توبہ کا فلسفہ سمجھ لینے کے بعد اب توبہ کی اہمیت اور اس کی تاثیر کے بارے میں مختلف احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں. ایسی چشم کشا اور اُمید افزا احادیث ہیں کہ ان کو سننے کے بعد کوئی انسان بھی رحمت ِالٰہی سے ناامید نہیں ہو سکتا. اس اعتبار سے آج ہماری گفتگو میں تبشیرکا پہلو زیادہ نمایاں ہو گا. ان میں سے بعض احادیث بہت مرتبہ میری گفتگو میں آچکی ہیں‘ لہذا اِس وقت اُن کو مختصراً آپ کے سامنے رکھوں گا. حدیث۱حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا:

کُلُّ بَنِیْ آدَمَ خَطَّائٌ وَخَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ (۱)
’’تمام بنی آدم بہت خطاکار ہیں ‘لیکن ان خطاکاروں میں بہتر وہ ہیں جوبار بار توبہ کرنے والے ہیں.‘‘

یعنی غلطی ہو گئی تو توبہ کر لیں. توبہ کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ پھر کبھی وہ غلطی نہ ہو. اصل بات یہ ہے کہ اس وقت آپ یہ عہد کر لیں کہ یہ کام میں نے نہیں کرنا اور ایک دفعہ وہ کام چھوڑ دیں تو توبہ ہو گئی.اگر کچھ عرصے کے بعد آپ پھر جذبات کی رو میں بہہ گئے یا آپ پر برے اثرات پڑے اور آپ سے وہ غلطی دوبارہ سرزد ہو گئی ‘ تو کوئی بات نہیں‘ آپ پھر توبہ کر لیں. اس لیے آپؐ نے فرمایا:’’اَلتَّوَّابُوْنَ‘‘ یعنی بار بار توبہ کرنے والے.

حدیث۲ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لاَ ذَنْبَ لَـہٗ (۲)
’’گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہے جیسے اس نے کبھی گناہ کیا ہی نہیں.‘‘

اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے بچے تختی لکھنے کے بعد اسے دھوتے ہیں تو وہ اس طرح صاف ہو جاتی ہے جیسے کبھی اس پر کچھ لکھا ہی نہ گیا ہو.یہی حال توبہ کرنے والا کا ہے کہ جب انسان توبہ کر لیتا ہے تو وہ ایسے پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے اس نے پہلے وہ گناہ کبھی کیا ہی نہ ہو. یہ حدیث قرآن کے ان الفاظ کی بعینہٖ تشریح ہے : عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّـکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ اور یہ عیسائیت کے عقیدۂ کفارہ کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ حضرت آدم کے گناہ کا اثر ہر پیدا ہونے والا بچہ لے کر آتا ہے ‘حالانکہ حضرت آدم نے غلطی ہو جانے کے بعد اللہ کی طرف سے القا کیے گئے کلمات سے توبہ کر لی تھی اور اللہ نے ان کی توبہ کو قبول کر لیا تھا. چنانچہ حضرت آدم توبہ کے بعد ایسے پاک صاف ہو گئے جیسے انہوں نے وہ گناہ کیا ہی نہ ہو. اب جب گناہ ہی نہیں رہا تو پھر اس کا اثر ہر پیدا ہونے والے بچہ پر کیسے آ سکتا ہے؟ (۱) سنن ابن ماجہ‘ کتاب الزھد‘ باب ذکر التوبۃ. وسنن الترمذی‘ کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع.

(۲) سنن ابن ماجہ‘ کتاب الزھد‘ باب ذکر التوبۃ. حدیث۳اس حدیث کو پڑھ کر میں بھی چونک اٹھا تھا. ان احادیث کو بیان کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں مایوسی کا غلبہ نہ ہو. یہ بات نوٹ کر لیجیے کہ مایوسی ابلیسیت کا عکس ہے. مبلس اسے کہتے ہیں جو مایوس ہو گیا ہواور ابلیس‘ سب سے بڑھ کر مایوس ہے‘ اس کو معلوم ہے کہ میرا چھٹکارا نہیں ہے‘لہذا میں جتنے لوگوں کو اپنے ساتھ لے جاکر جہنم میں جھونک دوں‘ یہی میری کمائی ہے چنانچہ ’’ابلیس‘‘ کہتے ہی اسے ہیں جو انتہائی مایوس ہو‘ جو رحمت خداوندی سے قطعاًمایوس ہو چکا ہو. اپنے دل و دماغ سے مایوسی کے سائے دُور کرنے کے لیے اس حدیث کا مطالعہ کیجیے .حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَـوْ لَمْ تُذْنِبُوْا لَذَھَبَ اللّٰہُ بِکُمْ وَلَجَائَ بِقَوْمٍ یُذْنِبُوْنَ فَـیَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰہَ فَیَغْفِرْلَھُمْ (۱)
’’قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ اگر تم لوگ گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ تم کو لے جاتا اور ایسے لوگوں کولے آتاجو گناہ کرتے‘ پھر وہ اللہ سے استغفار کرتے (اور توبہ کرتے) تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف کر دیتا.‘‘ 
یہاں ایک اور بات نوٹ کر لیجیے کہ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کا امر واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ‘لیکن زور بیان کے لیے ‘ایک بات کو emphasise کرنے کے لیے اس کا ذکر کیا جاتا ہے .جیسے قرآن مجید میں آتا ہے : 

قُلۡ اِنۡ کَانَ لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدٌ ٭ۖ فَاَنَا اَوَّلُ الۡعٰبِدِیۡنَ ﴿۸۱﴾ (الزخرف)
’’(اے نبی !) کہہ دو اگر رحمن کا کوئی بیٹا ہوتو میں سب سے پہلے اس کو پوجوں گا.‘‘

یعنی جب میں اللہ کی پرستش کرتا ہوں تو اگر اللہ کا کوئی بیٹا ہوتا تو کیا میں اس کی پرستش نہ کرتا؟یہ انداز اختیار کر کے نفی پرزور دیا گیا ہے کہ اللہ کا کوئی بیٹا ہے ہی نہیں. اسی طرح اس حدیث کا اسلوبِ بیان بھی یہی ہے کہ اگر انسان گناہ نہ کرتے اور گناہ کے بعد توبہ کرنے سے اللہ تعالیٰ کی شانِ غفاری کا ظہور نہ ہوتا تو اللہ اور لوگوں کو لے آتا . (۱) صحیح مسلم‘ کتاب التوبۃ‘ باب سقوط الذنوب بالاستغفار توبۃ.