توبہ کے معاملے میں تاریخ مذاہب عالم میں ایک بہت بڑی غلطی ہوئی ہے اور دُنیا کے دوسرے مذاہب نے اپنے فلسفہ اخلاق میں توبہ کے بارے میں بہت ٹھوکریں کھائی ہیں جس کے باعث ان کا نقطہ نظر کج ہو گیا ہے. اب دیکھئے اصل تورات میں حضرت آدم و حوا علیہما السلام سے سرزد ہونے والی غلطی‘ ان کی توبہ اور پھر اس غلطی کے معاف ہونے کا تذکرہ موجود تھا‘ لیکن بعد میں جب تورات کو دوبارہ مرتب کیا گیا تو اس میں ان کی توبہ اور معافی کا ذکر شامل نہیں کیا گیا. اس کی وجہ سے انہوں نے عجیب و غریب فلسفے بنا لیے‘ آپ اندازہ کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کتنا اونچامقام عطا کیا تھا کہ سارے فرشتوں کو ان کے سامنے سجدہ کروایا اور اس کے بعد صرف ایک ہی حکم دیا کہ اس درخت کے قریب مت جانا! اُس وقت تو ابھی کوئی شریعت نہیں تھی اور نہ ہی کوئی لمبے چوڑے احکام تھے. بس صر ف یہ حکم دیا گیا تھا کہ جہاں سے مرضی کھاؤ پیو ‘ سارا باغ مباح ہے‘ بس اس ایک درخت کے قریب مت جانا.

ازروئے الفاظِ قرآنی: وَ لَا تَقۡرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۳۵﴾ (البقرۃ)’’اور اس درخت کے قریب مت جانا ورنہ تم ظالموں میں سے ہو جاؤ گے‘‘. مگر حضرت آدم اور حضرت حوا وہی کام کر بیٹھے جس سے منع کیا گیاتھا. سوچیے ‘ کتنی بڑی خطا ہو گئی!

لیکن قرآن نے وضاحت کر دی کہ اس غلطی کے سرزد ہونے کے فوراً بعد حضرت آدم کے دل میں ندامت پیدا ہو گئی. دل میں پچھتاوا ہے اور دل توبہ کر چکا ہے‘ لیکن ان کے پاس الفاظ نہیں تھے کہ کن الفاظ میں اللہ سے معافی مانگیں . تو وہ الفاظ بھی اللہ نے سکھائے : فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿۳۷﴾ (البقرۃ) ’’پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے چند کلمات‘ تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کر لی . بے شک وہی تو ہے توبہ کا بہت قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا.‘‘ 

توبہ کی اصل حقیقت توانسان کے اندر اپنی غلطی پر ندامت کا پیدا ہو جانا ہے. اس حقیقت کو علامہ اقبال نے اپنے عنفوانِ شباب میں اس شعر میں نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے ‘ جسے داغ دہلوی نے بہت پسند کیا اور اس پر داد دی کہ میاں اس عمر میں یہ شعر!

موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے!

انفعال کہتے ہیں پشیمانی اور شرمندگی کو. عام طور پر جب کسی انسان پرپشیمانی اور شرمندگی طاری ہوتی ہے تو پیشانی پر پسینہ سا آجاتا ہے . اس بارے میں علامہ اقبال کہتے ہیں کہ اللہ کی نگاہ میں ان قطروں کی اتنی قیمت اور اتنی وقعت ہے‘ کہ میرے بندے نے پشیمانی اختیار کی ہے‘ اسے اپنے اس غلط کام پر رنج و افسوس ہو رہا ہے ‘کہ پروردگار نے پسینے کے ان قطروں کو موتیوں کی طرح چن لیاہے . حضرت آدم سے جب خطا کا ارتکاب ہوا تو ان کے دل میں وہ پشیمانی پیدا ہو گئی ‘لیکن ان کے پاس وہ الفاظ نہیں تھے جن سے اپنی پشیمانی کا اظہار کرتے. تو اللہ تعالیٰ کی رحمت یہ ہوئی کہ اُس نے وہ کلمات خود سکھا دیے . قرآن نے ان ’’کلمات‘‘ کا بھی تذکرہ کیا ہے جن کے سبب حضرت آدم و حوا کو معافی ملی: رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۲۳﴾ (الاعراف)’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے‘ اور اگر تو نے ہمیں بخش نہ دیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں ہو جائیں گے‘‘. یہ بعینہٖ وہی بات ہے جو سورۃ الزمر کی آیت ۵۳ میں بیان ہوئی ہے: یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ یعنی گناہ کرنے والا خود اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے‘ اس سے اللہ کو کوئی نقصان نہیں ہوتا. یہاں بھی حضرت آدم نے یہی دعا کی کہ اے ہمارے رب! ہم نے یہ گناہ کر کے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے. 

جیسا کہ عرض کیا گیا‘ اصل تورات میں تو حضرت آدم و حوا کی توبہ اور ان کی معافی کا تذکرہ موجود تھا‘ لیکن موجودہ تورات ‘جو بعد میں مرتب ہوئی‘ اس میں حضرت آدم و حوا کی معافی والی بات شامل نہیں ہے. اصل حقیقت کو جاننے کے لیے ہم مختصراً تورات کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں. اصل تورات ۲۶سو برس سے دنیا سے غائب ہے. تورات کا اصل نسخہ یروشلم میں موجود ہیکل سلیمانی (حضرت سلیمان علیہ السلام کی بنائی ہوئی مسجد) میں موجود تھا. ۵۸۷ قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر (Nebuchadnezzar) نے اس ہیکل سلیمانی کو گرا دیا تو وہ نسخہ اسی ملبے میں دفن ہو گیا. یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ نسخہ مسجد اقصیٰ کے نیچے اب بھی موجود ہے. ان کا کہنا ہے کہ جب بخت نصر نے ہیکل سلیمانی کو گرایا تھا تو جو نیچے تہہ خانے تھے وہ نہیں گرے تھے اور محفوظ رہ گئے تھے اور وہاں تورات کا اصل نسخہ اور تابوتِ سکینہ (جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا ‘ من و سلویٰ کے نمونے اور بہت سے تبرکات رکھے ہوئے ہیں) موجود ہے. انہی تہہ خانوں میں ہیکل کے ربائیوں کی لاشیں بھی موجود ہیں.جب ہم کھدائی کریں گے تو یہ تمام چیزیں دنیا کے سامنے آ جائیں گی. بہرحال اِس وقت مجھے یہ کہنا ہے کہ چونکہ اصل تورات اس وقت گم ہو گئی تھی اور ڈیڑھ سو سال کے بعد اسے یادداشتوں سے مرتب کیا گیا تو اس میں غلطیاں پیدا ہو گئیں اور ایک بڑی غلطی یہ ہوئی کہ حضرت آدم علیہ السلام نے جو توبہ کی اور اللہ نے ان کی توبہ کوقبول فرما لیا‘ اس کا ذکر اس موجودہ تورات میں نہیں ہے. اس سے عیسائیوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا اور عقیدہ بنا لیا کہ وہ ابتدائی گناہ (original sin) جوہمارے جد امجد آدم سے سرزد ہوا تھا اس گناہ کا اثر نسل آدم میں پیدا ہونے والے ہر بچے میں ہوتا ہے.چنانچہ ہر بچہ پیدائشی طور پر گناہ گار ہے اوروہ اپنے جدامجد کے گناہ کی گٹھڑی لے کر اس دنیا میں آنکھیں کھولتا ہے. عیسائیوں کے اس عقیدے اور اسلام کی تعلیمات میں زمین و آسمان کا فرق ہے. اسلام کے مطابق ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے وہ معصوم ہے‘ بلکہ مسلم ہے. حضور کا فرمان ہے :

مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ اِلاَّ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ‘ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ (۱)

’’ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے ‘یہ تو اُس کے والدین ہیں جو اس کو عیسائی یا یہودی یا مجوسی بنا لیتے ہیں.‘‘
جب عیسائیوں نے یہ غلط عقیدہ اختیار کیا کہ بنی نوع انسان کا ہر بچہ بنیادی طورپر گناہگار ہے اور وہ اپنے جدامجد کے گناہ کا بوجھ لے کر اس دنیا میں آ رہا ہے تو اب انہوں نے اس کے علاج کے طو رپر ’’کفارہ‘‘ کا عقیدہ ایجاد کیا. یہ ہے ایک غلطی پر دوسری غلطی اور دوسری پر تیسری غلطی ؎

خشت اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج

عیسائیوں کے نزدیک عقیدۂ ’’کفارہ‘‘کی تفصیل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ آدم کی اولاد کا ہر بچہ بنیادی اورپیدائشی طور پر گناہگار ہے تو اللہ نے اپنے اکلوتے صلبی (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الجنائز‘ باب اذا اسلم الصبی فمات ھل یصلی علیہ وھل یعرض علی الصبی. وصحیح مسلم‘ کتاب القدر‘ باب معنی کل مولود یولد علی الفطرۃ … بیٹے ’’مسیح‘‘ کو زمین پر بھیجااور اسے آدم کے گناہ کے کفارہ کی غرض سے سولی پر چڑھا دیا (معاذ اللہ‘ نقل کفر کفر نہ باشد) . اسے گویاقربانی کا بکرا بنا دیااور ان سب گناہگاروں کی طرف سے قبول کر لیا تاکہ جو عیسیٰ کو مانتے ہیں ان کے گناہ کا کفارہ ہو جائے . 

یہ عقیدہ ہے عیسائیت کا. اس عقیدہ کی بنیاد اور جڑ یہی ہے کہ جب گناہ ہو گیا تو گناہ کا اثر باقی رہے گا. جبکہ قرآن یہ کہتا ہے کہ نہیں‘ تمہاری سیرت و کردار پرجو بھی داغ ہیں‘ دھل جائیں گے اور تمہارے نامہ ٔاعمال میں جو دھبے ہیں‘ صاف ہو جائیں گے ‘ بس خلوصِ دل سے توبہ کر لو: تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا ؕعَسٰی رَبُّـکُمْ اَنْ یُـکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ.

توبہ کے اس فلسفے کا ایک اور نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر آپ سے کوئی خطا ہو گئی‘ گناہ ہو گیااور آپ کو یہ بتایا جائے کہ اب بچاؤ کی کوئی شکل نہیں ہے ‘ اس کی سزا تو مل کر رہے گی‘ تو ظاہر ہے کہ پھر آپ کے اندر اصلاح کا کوئی جذبہ پیدا ہی نہیں ہو گا. اصلاح کے لیے ایک قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے اور بچاؤ کا ہر دروازہ بند کرنے سے قوت ارادی کا پیدا ہونا ناممکن ہے. اسلام نے اس اصلاح کے جذبے اور قوت ارادی کو زندہ رکھنے کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے تاکہ لوگوں کے لیے ایک امید باقی رہے کہ میں ’’point of no return ‘‘ پر نہیں کھڑا ہوں کہ جہاں سے میرے لیے واپسی کا کوئی راستہ نہ ہو. ابھی میرے لیے واپس جانے کا امکان ہے. تو اس سے انسان کے اندر اصلاح کا مادہ پیدا ہوگا ‘ ہمت پیدا ہو گی‘ ارادہ پیدا ہو گا اور وہ اپنے آپ کو درست کر لے گا.