مندرجہ ذیل حدیث سے آپ کو توبہ کی عظمت اور اس کی تاثیر کا اندازہ ہو جائے گا. یہ بہت ہی عجیب اور لمبی حدیث ہے. الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ یہ حدیث بخاری و مسلم (۱دونوں میں موجود ہے . یہاں مسلم کے الفاظ نقل کیے جا رہے ہیں.

حدیث ۱۱ : حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا:

کَانَ فِیْمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَۃً وَتِسْعِیْنَ نَفْسًا ’’تم سے پہلے جو اُمت تھی (بنی اسرائیل) اس میں ایک آدمی نے ۹۹ قتل کیے تھے‘‘. اب آپ اندازہ کیجیے کہ وہ کتنا بڑا گناہگارتھا. قرآن مجید میں آتا ہے :مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَیۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ (المائدۃ:۳۲’’جس نے کسی ایک انسان کو بھی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے پوری نوعِ انسانی کو قتل کر دیا‘‘.جبکہ اس نے تو ۹۹ قتل کیے تھے. لیکن پھر اس کے اندر توبہ کا جذبہ پیدا ہوا. فَسَاَلَ عَنْ اَعْلَمِ اَھْلِ الْاَرْضِ ’’تو اس نے لوگوں سے پوچھا کہ اہل زمین میں کون سب سے بڑا عالم ہے ؟‘‘ فَدُلَّ عَلٰی رَاھِبٍ ’’تو اس کی رہنمائی کی گئی ایک راہب کی طرف (کہ وہ بہت نیک اور بڑا عالم ہے)‘‘. فَاَتَاہُ ’’وہ اس کے پاس آیا‘‘ . فَقَالَ اِنَّہٗ قَتَلَ تِسْعَۃً وَتِسْعِیْنَ نَفْسًا فَھَلْ لَہٗ مِنْ تَوْبَۃٍ؟’’اس نے (راہب کو) بتایا کہ اس نے ۹۹ قتل کیے ہیں ‘تو کیااس کے لیے توبہ کا کوئی امکان ہے؟‘‘ فَقَالَ: لَا ’’اس نے کہا: نہیں‘‘. فَقَتَلَہٗ ’’اس نے اس (راہب) کو بھی قتل کر دیا‘‘. فَـکَمَّلَ بِہٖ مِائَۃً ’’توا س نے سو کی تعداد پوری کر لی‘‘. ثُمَّ سَأَلَ عَنْ اَعْلَمِ اَھْلِ الْاَرْضِ ’’پھر اس نے پوچھا اہل زمین میں کوئی اور بڑا عالم انسان ہے؟‘‘ فَدُلَّ عَلٰی رَجُلٍ عَالِمٍ ’’تواس کی رہنمائی کی گئی ایک بڑے عالم کی طرف‘‘. فَقَالَ اِنَّہٗ قَتَلَ مِائَۃَ نَفْسٍ ’’تو اس نے (وہاں جا کر) کہا کہ وہ سو (۱) صحیح البخاری‘ کتاب احادیث الانبیاء‘ باب حدیث الغار. وصحیح مسلم‘ کتاب التوبۃ‘ باب قبول توبۃ القاتل وان کثر قتلہ.

انسان قتل کر چکا ہے ‘‘. فَھَلْ لَہٗ مِنْ تَوْبَۃٍ ’’تو کیا اس کے لیے توبہ کا کوئی امکان ہے؟‘‘ فَقَالَ نَـعَمْ ’’اس نے کہا :کیوں نہیں!‘‘ اُس نے سو قتل کیے تھے لیکن پھر بھی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے. انفرادی سطح پر توبہ کا دروازہ تب تک بند نہیں ہو گا جب تک کہ عالم نزع کی کیفیت ظاہر نہیں ہو جاتی جیسے ہم نے ماقبل میں بیان کیا. اس لیے اس عالم نے کہا کہ تمہارے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے. وَمَنْ یَحُوْلُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ التَّوْبَۃِ ’’(اور کہا کہ ) تمہارے اور تمہاری توبہ کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے؟‘‘یعنی کوئی حائل نہیں ہو سکتا. تمہاری توبہ کا دروازہ کھلا ہے‘ لیکن ساتھ ہی کہا: انْطَلِقْ اِلٰی اَرْضِ کَذَا وَکَذَا ’’تم فلاں جگہ چلے جاؤ‘‘. یعنی جہاں تم رہتے ہو وہاں واپس نہ جاؤ. وہاں کا ماحول اچھا نہیں ہے‘ معاشرہ اچھا نہیں ہے. ہو سکتا ہے کہ تم توبہ پر قائم نہ رہ سکو. تم فلاں جگہ چلے جاؤ وہاں اچھے لوگ آباد ہیں‘ ان میں جا کر رہو. فَاِنَّ بِھَا اُنَاسًا یَعْبُدُوْنَ اللّٰہَ ’’وہاں ایسے لوگ آباد ہیں جو اللہ کی بندگی کرتے ہیں‘‘ فَاعْبُدُ اللّٰہَ مَعَھُمْ ’’تو تم ان کے ساتھ مل کر اللہ کی بندگی (اور پرستش ) کرو‘‘ وَلَا تَرْجِعْ اِلٰی اَرْضِکَ ’’اور اپنی زمین کی طرف (اپنے وطن میں) واپس مت جاؤ ‘‘ فَاِنَّھَا اَرْضُ سَوْء ’’کیونکہ وہ بری جگہ ہے.‘‘ 

یہاں یہ بات بھی نوٹ کر لیجیے کہ ماحول کا انسان کی زندگی پر گہرا اثر ہوتا ہے. نیکوکار کی صحبت انسان کو اچھائی کی طرف لے جاتی ہے جبکہ بروں کی صحبت انسان کو برائی کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے. اس لیے اس عالم نے اسے یہ نصیحت کی کہ تم نے جب توبہ کر لی ہے تو تم اب اپنے علاقے میں واپس مت جانا کیونکہ وہاں اکثریت برے اور بگڑے ہوئے لوگوں کی ہے ‘کہیں تم وہاں رہ کر اپنی توبہ سے پھسل نہ جاؤ اور پھر برائی میں نہ پڑ جاؤ. تم فلاں علاقہ میں چلے جاؤ وہاں نیک اور اہل علم لوگ بستے ہیں ‘ان کی صحبت میں رہ کر تم اپنی زندگی کے باقی ایام اپنے رب کی عبادت میں گزارو.
فَانْطَلَقَ ’’تو وہ چل پڑا‘‘. حَتّٰی اِذَا نَصَفَ الطَّرِیْقَ اَتَاہُ الْمَوْتُ ’’یہاں تک کہ جب اس نے آدھا راستہ طے کر لیا تو اس کو موت آ گئی‘‘ . اور وہاں اس کی جان قبض کرنے کے لیے جنت اور دوزخ دونوں کے فرشتے آ گئے. فَاخْتَصَمَتْ فِیْہِ مَلَائِکَۃُ الرَّحْمَۃِ وَمَلَائِکَۃُ الْعَذَابِ ’’پس اس کے بارے میں رحمت اور عذاب کے فرشتے جھگڑ پڑے‘‘. فَقَالَتْ مَلَائِکَۃُ الرَّحْمَۃِ ’’رحمت والے (یعنی جنت والے ) فرشتوں نے کہا‘‘: جَاءََ تَائِبًا مُقْبِلًا بِقَلْبِہٖ اِلَی اللّٰہِ ’’یہ شخص خلوص سے توبہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف ہجرت کر رہا تھا‘‘.

اس لیے اس کی نیت کی بنیاد پر اب یہ جنتی ہے. لہذا اس کی روح ہم قبض کریں گے اور اسے جنت میں لے جائیں گے. وَقَالَتْ مَلَائِکَۃُ الْعَذَابِ ’’اور عذاب والے فرشتے کہنے لگے ‘‘: اِنَّہٗ لَمْ یَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ ’’اس نے کبھی کوئی نیک عمل تو کیا ہی نہیں‘‘ . تو کس بنیاد پر اس کو تم جنت میں لے جاؤ گے ؟اس کو تو دوزخ میں جانا چاہیے. فَاَتَاھُمْ مَلَکٌ فِیْ صُوْرَۃِ آدَمِیٍّ ’’تو ان کے پاس (اللہ نے) ایک اور فرشتے کو انسانی شکل میں بھیج دیا‘‘. فَجَعَلُوْہُ بَیْنَھُمْ ’’توان فرشتوں نے اس کو اپنے درمیان ثالث بنا لیا‘‘. یعنی یہ کہا کہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دو کہ کون اس کی روح قبض کرنے کے حق دار ہیں‘ جنت والے یا جہنم والے؟ فَقَالَ قِیْسُوْا مَا بَیْنَ الْاَرْضَیْنِ فَاِلٰی اَیَّتِھِمَا کَانَ اَدْنٰی فَھُوَ لَـہٗ ’’اس نے کہا تم دونوں جگہوں کا فاصلہ ناپ لو (یعنی جہاں سے وہ چلا ہے وہ اس موت والی جگہ کے زیادہ قریب ہے یا جہاں وہ جا رہا تھا؟)جس زمین کے زیادہ قریب ہو وہی اس کا حکم ہے‘‘. فَقَاسُوْہُ فَوَجَدُوْہُ اَدْنٰی اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ اَرَادَ ’’جب فاصلہ ناپا گیا تو جس طرف وہ جا رہا تھا وہ جگہ زیادہ قریب نکلی‘‘. ایک حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ جب فاصلہ ناپا جانے لگا تو اللہ تعالیٰ نے ایک طرف والی زمین کو حکم دے دیا کہ تو سکڑ جا اور دوسری طرف والی کو حکم دیا کہ تو پھیل جا‘ تاکہ جدھر وہ جا رہا تھا وہ بستی زیادہ قریب ہو جائے بہ نسبت اس کے کہ جہاں سے وہ چلا تھا. فَقَبَضْتُـہُ مَلَائِکَۃُ الرَّحْمَۃِ ’’چنانچہ رحمت کے فرشتے اس بندے کو (جنت میں) لے گئے‘‘. یہ ہے توبہ کی عظمت اور اس کی تاثیر.