اب کچھ اور احادیث ملاحظہ کیجیے ‘جن میں یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ توبہ کا دروازہ (۱) مسند احمد‘ کتاب مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ‘ باب ومن مسند علی بن ابی طالب‘ ح ۵۷۱ایک وقت آنے پربند ہوجائے گا. خطاب کے ابتدا میں میں نے توبہ سے متعلق دو اصطلاحات بیان کی تھیں: اجتماعی توبہ اور انفرادی توبہ. اجتماعی سطح پر توبہ کا دروازہ تب تک بند نہیں ہو گا جب تک کہ سورج مغرب سے طلوع نہ ہوجائے. یہ قربِ قیامت کی آخری نشانیوں میں سے ایک ہے. 

حدیث ۵مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا:

مَنْ تَابَ قَبْلَ اَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِھَا تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ (۱)
’’جس نے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے پہلے توبہ کر لی تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لے گا.‘‘

البتہ جب قیامت کی یہ نشانی ظاہر ہو جائے کہ سورج مغرب سے طلوع ہو رہا ہو تو اب اجتماعی سطح پر توبہ کا دروازہ بند ہو گیا. اس کے بعد اگر کوئی توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول نہیں کرے گا . 

یہ تو اجتماعی سطح پر توبہ کے عدم قبولیت کی بات ہوئی ‘جبکہ انفرادی سطح پر توبہ کی قبولیت کا امکان تب تک رہے گا جب تک حالت نزع نہ واقع ہو جائے. یہ اصل میں اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے مظاہر ہیں جو میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں کہ مایوسی کی کوئی بات نہیں‘ آخری وقت آنے تک توبہ کا دروازہ کھلا ہے‘ لیکن جب وہ وقت آ گیا تو پھر توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا. 

حدیث ۶ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے‘ نبی کریم نے فرمایا:

اِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَالَمْ یُغَرْغِرْ (۲)
’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ قبول کرتا رہے گا جب تک کہ حلق کے اندر گھنگرو نہ بولے.‘‘ (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار‘ باب استحباب الاستغفار والاستکثار منہ.

(۲) سنن الترمذی‘ کتاب الدعوات عن رسول اللّٰہ ‘ باب فی فضل التوبۃ والاستغفار وما ذکر من رحمۃ اللّٰہ. یعنی عالم نزع واقع ہو جائے . جب کسی کی موت کے آثار اتنے واضح ہو گئے ہوں کہ اب زندگی کا کوئی امکان باقی نہ رہے تواس وقت کی توبہ قبول نہیں ہوگی.