ایک حدیث میں توبہ کرنے والے شخص کے لیے ایک تمثیل بیان کی گئی ہے‘ جس کا ترجمہ تو میں بہت دفعہ بیان کر چکا ہوں ‘ لیکن آج میں چاہتا ہوں کہ اس کو پورے متن کے ساتھ آپ کے سامنے رکھوں. حدیث ۷یہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ (جو حضور کے خادم خاص تھے) سے مروی متفق علیہ روایت ہے‘ یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ موجود ہے. مسلم شریف (۱کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:

لَلّٰہُ اَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَۃِ عَبْدِہٖ حِیْنَ یَتُوْبُ اِلَـیْہِ ’’جان لو اللہ تعالیٰ کو زیادہ خوشی ہوتی ہے اپنے کسی گناہگار بندے کی توبہ سے جب وہ اس کے حضور توبہ کرتا ہے‘‘ مِنْ اَحَدِکُمْ ’’تم میں سے ایک ایسے شخص سے بڑھ کر (خوشی ہوتی ہے)‘‘ کَانَ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ بِاَرْضِ فَلَاۃٍ ’’جو بہت ہی دور دراز کے (سنسان) علاقے میں سفر کر رہا تھا‘‘. فَانْفَلَتَتْ مِنْہُ ’’تو اس سے اس کی سواری گم ہو گئی‘‘. وَعَلَیْھَا طَعَامُہٗ وَشَرَابُہٗ ’’اسی پر اس کا کھانا بھی تھا اور پانی بھی‘‘. یعنی وہ اپنی اونٹنی پر سفر کر رہا تھا‘ اسی پر اس کا سامانِ سفر تھا. تھوڑی دیر کے لیے کہیں سستانے کے لیے بیٹھا ‘ اسے اونگھ آ گئی اور جب آنکھ کھلی تو اونٹنی غائب تھی. فَأَیِسَ مِنْھَا ’’وہ تلاش کر کے مایوس ہو گیا‘‘. یعنی کہیں اونٹنی کا سراغ نہیں ملا. اب ظاہر بات ہے کہ اسے اپنی یقینی موت آنکھوں کے سامنے نظر آ رہی ہے. فَاَتٰی شَجَرَۃً فَاضْطَجَعَ فِیْ ظِلِّھَا قَدْ اَیِسَ مِنْ رَاحِلَتِہٖ ’’تو وہ ایک درخت کے سائے میں اپنی سواری سے مایوس ہو کر لیٹ گیا‘‘.

گویا وہ موت کے انتظار میں لیٹ گیا کہ اب تو موت آنی ہی آنی ہے. فَـبَیْنَا ھُوَ کَذٰلِکَ اِذَا ھُوَ بِھَا قَائِمَۃً عِنْدَہٗ ’’(اس کی کہیں دوبارہ آنکھ لگ گئی. جب آنکھ کھلی) تو کیا دیکھتاہے کہ اونٹنی تو (۱) صحیح مسلم‘ کتاب التوبۃ‘ باب فی الحض علی التوبۃ والفرح بھا. اس کے پاس کھڑی ہے ‘‘ . فَاَخَذَ بِخِطَامِھَا ’’تو اس نے فوراً اس کی رسی پکڑلی‘‘ ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ ’’پھر خوشی کی شدت سے وہ پکار اٹھا ‘‘ . اب اسے جو مسرت اور خوشی حاصل ہوئی اس کا آپ اندازہ نہیں کر سکتے .ایک ویران صحرا میں سواری اور سامانِ سفر کے گم ہوجانے سے موت کا معاملہ یقینی نظر آ رہا تھا تو اچانک اللہ تعالیٰ نے وہ کھوئی ہوئی اونٹنی واپس دلا دی . اس موقع پر وہ اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے کہنا تو یہ چاہتا تھا کہ اے اللہ تو میرا رب اور میں تیرا بندہ ہوں ‘لیکن فرطِ مسرت میں اور شادی ٔمرگ یعنی خوشی کی وجہ سے موت طاری ہو جانے کی کیفیت میں اس کی زبان ایسی لڑکھڑائی کہ اس کی زبان سے نکلا: اَللّٰھُمَّ اَنْتَ عَبْدِیْ وَاَنَا رَبُّکَ ’’اے اللہ تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا ربّ ہوں!‘‘ اَخْطَأَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ یعنی ’’خوشی کی شدت سے وہ غلطی کر بیٹھا‘‘یہ فرطِ مسرت اور خوشی کی انتہا ہے جس میں انسان اتنی بڑی خطا کر بیٹھتا ہے. اللہ تعالیٰ کو اپنے کسی گناہگار بندے کی توبہ سے اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے. 

یہ تمثیل اس لیے بیان کی گئی کہ بعض حقائق اتنے لطیف ہوتے ہیں کہ ان کو بتمام و کمال بیان نہیں کیا جا سکتااور اس کے لیے مثالوں کا سہارا لیا جاتا ہے . اللہ تعالیٰ کو اپنے گناہگار بندے کی توبہ پر کتنی خوشی ہوتی ہے‘ اسے آپ کیا سمجھیں گے! لہذا یہ مثال دے کر آپ کو سمجھایا گیاکہ ایک لق و دق صحرا میں انسان سفر کر رہا ہے‘ اس کے پاس ایک ہی اونٹنی ہے‘ اسی پر اس کا کھانے پینے کا سامان ہے‘ وہ کہیں تھوڑی دیر کے لیے ٹھہرا ہے اور اونٹنی غائب ہو گئی. اس نے اونٹنی کو تلاش کرنے کے لیے ہر طرف دیکھ لیا لیکن کامیاب نہ ہو سکا تو اب موت کے انتظار میں ایک درخت کے سائے میں لیٹ گیا اور اس کی آنکھ لگ گئی. اب جیسے ہی اس کی آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہے کہ اونٹنی موجود ہے تو وہ شدتِ فرح میں یہ کہہ بیٹھتا ہے : اَللّٰھُمَّ اَنْتَ عَبْدِیْ وَاَنَا رَبُّکَ اس شخص کی خوشی کا تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں ‘لیکن جب ایک گناہگار بندہ اللہ کی جناب میں توبہ کرتا ہے تو اللہ کو اس پر کتنی خوشی ہوتی ہے ‘اس کا آپ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے ‘چنانچہ یہ مثال ہمیں سمجھانے کے لیے دی گئی ہے.