’’اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات کیوں پیدا کی؟‘‘ یہ عجیب فلسفے کی بات ہے اور میرے علم کی حد تک قرآن مجید میں اس کو براہِ راست زیر بحث نہیں لایا گیا. ہو سکتا ہے کہیں بہت خفی انداز میں اس مسئلہ کو بیان کیا گیاہو اور یہ ابھی تک میری نگاہ سے مخفی ہو. قرآن مجید کے بعض غامض نکات ایسے ہو سکتے ہیں کہ جن تک میری ابھی رسائی نہ ہوئی ہو. ایک دفعہ میرے بارے میں ایک عالم دین نے یہ کہہ دیا تھا کہ اسے قرآن پر بڑا عبور حاصل ہے‘ تو میں نے انہیں پیغام پہنچایا کہ آپ نے میرے بارے میں یہ دعویٰ کر کے قرآن کی توہین کی ہے ‘کیونکہ قرآن پر کسی انسان کو عبور نہیں ہو سکتا.

عبور کا مفہوم یہ ہے کہ دریاکے دو کنارے ہیں اور آپ اِس کنارے سے اُس کنارے تک چلے گئے تو آپ نے دریا عبور کر لیا جبکہ قرآن تو ایک بحر ناپیداکنار ہے‘ اس پر عبور کسے حاصل ہو سکتا ہے؟ قرآن کے کتنے ہی ایسے غامض مقامات ہیں جہاں امام رازی بھی دہشت زدہ کھڑے نظر آتے ہیں. مثلاً سورۃ الحدید کی آیت ۳ کے الفاظ: ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ پر امام رازی نے فرمایا: اعلم ان ھذا المقام مقام غامض عمیق مھیب ’’جان لو کہ یہ بڑا عمیق ‘ بڑا گہرا اور بہت پرہیبت مقام ہے‘‘. اس کی تہہ تک پہنچنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہے ؏ ’’ہشدار کہ رہ بردم تیغ است قدم را!‘‘

میں یہ بیان کر رہا تھا کہ اللہ نے یہ کائنات کیوں پیدا کی‘ اس سوال کا جواب براہِ راست قرآن میں موجود نہیں ہے. البتہ علامہ آلوسی اور بعض دیگر مفسرین نے ایک حدیث قدسی نقل کی ہے‘ جس میں اس سوال کا جواب موجود ہے: کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًّا ’’میں ایک چھپے ہوئے خزانے کی مانند تھا‘‘.میرے اندر طاقت تھی‘ قوت تھی‘ خلاقی تھی‘ میری شانِ غفاری میرے اندر ہی اندر تھی. فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ ’’تو میں نے چاہا کہ مجھے پہچانا جائے‘‘ . فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ (۱’’(تو اس کے لیے) میں نے خلق کی تخلیق کی‘‘. (۱) اس مفہوم کی احادیث الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ علامہ بدر الدین زرکشی نے اللآلی المنثورۃ میں‘ علامہ سخاوی نے المقاصد الحسنۃ میں اور علامہ زرقانی نے مختصر المقاصد میں نقل کی ہیں. کسی مخفی خزانے کی قدر وقیمت کا اندازہ تو اُسی وقت لگایا جا سکتا ہے جب وہ ظاہر ہو اور لوگ اس سے استفادہ کر سکیں. اسی طرح کسی کی قوت و طاقت کا اندازہ تب ہی لگایا جاسکتا ہے جب اسے استعمال کیا جائے. چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اس کی پوشیدہ صفات کا ظہور ہو تو اس نے اپنے اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ’’خلق‘‘ کی تخلیق کی. اس نے کائنات کو پیدا کرکے فرمایا کہ یہ میری تصویر ہے‘ مجھے اس کے ذریعے پہچانو. جیسے کوئی مصور اپنی تصویروں کی نمائش کرتا ہے کہ آؤ میرے فن پارے اور میرے شاہکار دیکھو‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی اس کائنات کو پیدا کر کے اپنی صفت تخلیق کا مظاہرہ کیا ہے اور اللہ یہ چاہتا ہے کہ اسے اس کی صفات کے ذریعے پہچانا جائے. 

قرآن حکیم میں جابجا اس کائنات میں غور و فکر کرنے کا حکم ملتا ہے :
اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ الۡفُلۡکِ الَّتِیۡ تَجۡرِیۡ فِی الۡبَحۡرِ بِمَا یَنۡفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ مَّآءٍ فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا وَ بَثَّ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ ۪ وَّ تَصۡرِیۡفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الۡمُسَخَّرِ بَیۡنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ﴿۱۶۴﴾ (البقرۃ)
’’یقینا آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں‘ اور رات اور دن کے اُلٹ پھیر میں‘ اور اُن کشتیوں (اور جہازوں) میں جو سمندر میں (یا دریاؤں میں) لوگوں کے لیے نفع بخش سامان لے کر چلتی ہیں ‘اور اُس پانی میں کہ جو اللہ نے آسمان سے اُتارا ہے پھر اس سے زندگی بخشی زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد‘ اور ہر قسم کے حیوانات (اور چرند پرند) اس کے اندر پھیلا دیے اور ہواؤں کی گردش میں‘ اور ان بادلوں میں جو معلق کر دیے گئے ہیں آسمان اور زمین کے درمیان ‘یقینا نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیں.‘‘ 

اورپھراسی مقصد کے لیے انسان کو پیدا کیا جس میں یہ 
faculty of appreciation یعنی اللہ تعالیٰ کے حسن و جمال و کمال کو پہچاننے کی صلاحیت ہے ‘ورنہ ظاہر بات ہے کہ علامہ البانی نے اسے سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ (ح۶۰۲۳میں نقل کر کے لکھا ہے : لا اصل لہ اتفاقا. جمادات اللہ تعالیٰ کو کیا پہچانیں گے؟اللہ کو پہچاننے کی صلاحیتیں صرف انسان میں ہیں. تو یہ ایک باقاعدہ فلسفہ ہے. اسی کے ضمن میں یہ بات سمجھ لیجیے کہ اگر گناہ نہ ہوتا‘ توبہ نہ ہوتی اور پھر اللہ کی طرف سے معافی کا اعلان نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی شانِ غفاری کا ظہور کیسے ہوتا؟ اسی لیے فرمایاکہ اگر تم لوگ گناہ نہ کرتے تو اللہ تمہیں ختم کر کے کوئی ایسی مخلوق پیدا کرتا جو گناہ کرتے ‘ پھر وہ توبہ کرتے اور پھر اللہ انہیں بخش دیتا.

حدیث۴اسی سے ملتی جلتی ایک اورحدیث امام احمد اور امام بیہقی رحہمااللہ لائے ہیں اور اس کے راوی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں. رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْعَبْدَ الْمُؤْمِنَ الْمُفَتَّنَ التَّوَّابَ (۱)
’’یقینا اللہ اپنے اس مؤمن بندہ کو پسند کرتا ہے جو فتنوں میں سخت مبتلا ہو جاتا ہے اور پھر بہت توبہ کرتا ہے.‘‘

اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اللہ کن سے محبت کرتا ہے؟اس کا جواب قرآن میں ان الفاظ میں ملتا ہے: وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۳۴﴾ۚ (آل عمران) ’’اللہ احسان کی روش اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘. دوسری جگہ فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴﴾ (الصف) ’’اللہ محبت کرتا ہے اپنے اُن بندوں سے جو اس کی راہ میں جنگ کرتے ہیں صفیں باندھ کر گویا سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘.یہاںایک تیسری چیز کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے اپنے اس مؤمن بندے سے جو فتنوں میں بہت زیادہ مبتلا ہو جاتا ہو اور پھر بہت توبہ کرتا ہو. یعنی وہ گناہ کرتا ہے ‘لیکن ساتھ ہی پلٹتا ہے‘ رجوع کرتا ہے‘ پھر اللہ کے حضور میں حاضر ہو کر معافی مانگتا ہے. اللہ تعالیٰ کو ایسا بندہ بہت پسند ہے.