انسانی شخصیت کے دو رُخ ہیں: ایک علم‘ دوسرے عمل.اسلام میں علم صحیح کا مظہراَتم ’’ایمان‘‘ ہے جبکہ عمل صحیح کی اساس ’’ تصور فرائض‘‘ پر قائم ہے.ایمان انسان کو علم حقیقت ہی عطا نہیں فرماتا ‘صحیح محرک عمل بھی دیتا ہے. اس اعتبار سے اوّلین اہمیت اسی کی ہے. چنانچہ ایمان کی ماہیت‘ اس کی تفاصیل‘ اس کے درجات‘ اس کے حصول کے ذرائع اور اس کے لوازم و ثمرات اہم ترین موضوعات ہیں لیکن موجودہ محاضرات میں اصل بحث ان پر نہیں بلکہ ’’تصورِ فرائض دینی‘‘ پر ہے! 

تین اساسی فرائض
ایک مسلمان کے اساسی دینی فرائض تین ہیں:

(۱) وہ خود صحیح معنی میں اللہ کا بندہ بنے!

اس کے لیے چار اساسی اصطلاحات ہیں: اسلام‘ اطاعت خدا و رسولؐ ‘ تقویٰ اور عبادت.
یہ کیفیات انسان میں ہمہ تن‘ ہمہ وقت اور ہمہ وجوہ مطلوب ہیں نہ کہ جزوقتی اِلّایہ کہ کبھی غفلت کے باعث یہ جذبات کی رَو میں بہہ کر یا ماحول کے اثرات سے مغلوب ہو کر کوئی غلط حرکت سرزد ہو جائے‘ تو اس پر فوری توبہ اللہ کے یہاں لازماًمقبول ہو گی(النساء: ۱۷).اس کے برعکس اگر جان بوجھ کرکوئی ایک ’’معصیت‘‘ بھی مستقل طور پر اختیار کر لی گئی اور اس پر اصرار ہوا تو 
اس سے نہ صرف تمام نیکیوں کے ضائع چلے جانے یعنی حبط اعمال کا اندیشہ ہے‘ بلکہ اس کابھی خطرہ ہے کہ ’’المعاصی بریدُ الکفر‘‘ کے مطابق ایمان بالکل زائل ہو جائے اور انسان خُلود فی النّارکا مستحق ہو جائے‘ اِلَّا یہ کہ حقیقی اور واقعی ’’اضطرار‘‘ موجود ہو!! 

(۲) دوسروں کو حتی المقدور اسلام کی تبلیغ کرے اور دین کی دعوت دے!
اس کے لیے یوں تو بے شمار اصطلاحات ہیں‘ جیسے انذار‘ تبشیر‘ تذکیر‘ وعظ‘ نصیحت‘ وصیت‘ تعلیم‘ تبیین‘ تلقین‘ وغیرہ‘لیکن اہم تر اصطلاحات چار ہی ہیں: (۱)تبلیغ‘ (۲)دعوت‘ 

(۳) امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ (۴) شہادت علی الناس .
یہ خود انسان کی اپنی شرافت و مروت کا تقاضا بھی ہے اور ابنائے نوع کی ہمدردی و خیر خواہی کا تقاضا بھی ‘ لیکن سب سے بڑھ کر یہ سید المرسلین محمد رسول اللہ  پر ختم نبوت کا منطقی نتیجہ ہے کہ اب تا قیامِ قیامت تمام انسانوں پر اللہ اور اس کے رسولؐ کی جانب سے اتمامِ حجت یعنی ’’شہادت علی الناس‘‘ کی ذمہ داری بحیثیت مجموعی اُمت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسّلام کے کندھوں پر ہے!

(۳) وہ اللہ کے کلمے کی سربلندی اور اُس کے دین حق کے بالفعل قیام اور غلبے کے لیے تن‘ من ‘ دھن سے کوشاں ہو.

اس کے لیے قرآن حکیم کی پانچ اساسی اصطلاحات ہیں: تکبیر رب‘ اقامت دین‘ 
اظہار دینِ الحقّ علی الدّین کُلّہٖ ’’وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ‘‘ اور ’’ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ‘‘.
حدیث ِنبویؐ میں ایک چھٹی اصطلاح وارد ہوئی ہے: ’’لتکون کلمۃُ اللّٰہ ھیَ الْعُلْیَا‘‘ اور 
تین عام فہم تعبیرات ہیں: قیام حکومت الٰہیہ‘ نفاذ نظام اسلامی‘ اور اسلامی انقلاب!
متذکرہ بالا تین فرائض کی باہمی نسبت اور اُن کا ایمان اور ارکان اسلام کے ساتھ ربط و تعلق ایک ایسی سہ منزلہ عمارت کی مثال سے خوب واضح ہو جاتا ہے جس کی:

(i) ایک زیر زمین بنیاد ہے جو نظر نہیں آتی لیکن پوری عمارت کی مضبوطی اور پائیداری کا دارومدار اسی پر ہے.
(ii) اسی بنیاد کا ایک حصہ زمین سے باہر ہے جو نظر آتا ہے ‘جسے عرفِ عام میں ’’کرسی‘‘ اور انگریزی میں 
Plinth کہتے ہیں.
(iii) پہلی منزل پر صرف چار ستون ہیں‘ دیواریں تعمیر نہیں کی گئیں. ظاہر ہے کہ اُوپر کی پوری تعمیر کا وزن ان ہی کے ذریعے بنیاد تک پہنچتا ہے. 
(iv) ان ستونوں پر پہلی چھت قائم ہے . 
(v) دوسری چھت بھی اگرچہ ان ستونوں ہی پر قائم ہے لیکن دیواروں کی تعمیر کے باعث ستون نظر نہیں آتے. 
(vi) اس کے اُوپر تیسری اور آخری چھت ہے اور اُس کا بھی معاملہ یہی ہے!

اس مثال میں: (ا)زیر زمین بنیاد ایمان کا 
’’تصدیقٌ بالقلب‘‘ والا حصہ یعنی یقین قلبی ہے! (ب)بنیاد کا نظر آنے والا حصہ ’’اقرارٌ باللّسان‘‘ یعنی کلمہ شہادت! (ج)چار ستون چار عبادات کی نمائندگی کرتے ہیں یعنی نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج. (د)پہلی چھت اسلام‘ اطاعت‘ تقویٰ اور عبادت کی نمائندگی کرتی ہے. (ھ )دوسری چھت تبلیغ‘ دعوت‘ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور شہادت علی الناس سے عبارت ہے . (و) تیسری اور آخری چھت تکبیر رب‘ اقامت دین‘ اظہار دین‘ اعلاء کلمۃ اللہ یا قیام حکومت الٰہیہ کی مظہر ہے! واللہ اعلم!!

تین لوازم

ان تین اساسی فرائض سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تین لوازم لا بُدَّ منہ ہیں:

(۱) دوام’ ’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ جس کا ظہور:
فریضہ اوّل کے ضمن میں (i)نفس امّارہ (ii)شیطان لعین اور اس کی ذریت صلبی و معنوی (iii)بگڑے ہوئے معاشرے کے غلط رجحانات اور دباؤ کے خلاف جدوجہد اور زور لگانے کی صورت میں ہوتا ہے اور حدیث نبویؐ کی رُو سے یہی افضل الجہاد ہے.

فریضہ ثانی کے ضمن میں دعوت و تبلیغ کے لیے جان و مال کھپانے کی صورت میں ہوتا ہے.
فریضہ ٔثالث کے ضمن میں سر دھڑ کی بازی لگانے اورجان ہتھیلی پر رکھ کر باطل کی قوتوں سے ’’بالفعل‘‘ اور’ ’بالید‘‘ پنجہ آزمائی کی صورت میںہوتا ہے جس کے لیے تن ‘ من ‘دھن لگا دینے کا عزم‘ حتیٰ کہ جان دے دینے کی ’’آرزو‘‘ کا ہونا لازمی ہے!

گویا جہاد کی پہلی منزل مجاہدہ مع النفس اور آخری منزل قتال فی سبیل اللہ ہے! 

واضح رہے کہ اسی کا ’’منفی پہلو‘‘ ہجرت ہے‘ چنانچہ اس کی بھی پہلی منزل ’’اَنْ تھْجُرَ مَا کَرِہَ رَبُّکَ‘‘ ہے اور آخری یہ کہ اقامت دین کی جدوجہد میں وقت آنے پر گھر بار‘ مال و منال اور اہل و عیال کو چھوڑ کر نکل جایا جائے!

جہاد کی پہلی دو منزلوں کے لیے اصل آلہ و ہتھیار قرآن مجید ہے یعنی ’’جہاد بالقرآن‘‘. چنانچہ مجاہدہ مع النفس کا مؤثر ترین ذریعہ ہے قرآن کے ساتھ قیام اللیل یا تہجد جبکہ دعوت و تبلیغ کا پورا عمل بھی قرآن حکیم ہی کی اساس پر اُسی کے ذریعے ہونا چاہیے!!
تیسری اور آخری منزل پر عہد حاضر میں ’’جہاد بالید‘‘ کی موزوں ترین صورت فواحش و منکرات کے خلاف پُرامن مظاہرے ہیں‘ لیکن اس میں نوبت فقہاء کرام کی طے کردہ شرائط کے تحت قتال یعنی جہادبالسیف تک بھی آسکتی ہے.

(۲) لزومِ اجتماعیت‘ جس کا تقاضا:
فریضہ ٔاوّل کے ضمن میں صرف صحبت صالح (بفحوائے: 
’’ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ ‘‘ ) سے پورا ہو سکتا ہے.

اسی طرح فریضہ ٔ ثانی کے ضمن میں درس گاہوں‘ اداروں‘ انجمنوں اور سوسائٹیوں سے پورا ہوسکتا ہے!

لیکن فریضہ ٔ ثالث کے ضمن میں ’’سمع و طاعت فی المعروف‘‘ کے ٹھیٹھ اسلامی اور عسکری اصول پر مبنی جماعت کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا ‘اور یہی مراد ہے آنحضور  کے ان الفاظ مبارکہ سے کہ: ’’آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ: بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ.‘‘ (رواہ احمد والترمذی عن الحارث الاشعریؓ )

(۳) بیعت‘ جو :
پہلے دو فرائض کے ضمن میں ’’بیعت ِسلوک و ارشاد ‘‘کی صورت میں کفایت کرتی ہے‘ لیکن: 
فریضہ ٔ ثالث کے ضمن میں’ ’بیعت سمع و طاعت فی المعروف‘‘ کی صورت لازمی و لابدی ہے! چنانچہ اسی کی جانب اشارہ ہے مسلمؒ کی روایت (عن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) میں جس میں آنحضور 
کے یہ الفاظ مبارکہ وارد ہوئے ہیں کہ ’’مَنْ مَّاتَ وَلَیْسَ فِیْ عُنُقہٖ بَیْعَۃٌ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً‘‘ اس لیے کہ نارمل حالات میں تو دو ہی صورتیں ممکن ہیں:

(i) اگر کم سے کم شرائط و معیارات پر اُترنے والا صحیح اسلامی نظام حکومت قائم ہے تو اُس کے سربراہ سے بیعت سمع و طاعت فی المعروف ہوگی اور (ii)اگر ایسا نہیں ہے تو صحیح اسلامی حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے والی جماعت کے امیر کے ہاتھ پر بیعت سمع و طاعت فی المعروف ہوگی. تیسری ممکنہ صورت صرف ایسے عظیم اور شدید فتنے ہی کی ہو سکتی ہے جس میں حدیث نبویؐ میں وارد الفاظ کے مطابق سویا ہوا شخص جاگنے والے سے بہتر ہو ‘ بیٹھا ہوا شخص کھڑے ہونے والے سے بہتر ہو اور کھڑا رہنے والا شخص چلنے والے سے بہتر ہو! اَعَاذَنَا اللّٰہ مِنْ ذٰلِک! 

نتیجہ

(۱) انجمن خدام القرآن کا مقصد ہے جہاد بالقرآن. یہی وجہ ہے کہ ۱۹۷۲ ء میں اس کے قیام کے وقت اس کے جو ’’اَغراض و مقاصد‘‘ معین ہوئے ‘وہ یہ تھے: (i) عربی زبان کی تعلیم و ترویج (ii) قرآن مجید کے مطالعہ کی عام ترغیب و تشویق (iii)علوم قرآنی کی عمومی نشر و اشاعت (iv)ایسے نوجوانوں کی مناسب تعلیم و تربیت جو تعلیم و تعلّم قرآن کو مقصد زندگی بنا لیں اور (v)ایک ایسی قرآن اکیڈمی کا قیام جو قرآن حکیم کے فلسفہ و حکمت کو وقت کی اعلیٰ ترین علمی سطح پر پیش کر سکے.

(۲) تنظیم اسلامی ہے جملہ دینی فرائض کی انجام دہی بالخصوص اقامت دین یا اسلامی انقلاب کے لیے ’’بیعت ہجرت و جہاد فی سبیل اللہ و سمع و طاعت فی المعروف‘ ‘پر مبنی خالص دینی جماعت!!