توبہ کے بارے میں قرآن مجید میں بے شمار آیات ہیں اور توبہ ہماری دینی (۱) صحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب تحریم الظلم. وسنن الترمذی‘ کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع عن رسول اللّٰہ ‘ باب ما جاء فی شان الحساب والقصاص. تعلیمات کا اہم ستون ہے. میں نے ابتدامیں صرف چار آیات تلاوت کی ہیں. 

التحریم :۸یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا ؕ ’’اے اہل ایمان! اللہ کی جناب میں توبہ کرو ‘خالص توبہ ‘‘. یعنی خلوصِ دل سے توبہ کرنی ہے کہ آئندہ گناہوں سے ہر ممکن طور سے بچوں گا. زبانی کلامی توبہ کی تسبیح نہیں کرنی کہ توبہ بھی کرتا رہے اور گناہوں سے بچنے کی کوشش بھی نہ کرے. عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّکَفِّرَ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ ’’امید ہے کہ تمہارا پروردگار تمہاری برائیوں کو تم سے دور کر دے گا ‘‘ . یہ توبہ کی تاثیر ہے. اگر آپ کے اخلاق و کردار میں کوئی غلط شے شامل ہو گئی تھی تو توبہ کی بدولت اللہ تعالیٰ آپ کے کردار کے دامن کو دھودے گا اور آپ کے نامہ ٔ اعمال میں اگر دھبے لگے ہوئے تھے تو اللہ تعالیٰ ان دھبوں کو بھی صاف کر دے گا. وَ یُدۡخِلَکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ ’’اور تمہیں داخل کردے گا ان باغات میں جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہیں‘‘. یَوۡمَ لَا یُخۡزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ ۚ ’’وہ دن جس دن اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو رسوا نہیں کرے گا (معاذ اللہ ‘ثم معاذ اللہ) اور ان کو بھی جو اس کے ساتھ ایمان لائے‘‘. نُوۡرُہُمۡ یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ ’’ان کا نور ان کے سامنے اور داہنی طرف دوڑ رہا ہو گا‘‘. یہاںیہ بات جان لیجیے کہ انسان کے ایمان کا محل و مقام اس کا قلب ہے اور ایمان حقیقت میں ایک روشنی اور نور ہے.

اس قلب میں جو نورِ ایمان ہے وہ میدانِ حشر میں ظاہر ہو جائے گا اور اس کی روشنی انسان کے سامنے پڑے گی. اس طرح انسان کے نیک اعمال میں بھی ایک نورانیت ہے. اس کا ظہور بھی میدانِ حشر میں ہو گا. چونکہ تمام نیک اعمال دائیں ہاتھ سے کیے جاتے ہیں ‘ بالخصوص انفاقِ مال‘ اس لیے وہ اعمالِ صالحہ جو ہم نے اس دُنیا میں سرانجام دیے ہوں گے وہ نور کی شکل میں داہنے ہاتھ سے ظاہر ہوں گے. یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا ’’ ( اُس وقت یہ اہل ایمان) کہتے ہوں گے اے اللہ! ہمارے نور کو کامل فرما دے.‘‘ 

اس کا پس منظر یہ ہے کہ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا کہ میدانِ حشر میں یہ نور ہر شخص کو اُس کے مقام و مرتبہ کے اعتبار سے ملے گا. ظاہر ہے ایمان کے بھی مدارج و مراتب ہیں. ایک ایمان حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہے اور ایک ایمان عام صحابی کا ہے‘ ان کے مابین زمین وآسمان کا فرق ہے. اسی طرح کہاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ایمان اور کہاں ہم جیسے عام مسلمانوں کا ایمان. چہ نسبت خاک را باعالم پاک! اسی ایمان کی نسبت سے اس نور کی تابناکی اور intensity ہو گی. حضور نے فرمایاکہ اس روز میدانِ حشر میں لوگوں کو جو نور ملے گا تو کچھ کا نور اتنا ہو گا کہ مدینے سے صنعا (یمن کے دار الحکومت ) تک اس کی روشنی پہنچ رہی ہو گی جبکہ کچھ لوگوں کا نور بس اتنا ہو گا کہ صرف ان کے قدموں کے آگے روشنی ہو جائے. جن کو اُس روز اتنا نور بھی مل جائے وہ بھی بڑے نصیب والے اور کامیاب و کامران لوگ شمار ہوں گے‘ کیونکہ وہ اس کٹھن اور سخت مرحلے سے گزر جائیں گے جس کے آگے ان کی منزلِ مراد یعنی جنت ہے. کم نور والوں کے نور کی حیثیت ٹارچ کی روشنی کی سی ہو گی اور اُس دن اتنی روشنی کی بھی بڑی اہمیت ہو گی. آپ جانتے ہیں کہ اگر آپ کو اندھیری شب میں جنگل سے گزرنا ہو تو آپ کے لیے ایک ٹارچ بھی کس قدر بڑی نعمت ہے کہ آدمی دیکھ لیتا ہے کہ سامنے کیا ہے. کہیں سامنے کوئی سانپ‘ کوئی گڑھا یا کھائی تو نہیں؟ تو اس وقت جن کو وہ ٹارچ نصیب ہو گئی وہ بھی بہت خوش قسمت ہوں گے ‘لیکن اُن کی کیا شان ہے جن کا نور مدینے سے صنعا تک پہنچ رہا ہو گا اب جن کے نور کی تابانی کم ہو گی وہ اللہ سے دعا کرتے ہوں گے : رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا کہ اے پروردگار! ہمارے نور کو بھی کامل کر دے جیسا تو نے اپنے ان بندوں پر کتنا فضل کیا ہے اور کتنا بڑا نور ان کو عطا کیا ہے. یہ نور تب کامل ہو گا جب انسان توبہ کرے گا اور اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے. چنانچہ اہل ایمان اتمامِ نور کی دعا کے ساتھ ساتھ یہ بھی دعا کر رہے ہوں گے: وَ اغۡفِرۡ لَنَا ’’اورہمارے گناہوں کی پردہ پوشی کر دے‘‘ .ظاہر بات ہے کہ گناہوں کی پردہ پوشی ہو گی تو پھر اس نور کی تابناکی میں اضافہ ہو گا. اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۸﴾ ’’یقینا تو ہر شے پر قادر ہے.‘‘

النور:۳۱وَ تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۳۱﴾ ’’اے ایمان والو! اللہ کی جناب میں سب مل جل کر توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ.‘‘ سورۃ النور کی آیت ۳۱ ایک طویل آیت ہے‘ جس کا یہ آخری ٹکڑا ہے. خطاب کے آغاز میں توبہ کے متعلق دو اصطلاحات بیان کی گئی تھیں‘ انفرادی توبہ اور اجتماعی توبہ. سورۃ التحریم کی متذکرہ بالا آیت کا تعلق انفرادی توبہ سے ہے جبکہ سورۃ النور کی اس آیت کا تعلق اجتماعی توبہ سے ہے. اس آیت میں اہل ایمان کو خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ سب مل کر گناہوں سے توبہ کرلو تو تمہارے حالات بدل جائیں گے اور تم دنیا و آخرت دونوں میں فلاح یاب ہو جاؤ گے. 

الزمر:۵۳قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ 
توبہ کے موضوع پر یہ قرآن حکیم کی عظیم ترین آیت ہے . گناہوں کی کثرت کی وجہ سے بعض لوگوں پر کچھ مایوسی طاری ہو جاتی ہے کہ ہم اتنے عرصے سے گناہ کرتے چلے آرہے ہیں‘ ہمیں کیسے معافی ملے گی‘ کیسے ممکن ہے کہ ہمیں چھٹکارا مل جائے ؟ ایسے لوگوں کے اطمینان کے لیے ‘ ان کی دلجوئی اوران کی تسلی کے لیے یہ عظیم ترین آیت نازل ہوئی ہے.یہ آیت مغفرت کے ضمن میں قرآن مجید کی سب سے زیادہ امید افزا آیت ہے. فرمایا: 
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ ’’(اے نبی ) کہہ دیجیے:

اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے‘‘. اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر تم گناہ کرتے ہو تو اس سے میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے‘ بلکہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہوئے اپنے ساتھ زیادتی کرتے ہو. ظاہر بات ہے کہ اللہ تو غنی ہے ‘کسی کے گناہ سے اس کی سلطنت میں تو کوئی کمی نہیں آتی. ایک حدیث قدسی کا مفہوم یہ ہے کہ اے میرے بندو! اگر تم تمام اولین و آخرین اور تمام جن و انس سب کے سب دنیا کے بدترین فاسق و فاجر انسان جیسے ہو جائو تب بھی میری سلطنت میں کوئی کمی نہیں آئے گی اور اگر تم سب کے سب اولین وآخرین اور جن و انس متقی ترین انسان جیسے بن جاؤ تب بھی میری سلطنت میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا.

اس سے معلوم ہوا کہ انسان گناہ کر کے صرف اپنا نقصان کرتا ہے ‘اس سے اللہ تعالیٰ کا تو کچھ نہیں بگڑتا ہے .اس لیے فرمایا: قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ ’’(اے نبی ) کہہ دیجیے: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے‘‘. لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ؕ ’’اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو‘‘. اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ؕ ’’بے شک اللہ تمام گناہوں کو بخشنے کا اختیاررکھتا ہے‘‘. اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے‘ اللہ کا اختیار ہے کہ وہ چاہے تو تمام کے تمام گناہ ایک پل میں معاف کر دے‘ اس لیے کسی کو مایوس نہیں ہونا چاہیے . اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ ﴿۵۳﴾ ’’بے شک وہ توہے ہی بخشنے والا اور رحم فرمانے والا.‘‘

الفرقان:۷۰ : سورۃ الفرقان کے آخری رکوع میں شرک‘ قتل ناحق اور زنا جیسے اکبر الکبائر گناہوں کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا: اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا ’’سوائے اُس کے جو تائب ہوا اور ایمان لایا اور اچھے عمل کیے‘‘. یہاں ایمان لانے سے مراد یہ ہے کہ ایمان کی تجدید کرے . جب گناہ کا ارتکاب کیا تھا تو اس کا ایمان اس کے دل سے نکل گیا تھایا زائل ہو گیا تھا یا کمزور ہو گیا تھا‘ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دل میں قوی ایمان موجود ہو اور پھر گناہ ہو جائے . اسی لیے نبی اکرم نے فرمایا : لاَ یَزْنِی الزَّانِیْ حِیْنَ یَزْنِیْ وَھُوَ مُؤْمِنٌ ’’کوئی زانی حالت ایمان میں زنا نہیں کرتا (یہ کیسے ممکن ہے کہ دل میں ایمان موجود ہو اور زناہو جائے)‘‘. وَلَا یَسْرِقُ السَّارِقُ حِیْنَ یَسْرِقُ وَھُوَ مُؤْمِنٌ ’’اورکوئی چورحالت ایمان میں چوری نہیں کرتا ‘‘. وَلَا یَشْرَبُ الْخَمْرَ حِیْنَ یَشْرَبُھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ (۱’’اورکوئی شخص جب شراب پیتا ہے تو حالت ِایمان میں شراب نہیں پیتا‘‘ یعنی گناہ کرتے وقت انسان کے دل سے ایمان نکل جاتا ہے اور جب وہ توبہ کرتا ہے تو ایمان واپس آجاتا ہے .اسی لیے فرمایا: اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا ’’سوائے اس کے جس نے توبہ کی اور اپنے ایمان کی تجدید کی اور پھر عمل صالح کی روش اختیار کی‘‘. فَاُولٰٓئِکَ یُـبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ ؕ ’’(تو یہ وہ لوگ ہیں کہ )اللہ ان کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا‘‘.(۱) صحیح البخاری‘ کتاب المظالم‘ باب النھبی بغیر اذن صاحبہ. وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان نقصان الایمان بالمعاصی… یعنی ان کے نامہ ٔاعمال سے بدیوں کے دھبے صاف ہو جائیں گے اور وہاں نیکیوں کا اندراج ہو جائے گا. وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۷۰﴾ ’’اور اللہ تو ہے ہی بخشنے والا‘ رحم کرنے والا.‘‘