ہوں تمام گناہوں پر خواہ میں نے جان بوجھ کر کیے ہوں یا غیر ارادی طور پر‘ اور خواہ چھپ چھپا کر کیے ہوں خواہ علانیہ طور پر‘ اور خواہ وہ میرے علم میں ہوں خواہ میرے علم میں نہ ہوں. اے اللہ تو ہی تمام غیبوں کا جاننے والا اور تمام عیبوں کی پردہ پوشی کرنے والا اور تمام گناہوں کی بخشش فرمانے والا ہے!‘‘

تشریح: توبہ صرف زبان سے کلماتِ توبہ کے ادا کر دینے یا ان کے ورد یا وظیفہ بنا لینے کا نام نہیں ہے بلکہ گناہ پر حقیقی ندامت اور واقعی پشیمانی اور معصیت سے کلی اجتناب کے عزمِ مصمّم کے ساتھ بارگاہِ خداوندی میں رجوع کرنے اور گناہ و معصیت کو بالفعل ترک کر دینے کا نام ہے. یہ تین شرائط ان کوتاہیوں کے ضمن میں کافی ہیں جو حقوق اللہ کے باب میں ہوں. حقوق العباد سے تعلق رکھنے والے معاصی کے لیے ایک چوتھی اضافی شرط یہ ہے کہ جس کسی پر زیادتی ہوئی ہو اس کی تلافی کی جائے یا اس سے معافی حاصل کی جائے.

بنا بریں توبہ کی صحت کے لیے لازم ہے کہ جو شخص تنظیمِ اسلامی میں شمولیت کا خواہاں ہو وہ:

۱ . جملہ فرائض دینی کی پابندی اختیار کرے اور تمام کبائر سے فی الفور مجتنب ہوجائے‘ بالخصوص ارکان اسلام کی پوری پابندی کرے. چنانچہ نماز قائم کرے (مردوں کے لیے التزام جماعت بھی ضروری ہے)‘ رمضان المبارک کے روزے رکھے‘ صاحب ِنصاب ہو تو باقاعدہ حساب کے ساتھ پوری زکوٰۃ ادا کرے اور صاحب ِاستطاعت ہو اور تاحال حج بیت اﷲ نہ کیا ہو تو فوراً نیت کرے اور جلد از جلد فریضہ حج ادا کرے.

۲. سنت رسول  کا زیادہ سے زیادہ اتباع کرے اور ایسی تمام بدعات اور رسومات کو ترک کردے جن کا ثبوت قرونِ مشہود لہا بالخیر میں نہ ملتا ہو.

تشریح: ان بدعات و رسومات کا زیادہ زور شادی بیاہ‘ پیدائش ‘ عقیقہ‘ ختنہ‘ سالگرہ‘ فوتیدگی اور تیوہاروں کے مواقع پر ہوتا ہے. ان سب میں لازم ہوگا کہ اپنے معاملات کو زیادہ سے زیادہ قرونِ اولیٰ کے مطابق بنایا جائے اور بعد کے اضافوں کو ترک کردیا جائے.

۳. اپنی معاشرت میں جملہ اسلامی احکام کی پابندی کرے خصوصاً ستر اور حجاب کے شرعی احکام پر عمل پیرا ہو. 
۴. اگر کوئی ایسا ذریعہ معاش رکھتا ہو جو معصیت فاحشہ کے ذیل میں آتا ہو جیسے چوری‘ ڈاکہ‘ سود‘ زنا‘ شراب‘ رقص و سرود‘ شہادتِ زُور‘ رشوت‘ خیانت‘ جوا اور سٹہ وغیرہ تو اسے ترک کردے.

تشریح:اس بات کا تو بظاہر احوال کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ وہ لوگ تنظیم اسلامی میں شمولیت کے خواہاں ہوں جن کی معاش چوری یا ڈاکہ‘ شراب کی تیاری یا اس کی فروخت وغیرہ‘ عصمت فروشی یا رقص و سرود ایسے قبیح کاموں سے متعلق ہوں ‘تاہم اگر اﷲ تعالیٰ ایسے کسی کاروبار سے متعلق کسی فرد کو اصلاح کی توفیق دے تو یہ بھی اُس کی رحمت سے بعید نہیں. بہرصورت ان تمام کاموں کی حرمت اور قباحت و شناعت ہمارے معاشرے میں معلوم و معروف ہے البتہ بعض حرام چیزیں کچھ اس طرح ہمارے معاشرے میں جاری و ساری ہوگئی ہیں کہ عام لوگ یا تو ان کی قباحت سے ہی آگاہ نہیں رہے یا انہوں نے کسی مجبوری کے عذر کی بنیاد پر اُن کو اپنے لیے مباح کرلیا ہے. ان میں سے مکروہ ترین چیز ہے سُود جس سے باز نہ آنے پر قرآن حکیم اﷲ اور اس کے رسول  کی جانب سے اعلان جنگ کی وعید سناتا ہے اور دوسرے نمبر پر ہے رشوت اور سرکاری حیثیت اور اختیار کا ناجائز استعمال اور ان پر مستزاد ہیں بیع و شراکی بعض ناجائز صورتیں اور سرکاری محاصل (انکم ٹیکس ‘ کسٹم ڈیوٹی وغیرہ) سے بچنے کے لیے اِخفاء و کذب بیانی.

ہمیں خوب اندازہ ہے کہ اس وقت جو خداناشناس اور عاقبت نا آشنا نظام پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے اور پورا انسانی معاشرہ بحیثیت مجموعی جس فساد اخلاقی میں مبتلا ہے اس کے پیش نظر ان تمام چیزوں سے کامل اجتناب نہایت مشکل اور صبر آزما کام ہے لیکن تنظیم اسلامی جن مقاصد کے لیے قائم کی جارہی ہے اس کے پیش نظر لازم ہے کہ اس سے عملی وابستگی کے لیے وہی لوگ آگے بڑھیں جو رخصتوں اور حیلوں پر عمل کرنے کے بجائے عزیمت اور صبر و توکل کو اپنا شعار بنائیں اور ہر اس ذریعہ معاش کو ترک کرنے کی کوشش کریں جس میں حرام کی آمیزش ہو. اس معاملے میں سردست حسب ذیل تصریحات پر اکتفا کی جاتی ہے:

(i) سود لینا اور دینا قطعاً حرام ہیں لہذا بنکوں یا دیگر اداروں سے نہ کبھی کوئی رقم کسی بھی غرض کے لیے سود پر قرض لینا جائز ہے نہ سیونگ اکاؤنٹ یا فکسڈ ڈیپازٹ یا نقد رقم پر معینہ منافع کی کسی بھی دوسری صورت میں سرمایہ لگانا درست ہے.چنانچہ بنکوں سے صرف عام سروسز جیسے ترسیل 
زر یا لاکرز سے انتفاع یا زیادہ سے زیادہ کرنٹ اکاؤنٹ رکھنے کی سہولت حاصل کی جاسکتی ہے.

(ii) کسی ایسے کاروباری ادارے کی ملازمت جائز نہیں ہے جس میں سود کو غالب عنصر کی حیثیت حاصل ہو ‘جیسے بنک اور انشورنس کمپنیاں.

(iii) رشوت لینا اور دینا دونوں حرام ہیں. البتہ کسی ایسی صورت میں کہ کسی ظالم اہل کار یا صاحب اختیار کو اپنا جائز حق وصول کرنے کے لیے کچھ مجبوراً دینا پڑے تو اس کا شمار استحصال بالجبر میں ہوگا‘ رشوت میں نہیں.البتہ یہ صرف اُسی صورت میں ہوگا کہ نہ کوئی ناجائز انتفاع مطلوب ہو‘ نہ کسی سرکاری قانون اور پابندی سے بچنا مقصود ہو اور نہ ہی کسی اور کے جائز حقوق پر زد پڑتی ہو.

(iv) سرکاری محاصل کے ضمن میں جتنی رعائتیں مروجہ قانون کے اندر اندر ممکن ہوں ان سے بڑھ کر کسی ایسی صورت کو اختیار کرنا درست نہیں ہے جس میں کذب‘ فریب اور شہادت زُور شامل ہوں.

(v) کاروبار کی مختلف صورتوں میں سے بھی جن جن میں بیع فاسد یا جوئے یا سٹے یا احتکار وغیرہ کا عنصر شامل ہو اس سے بچنا لازم ہے.

(vi) اگر اس کے قبضے میں ایسا مال یا جائیداد ہو جو حرام طریقے سے آیا ہو یا جس میں حق داروں کے تلف کردہ حقوق شامل ہوں تو اس سے دستبردار ہوجائے اور اہل حقوق کو ان کے حق پہنچا دے. البتہ یہ عمل صرف اس صورت میں کرنا لازم ہے جب کہ حق دار بھی معلوم ہوں اور وہ مال بھی معلوم و متعین ہو جس میں ان کا حق تلف ہوا ہے. بصورت دیگر توبہ اور آئندہ کے لیے طرز عمل کی اصلاح کافی ہوگی.

(ھ)گہرے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ اعلان کرے کہ وہ ہر طرف سے یکسو ہو کر صرف اللہ کا ہو کر رہے گا‘ رضائے الٰہی ہی اس کا اصل مقصود و مطلوب ہو گی اور نجات و فلاحِ اُخروی کا حصول ہی اس کا اصل نصبُ العین ہو گا اور جس طرح اس کی نماز اور قربانی صرف اللہ کے لیے ہو گی اسی طرح اس کے جسم و جان‘ مال و منال حتی کہ زندگی اور موت سب اللہ ہی کے لیے ہوں گے. یعنی: 

اِنِّی وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا ا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اور اِنَّ صَلاَتِی وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَـــہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ 
تشریح: ہر ذی شعور مسلمان کا اوّلین فرض یہ ہے کہ وہ اللہ کی محبت سے سرشار ہو کر اپنی پوری زندگی اس کی کامل اطاعت میں دے دے (جو لازماً اطاعت ِرسولؐ ہی کے واسطے سے ہو گی)! اسی رویے کا نام عبادتِ رب ہے جو ہر انسان سے اللہ کا پہلا مطالبہ ہے اور جس کی طرف نوعِ انسانی کو دعوت دینے کے لیے تمام انبیاء و رسل مبعوث ہوئے اور جو ازروئے قرآن جنوں اور انسانوں کا عین مقصد تخلیق ہے. اس کے ساتھ ہی اس پر لازم ہے کہ اپنی صحت و قوت‘ فرصت و فراغت‘ صلاحیت و استعداد‘ مال و دولت‘ اور وسائل و ذرائع کا زیادہ سے زیادہ حصہ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘ احقاقِ حق اور ابطال باطل‘ دعوت الی اللہ اور تبلیغ دین‘ نصرتِ خدا و رسولؐ اور حمایت و اقامتِ دین‘ اور شہادتِ حق علی الناس اور اظہارِ دین حق علی الدین کلّہٖ کے لیے وقف کر دے اور اس کے لیے محنت و مشقت‘ انفاق و ایثار‘ ترک و اختیار‘ ابتلا و آزمائش‘ صبر و مصابرت‘ استقامت و مقاومت‘ الغرض ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ کے جملہ مراحل کے لیے مقدور بھر ہمت و عزیمت کی راہ اختیار کرے. یہ تمام فرائض ہر مسلمان پر حسبِ صلاحیت و استعداد اور مطابقِ وسعت و قوت عائد ہوتے ہیں اور ان کی انجام دہی میں ہی بندے کی وفاداری کا اصل امتحان ہے!

(و)خدا کو حاضر و ناظر جانتے ہوئے اور 
’’ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا ‘‘ کے پیش نظر پورے احساسِ مسئولیت کے ساتھ عہد کرے کہ اپنے فرائضِ دینی کی انجام دہی کے لیے وہ نبی اکرم  کے فرمان مبارک ’’اَنَا اٰمُرُکُمْ بِخَمْسٍ: بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْل اللّٰہِ‘‘ کے مطابق تنظیم اسلامی کے نظم کی پوری پابندی کرے گا.

تشریح:یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ تنظیم اسلامی نہ عام معنی میں دنیوی یا سیاسی جماعت 
ہے نہ محدود مفہوم میں مذہبی تنظیم بلکہ یہ ایک ہمہ گیر ’’دینی جماعت‘‘ ہے .لہذا اگرچہ یہ خیال کرنا تو غلطی ہی نہیں عظیم گمراہی ہو گی کہ یہ اُس ’’الجماعت‘‘ کے حکم میں ہے جس میں شمولیت اسلام میں داخلے اور جس سے علیحدگی کفر کے مترادف ہے اور جس کے بارے میں نبی اکرم  نے فرمایا ہے کہ ’’مَنْ شَدَّ شُذَّ فِی النَّارِ ‘‘ یعنی جو اس سے علیحدہ ہو گا وہ علیحدہ ہی جہنم میں جھونک دیا جائے گاتاہم اس کے نظم کو عام معاشرتی و ثقافتی انجمنوں یا طبقاتی و پیشہ ورانہ تنظیموں یا سیاسی و قومی جماعتوں کے قواعد و ضوابط کی پابندی پر بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کی ’’اطاعت فی المعروف‘‘’’سمع و طاعت‘‘ کے خالص اسلامی اور ٹھیٹھ دینی اُصول کے مطابق تمام شرکائے تنظیم پر واجب ہے. 

وَعَنْْعُبادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ:
بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللہِ 
عَلَی السَّمْعِ وَ الطَّاعَۃِ
فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ
وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ
وَعَلیٰ اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا
وَاَنْ لَّانُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہ‘
اِلَّا اَنْ تَرَوْا کُفْراً بَوَاحاًعِنْدَکُمْ مِّنَ اللہِ فِیْہِ بُرْھَانٌ،
وَعَلیٰ اَنْ نَقُوْلَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا،لَا نَخَافُ فِی اللہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ 
(بخاری و مسلم)