اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا ؕ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّکَفِّرَ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یُدۡخِلَکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ یَوۡمَ لَا یُخۡزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ ۚ نُوۡرُہُمۡ یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا وَ اغۡفِرۡ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۸﴾ (التحریم)
وَ تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۳۱﴾ (النور)
قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ ﴿۵۳﴾ (الزمر)
اِلَّا مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمۡ حَسَنٰتٍ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۷۰﴾ (الفرقان)


زیر گفتگو موضوع ’’توبہ کی عظمت و تاثیر اور موجودہ حالات میں کرنے کا اصل کام‘‘ قدرے طوالت طلب ہے ‘اس لیے کہ اس میں دو چیزیں جمع کر دی گئی ہیں. موضوع کا پہلا حصہ ’’توبہ کی عظمت و تاثیر‘‘ اپنی جگہ پر نہایت اہم اور ہمارے دین کے اساسی فکر کا بہت اہم موضوع ہے. میری گفتگو کا دوسرا حصہ ’’موجودہ حالات میں کرنے کا اصل کام‘‘ بذاتِ خود ایک مکمل موضوع ہے ‘بایں معنی کہ پہلے دیکھا جائے کہ موجودہ حالات کیا ہیں‘ پھر آیا اس میں اگر کوئی خرابی ہے تو اس کے اسباب کیا ہیں؟ اس کی تشخیص کیا ہے اور پھر اس کا علاج کیا ہے! ظاہر ہے کہ عنوان کے ان دونوں حصوں کا حق مجھے کسی نہ کسی درجے میں ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے. 

میری اس گفتگو کا پس منظر یہ ہے کہ میرے گزشتہ کئی خطابات کا لب لباب موجودہ عالمی حالات‘ اُمت مسلمہ کودرپیش خطرات اور ان کے ضمن میں احادیث نبویہ میں موجود پیشین گوئیاں تھیں. ان حالات و واقعات کو میں برس ہا برس سے بیان کر رہا ہوں. احادیث ِ نبویہؐ میں ان کے متعلق کافی معلومات موجود ہیں‘ چنانچہ علمی اعتبار سے یہ ایک معلوم چیز تھی‘ لیکن اب موجودہ دور میں یہ تمام حالات اور پیشین گوئیاں چشم سر کے سامنے درخشاں حقیقت بن کر آ رہی ہیں. ان موضوعات پر تو گفتگو ہوتی رہی ہے ‘لیکن ہر مرتبہ گفتگو کا اختتام اس پر ہوا کہ اس کا علاج کیا ہے ؟ اس سے بچنے کا راستہ کون سا ہے؟ اور عموماً ان دونوں کا جواب ایک ہی لفظ سے دیا جاتا رہا ہے اور وہ ہے ’’توبہ‘‘. پھریہ کہ بنیادی طور پر توبہ کی دو قسمیں ہیں :انفرادی توبہ اور اجتماعی توبہ.انفرادی توبہ سے انسان اپنے گناہوں کی سزا سے بچ جاتا ہے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ اُسے اپنے عفو ودرگزر ‘ اپنی رحمت و مغفرت اور اپنے فضل کا مستحق قرار دیتا ہے. لیکن یہ بات یاد رکھیے کہ دنیا میں کسی قوم کی حالت اُس وقت تک نہیں بدلتی جب تک اجتماعی توبہ نہ ہو. اس اجتماعی توبہ کے ضمن میںمختصراً تومیں نے کچھ باتیں اپنے پچھلے خطابات میں عرض کی ہیں‘ لیکن اس کے بارے میں تفصیل سے گفتگو نہیں ہو سکی. آج میں نے طے کیا ہے کہ موجودہ حالات کے پیش نظر ’’توبہ‘‘ کے موضوع پر مفصل گفتگو کروں.

اس وقت عالم اسلام کی صورت حال یہ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم شیرون کہہ چکا ہے کہ عنقریب عراق پر ہمارا قبضہ ہو گا اور یہ بات بھی اب واضح طو رپر سامنے آ چکی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے پیش نظر مشرق وسطیٰ کا پورا نقشہ بدل دینے کا پروگرام ہے. مشرق وسطیٰ کے یہ ممالک پچھلی صدی میں وجود میں آئے تھے . بیسویں صدی میں پہلی جنگ عظیم سے پہلے یہ پورے کا پورا علاقہ سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں تھا. پورا شمالی افریقہ، پورا مغربی ایشیا اور حجاز‘ یہ سب ایک سلطنت ‘ایک ملک اور ایک خلافت کے تحت تھا. پہلی جنگ عظیم کے بعد اقوامِ مغرب نے اس کے حصے بخرے کیے ‘ جیسے مال غنیمت کو فتح کے بعد بیٹھ کر تقسیم کیا جاتا ہے . انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس عالم عرب کے اب ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں اور انہیں باہم تقسیم کر دیا جائے. چنانچہ مصر اورعراق کو برطانیہ کے تحت‘شام اور الجزائر کو فرانس کے تحت ‘ لیبیاکواٹلی‘جبکہ باقی علاقے کوسپین کے تحت کر دیاگیا. تو مشرق وسطیٰ کے یہ پورے ممالک اُس وقت کی بندربانٹ کے نتیجے میں وجودمیں آئے تھے.

اسی طرح اب کہا جا رہا ہے کہ موجودہ عراق جنگ کے بعد مشرق وسطیٰ کا نقشہ ازسر نو تبدیل کر دیا جائے گا. یہ صرف حکمرانوں کی تبدیلی نہیں ہو گی بلکہ علاقے کی تبدیلی ہوگی. درحقیقت یہ عظیم تر اسرائیل کے قیام کا منصوبہ ہے جس پر عمل کا آغاز ہو گیاہے. ورنہ اس عراق جنگ کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی‘ اس لیے کہ صدام کا کوئی جرم ثابت ہی نہیں ہوا. خلیج کی پہلی جنگ میں تو اس کا جرم ثابت شدہ تھا کہ اس نے کویت پر حملہ کیا تھا‘ لیکن اِس وقت توکوئی جرم سر ے سے ہے ہی نہیں. امریکہ کے اپنے معائنہ انسپکٹر بتاتے رہے کہ ہم نے وہاں پر کچھ نہیں دیکھا‘ کچھ نہیں پایا.اس حوالے سے سوچیے کہ اس جنگ کا کیا جواز ہے؟ پوری دنیا میں یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ یہ بلاجواز حملہ ہے. یہ بھی نوٹ کریں کہ کس قدر شدت‘ کتنی طاقت اور کتنی قوت سے حملہ کیا گیا ہے‘ کتنی فوجیں آئی ہیں‘ خلیج کے اندر کتنے جہاز کھڑے ہوئے ہیں جن پر سے ہوائی جہاز اڑتے ہیں.تو اصل میں ’’کتاب الملاحم‘‘ کے اندر حضور کی جو پیشین گوئیاں موجود ہیں وہ اب ہمارے سامنے آ رہی ہیں.

اسی طرح کا معاملہ اب پاکستان کا ہے. رفتہ رفتہ ہمارے گرد بھی گھیرا تنگ ہو رہا ہے . ہم پر ایک الزام یہ لگایا جا رہا ہے کہ شمالی کوریا کو ایٹمی صلاحیت پاکستان نے فراہم کی ہے.ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں کہ آپ نے اس کے بدلے میں ان سے میزائل ٹیکنالوجی لی ہے. دوسرا الزام یہ لگایا جا رہا ہے کہ ہم کشمیر میں دراندازی (infiltration) اور دہشت گردی (terrorism) کو نہیں روک سکے. تیسرا الزام یہ لگایا جا رہا ہے کہ یہ جو انتہا پسنداور بنیاد پرست (fundamentalists) آپ کے ملک میں سر اُٹھا رہے ہیں ان سے ہمیں اندیشہ ہے کہ آپ کی ایٹمی صلاحیت ان کے پاس نہ چلی جائے. اس طرح وہ القاعدہ اور دہشت گردوں تک پہنچ جائے گی. لہذا حالات بہت دگرگوں ہیں. یہی وجہ ہے کہ اس کا عکس ہمیں بھارت کے طرز عمل میں بھی نظر آرہا ہے اور اس کا جیسا دھمکی آمیز (threatening) انداز اب ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھا.بھارت کا اب یہ موقف ہے کہ جو اصول امریکہ نے اختیار کیا ہے وہی ہمارا بھی ہے کہ جس ملک سے ہمیں مستقبل میں کوئی اندیشہ یا خطرہ ہو اُس پر پہلے سے حملہ کرنے کا ہمیں حق حاصل ہے‘ یہ ضروری نہیں کہ اس کا کوئی جرم بھی ثابت ہو‘چونکہ مستقبل میں ہمیں پاکستان سے اندیشہ ہے اس لیے ہمیں پاکستان پرحملہ کرنے کا حق حاصل ہے. بہرحال یہ چیزیں تو نوشتہ ٔ دیوار کی حیثیت سے اب ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں. میں چاہتا ہوں کہ آج توبہ کے موضوع پر کچھ عرض کروں اور اس کے ضمن میں بھی ایک خاص بات‘ جس کی طرف میرا ذہن حال ہی میں منتقل ہوا ہے ‘ اضافی طور پر آپ کے سامنے رکھوں .