توبہ کے متعلق احادیث کے مطالعہ سے پہلے توبہ کا فلسفہ سمجھ لیجیے. دیکھئے ایک ہے طبعی (physical) اعمال اور ان کے طبعی اثرات کا معاملہ کہ دُنیا میں ان طبعی اعمال کا اصول یہ ہے کہ ان کے نتائج اور اثرات لازمی ہیں اور ان سے چھٹکارا ممکن نہیں. مثلاً آپ نے خود کشی کا ارادہ کیا اور سنکھیا کھا لیا. اب چاہے آپ پر ندامت ہو‘ پشیمانی ہو‘ پریشانی ہو‘ توبہ کریں ‘لیکن اب بچنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘زہر نے تو اپنا کام دکھانا ہے. اِلاّیہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی معجزانہ قدرت سے اس عمل کے طبعی نتیجے کو تبدیل کر دے یا فی الوقت اس کے نتیجے کو روک دے. اس کی مثال بھی موجود ہے‘ مثلاً آگ کی فطرت ہے جلانا‘ مگر اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس نے نہیں جلایا: قُلۡنَا یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرۡدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ ﴿ۙ۶۹﴾ (الانبیاء) ’’ہم نے کہا: اے آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا ابراہیم پر‘‘. لیکن یہ واضح رہے کہ ان طبعی اعمال کے نتائج کا تبدیل ہونا روز روز نہیں ہوتا‘ کیونکہ اگر ایسا روز روز ہو تو کوئی سائنس اور کوئی ٹیکنالوجی ممکن ہی نہ ہو. یہ تو طبیعیاتی اور کیمیائی قوانین کا دوام ہے جس کی وجہ سے یہ ساری سائنس اور ٹیکنالوجی ترقی کی منزلیں طے کر کے اب کہاں سے کہاں پہنچ رہی ہے کہ ؎

عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے!

توبہ کے بارے میں یہ اصول جان لیں کہ یہ طبعی اعمال میں مفید نہیں ہے. چاہے آپ یہ احساس کریں کہ میں کیا کر بیٹھا ہوں یا آپ اپنے کیے پر شرمندہ ہوں یا پچھتائیں‘ تب بھی طبعی اعمال کے نتائج توبہ سے تبدیل نہیں ہو سکتے. البتہ اخلاقی اعمال کا معاملہ یہ نہیں ہے. اخلاقی اعمال کے نتائج توبہ کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں. یہ ایک بہت بڑا قانون ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ِکاملہ کا مظہر ہے. اگر کسی گنا ہ کا ارتکاب ہوا ہے‘ کوئی خطا سرزد ہوئی تو لازم نہیں ہے کہ اس کا اثر ضرور ظاہر ہو‘ بلکہ اس سے بچاؤ کا ایک راستہ ہے اور وہ درحقیقت ’’توبہ‘‘ کا راستہ ہے. ایسا نہیں ہے کہ کسی گناہ سے انسان کی فطرت میں کوئی ایسی مستقل کجی واقع ہو جائے کہ جس کی اصلاح کی کوئی صورت ہی نہ ہو.

انسان سے بڑے سے بڑا گناہ بھی سرزد ہوجائے اور پھر وہ خلوص اور سچے دل کے ساتھ توبہ کرلے اور اس کے اصول‘ قواعد و ضوابط اور اس کی شرائط کو پورا کرے تو وہ گناہ مٹ جائے گا .آج ہم اس موضوع پر ایسی چشم کشا احادیث نبویہ کا مطالعہ کریں گے کہ آپ حیران رہ جائیں گے. عام طور پر خطاب و وعظ میں چونکہ لوگوں کو اصلاح کی ترغیب دلانی ہوتی ہے اس لیے انذار کے پہلو کو زیادہ نمایاں کیا جاتا ہے اور اللہ کی صفت وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ ذُو انۡتِقَامٍ ﴿۴﴾ (آل عمران) ’’اور اللہ زور آور اور سخت انتقام لینے والا ہے‘‘ کا حوالہ دیا جاتا ہے تاکہ لوگ راہِ راست پر آ جائیں. لیکن یہ دوسرا پہلو بھی اپنی جگہ بہت اہمیت کا حامل ہے کہ طبعی اعمال کے نتائج و عواقب اور اخلاقی اعمال کے نتائج و عواقب ایک جیسے نہیں ہوتے.طبعی اعمال کے نتائج تبدیل نہیں ہو سکتے جبکہ اخلاقی اعمال کے نتائج توبہ سے تبدیل اور ختم ہو سکتے ہیں.