تسلسل گناہ کے باوجود توبہ کی قبولیت

اب میں ایک اور حدیث بیان کرتا ہوں ‘لیکن اس سے پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو انسان پیدا کیے ہیں ان کے مزاج مختلف ہیں. ان میں کچھ لوگ قوی ارادے کے مالک ہوتے ہیں کہ ایک دفعہ جب فیصلہ کر لیا تو اس پر ڈٹ گئے ‘لیکن کچھ لوگوں میں قوت ارادی اتنی مضبوط نہیں ہوتی‘ وہ اِدھر اُدھر سوچتے رہتے ہیں. ایسے لوگوں سے خطاؤں کا ظہور ہو جاتا ہے تووہ توبہ کرلیتے ہیں. پھر کچھ عرصے کے بعد ان سے خطا کا ظہور ہو جاتا ہے تو وہ پھر توبہ کرلیتے ہیں‘ یعنی وہ توبہ کے بعد ہر دفعہ گناہ کر بیٹھتے ہیں. اب ہم اگر ان کے اس عمل یعنی بار بار خطا کر کے توبہ کرنے کو کسی دنیاوی عمل پر قیاس کریں تو ہم بھی یہی کہیں گے کہ ان کے اس طرح بار بار توبہ کرنے سے ایک وقت ایسا آئے گا کہ ان کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی ‘جیسے مالک ملازم کی غلطی کو ایک دو بار تومعاف کرتا ہے‘ لیکن اگر وہ مسلسل غلطیاں کرتا رہے تو مالک اسے معاف نہیں کرتا بلکہ سزا دیتا ہے. لیکن توبہ کا فلسفہ اس سے بالکل مختلف ہے کہ ہزار بار توبہ کرنے کے باوجود انسان سے گناہ سرزد ہو جائے اور وہ پھر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے تو اللہ اس کی توبہ کو قبول کرتاہے .

حدیث ۸حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

اِنَّ عَبْدًا اَذْنَبَ ذَنْبًا ’’یقینا ایک بندہ گناہ کرتا ہے‘‘. فَقَالَ: رَبِّ اَذْنَـبْتُ فَاغْفِرْلِیْ ’’پھر وہ کہتا ہے:اے پروردگار! مجھ سے گناہ ہو گیا ہے‘ مجھے معاف فرما دے‘‘. فَقَالَ رَبُّـہٗ ’’تو پروردگار کہتا ہے‘‘ أَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَـہٗ رَبًّا یَغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَاْخُذُ بِہٖ ’’کیامیرا یہ بندہ جانتا ہے کہ اس کا ایک ربّ ہے جو گناہ معاف بھی کر سکتا ہے اور اس کی سزا بھی دے سکتا ہے؟‘‘ یعنی وہ جانتا ہے کہ اس کا ایک پالنے والا ہے جو چاہے تو اسے معاف کر دے اور چاہے تو اسے سزا دے دے.اس کے صرف اس جاننے کی بنیاد پر‘ اس کے اس علم اور اس کے اس ایمان کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ ’’میں نے اپنے بندے کو معاف کیا‘‘. ثُمَّ مَکَثَ مَا شَاءَ اللہُ ’’پھر وقت گزرا جتنا کہ اللہ نے چاہا‘‘. ثُمَّ اَذْنَبَ ذَنْبًا ’’پھر اس سے گناہ ہوگیا‘‘ . فَقَالَ: رَبِّ اَذْنَبْتُ فَاغْفِرْہُ ’’وہ پھر کہتا ہے :اے پروردگار !مجھ سے گناہ ہو گیا ہے پس تو مجھے معاف فرما دے‘‘. فَقَالَ ’’(تواس کا رب) فرماتا ہے‘‘ أَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَـہٗ رَبًّا یَغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَاْخُذُ بِہٖ ’’کیا میرے بندے کو یہ معلوم ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ معاف بھی کر سکتا ہے اور چاہے تو اس پرپکڑ بھی سکتا ہے (سزا بھی دے سکتا ہے)‘‘.

تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ ’’میں نے اپنے بندے کو معاف کر دیا‘‘. ثُمَّ مَکَثَ مَا شَاءَ اللّٰہُ ’’پھر ایک عرصہ گزرا جتنا کہ اللہ نے چاہا‘‘. ثُمَّ اَذْنَبَ ذَنْبًا ’’پھر اس سے گناہ ہو گیا‘‘. قَالَ قَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ آخَرَ ’’اس نے کہا: پروردگار میں نے تو پھر ایک اور گناہ کر دیا‘‘ فَاغْفِرْہُ لِیْ ’’پس مجھے بخش دے‘‘. فَقَالَ: أَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَـہٗ رَبًّا یَغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَاْخُذُ بِہٖ ’’اللہ فرماتاہے : کیامیرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ہے (جسے وہ پکار رہا ہے اور وہ یہ جانتا ہے کہ اسے اختیار حاصل ہے کہ) چاہے توبخش دے اور چاہے تو پکڑ لے‘‘. اللہ فرماتا ہے کہ اُس کے اِس علم‘ اس ایمان کی بنیاد پر میں نے اسے معاف کر دیا: غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ ثَلَاثًا فَلْیَعْْمَلْ مَا شَاءَ (۱’’میں نے اپنے بندے کو تینوں دفعہ معاف کر دیا. بس وہ اب جو چاہے کرے.‘‘
تو یہ ہے توبہ کا فلسفہ اور خالق کائنات کی شانِ غفاری کہ ایک بندہ بار بار گناہ کرتا ہے اور پھر اللہ سے معافی مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ہربار معاف کر دیتے ہیں ‘اس کی توبہ قبول کر لیتے ہیں صرف اس بنا پر کہ اس کے دل میں ایمان باللہ اور اللہ کا ڈر موجود ہے جو اسے ہر بار توبہ پر اکساتا ہے.