ہماری دینی تعلیمات میں توبہ کا موضوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے. واقعہ یہ ہے کہ توبہ یعنی اپنے گناہوں پر نادم ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا ایک ایسا ’’عُروۃ الوُثقٰی‘‘ ہے جو ایک خطاکار مسلمان کو مایوسی کے اتھاہ سمندر میں ڈوبنے سے بچاتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کے دامن ِرحمت سے وابستہ کر دیتا ہے. 

بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ علیہ نے اپنی حیاتِ مستعار میں توبہ کے موضوع پر متعدد خطابات فرمائے‘ جن میں انفرادی اور اجتماعی توبہ کو اپنا موضوعِ سخن بنایا. ڈاکٹر صاحب موصوف جب بھی پاکستان اور اہل ِپاکستان کے حالات و مسائل اور مصائب و مشکلات کا جائزہ لیتے تو فرماتے کہ ہمارے بچاؤ کا واحدراستہ اللہ کی جناب میں سچی توبہ اور اپنے اعمال کی اصلاح ہے. اور سچی توبہ یہ ہوگی کہ ہم اپنے سابقہ گناہوں اور کوتاہیوں پر ندامت کے ساتھ استغفار کریں اور ہم میں سے ہر فرد طے کرے کہ وہ اپنی ذات اور گھر بار سے ہر اُس چیز کو نکال پھینکے گا جو اللہ اور اُس کے رسول کے حکم کے مطابق نہ ہو گی اور آئندہ پوری زندگی ہر معاملے میں اللہ اور رسول کی اطاعت کو اپنا شعار بنائے گا. مزید برآں ملک ِخداداد پاکستان میں اللہ کے دین کے قیام اور شریعت کے نفاذ کے لیے اجتماعی جدوجہد کرے گا تاکہ پاکستان ایک اسلامی ‘ فلاحی‘ مثالی ریاست بن جائے. یہی وہ واحد راستہ ہے جس کو اختیار کرنے سے رب کی روٹھی ہوئی رحمت پھر سے ہم پر سایہ فگن ہو سکتی ہے اور ہم اُس کی نصرت و حمایت کے مستحق بن سکتے ہیں.

زیر نظر کتابچہ محترم ڈاکٹر صاحبؒ کے دو خطابات پر مشتمل ہے‘ جن کے مابین چھ سال کا فصل ہے. پہلا خطاب بعنوان ’’توبہ کی عظمت اور اس کی تاثیر‘‘ آنجناب نے ۴/اپریل ۲۰۰۳ء کو مسجد جامع القرآن کراچی میں ارشاد فرمایا تھا‘ جبکہ دوسرا خطاب بعنوان ’’توبہ کی اہمیت اور موجودہ حالات میں کرنے کا اصل کام‘‘ ۲۵/جنوری۲۰۰۹ء کو بندھن شادی ہال ‘ گڑھی شاہو لاہور میں ہوا تھا. محترم ڈاکٹرصاحب مرحوم و مغفور کی خواہش تھی کہ ان دونوں خطابات کو یکجا کر کے کتابی شکل میں شائع کیا جائے. قرآن اکیڈمی لاہور کے شعبہ مطبوعات کے ادارتی معاون حافظ محمد زاہد نے دونوں خطابات کو ترتیب و تسوید کے بعد یکجاکر کے ایک جامع مضمون کی صورت دی ہے‘ جس پر نظر ثانی کی سعادت راقم الحروف کے حصے میں آئی ہے. 

خالد محمود خضر
مدیر شعبہ مطبوعات