یہ بھی سمجھ لیجیے کہ توبہ کی چند شرائط اور کچھ لوازم ہیں. اگریہ شرائط پوری نہ ہوں تو چاہے آدمی توبہ کی تسبیح پڑھتا رہے اسے توبہ نہیں کہا جائے گا. یہ شرائط درج ذیل ہیں:

(۱) حقیقی پچھتاوا ہو‘ پشیمانی ہو کہ میں یہ کیا کر بیٹھا ہوں‘ یہ مجھ سے کیا ہو گیاہے . یہ توبہ کی شرطِ لازم ہے.
(۲) عزم مصمم ہو کہ آئندہ یہ کام نہیں کروں گا. آئندہ گناہ نہ کرنے کا دل میں پختہ ارادہ باندھ لیا جائے.
(۳) بالفعل اس بدی کو چھوڑ دیا جائے اور عمل صالح کی روش اختیار کی جائے . 

یہ تین شرائط تو حقوق اللہ سے متعلق ہیں اور اگر معاملہ حقوق العباد کا ہو تو ان تین شرائط کے علاوہ ایک اضافی شرط یہ ہے کہ اگرکسی انسان کا حق مارا ہے تو اس کی تلافی کی جائے. مثلاً آپ نے کسی کو دھوکہ دے کر اس کے پیسوں پر قبضہ کر لیا ہے یا اپنی بہن کووراثت میں سے اس کا حق نہیں دیا اور آپ اسے ہضم کر گئے ہیں یاکسی پر تہمت لگائی ہے یا کسی پر ظلم کیا ہے تو ان صورتوں میں توبہ کی ایک اضافی شرط یہ ہے کہ اس کی تلافی کی جائے اور اگر تلافی ممکن نہ ہو تو اس سے معافی حاصل کی جائے.

اور اگر وہ شخص جس کا آپ نے حق مارا ہے فوت ہو گیا ہو تو آپ پر لازم ہے کہ جو رقم آپ کے ذمہ ہے اسے آپ اس کی طرف سے صدقہ و خیرات کر دیں. اگر آپ یہ کام نہیں کرتے یااس دنیا میں ان بندوں سے جن کی حق تلفی کی گئی ہے معافی حاصل نہیں کرتے ‘تو آخرت میں نیکیوں اور گناہوں کا لین دین ہو گا. یعنی ظلم اور زیادتی کرنے والے شخص کی نیکیاں اُس شخص کو دے دی جائیں گی جس کے حق پر اس دنیا میں دست درازی کی گئی تھی یاجس پر ظلم کیا گیا تھا. اگر زیادتی کرنے والے کی نیکیوں کا سرمایہ ختم ہو جائے گا تو پھر مظلوم کے گناہ ظالم کے وزنِ اعمال کے پلڑے میں ڈال دیے جائیں گے.اللہ تعالیٰ حقوق العباد خود سے معاف نہیں کرے گا . اپنے حقوق کے لیے اس کا دامن بہت کشادہ ہے‘ اپنا حق معاف کرنے کے لیے وہ ہر وقت آمادہ ہے ‘لیکن بندوں کے حقوق کے معاملے میں اللہ اپنا اختیار استعمال نہیں کرے گا. 

ایک بڑی پیاری حدیث ہے کہ رسول اللہ نے ایک دفعہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے سوال کیا : اَتَدْرُوْنَ مَا الْمُفْلِسُ؟ ’’ کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کسے کہتے ہیں؟‘‘ یہ حضور کا ایک خاص انداز تھا کہ جب کوئی مسئلہ آپ نے سمجھانا ہوتا‘ کوئی اہم بات بتانی ہوتی تو پہلے سوال کرتے تاکہ ذہن بیدار ہوجائیں‘ اور بات سمجھ میں آ جائے . صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: اَلْمُفْلِسُ فِیْنَا مَنْ لَا دِرْھَمَ لَـہٗ وَلَا مَتَاعَ ’’ہم تو اُس کو مفلس سمجھتے ہیں جس کے پاس مال و متاع نہ ہو‘‘.آپ نے فرمایا:

اِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ اُمَّتِیْ یَاْتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِصَلَاۃٍ وَصِیَامٍ وَزَکَاۃٍ وَیَاْتِیْ قَدْ شَتَمَ ھٰذَا وَقَذَفَ ھٰذَا وَاَکَلَ مَالَ ھٰذَا وَسَفَکَ دَمَ ھٰذَا وَضَرَبَ ھٰذَا فَیُعْطٰی ھٰذَا مِنْ حَسَنَاتِہٖ وَھٰذَا مِنْ حَسَنَاتِہٖ‘ فَاِنْ فَنِیَتْ حَسَنَاتُہٗ قَبْلَ اَنْ یُـقْضٰی مَا عَلَیْہِ اُخِذَ مِنْ خَطَایَاھُمْ فَطُرِحَتْ عَلَیْہِ ثُمَّ طُرِحَ فِی النَّارِ (۱)

’’قیامت کے دن میری اُمت کا مفلس وہ آدمی ہو گا کہ جونماز‘ روزے‘ زکوٰۃ وغیرہ سب کچھ لے کر آئے گا‘ لیکن اُس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہو گی‘ کسی پر تہمت لگائی ہو گی ‘ کسی کا مال کھایا ہو گا‘ کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا‘ تو ان سب کو اس آدمی کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی ختم ہو گئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس آدمی پر ڈال دیے جائیں گے ‘ پھر اس آدمی کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا.‘‘

یہ اہمیت ہے حقوق العباد کی.