ایک ہے انفرادی گناہ اور ایک ہے اجتماعی گناہ. یہ ساری باتیں جو میں نے اب تک بیان کیں ان میں سے زیادہ کا تعلق انفرادی گناہوں سے ہے. اب دیکھتے ہیں کہ اجتماعی گناہ کیا ہے؟ پوری قوم غلط راستے پر جا رہی ہے. ملک میں اللہ کا نہیں بلکہ انسانی حاکمیت پر مبنی دستور نافذ ہے جو سراسر کفر ہے‘ شرک ہے. پورا معاشی نظام سود اور جوئے پر مبنی ہے. ٹھیک ہے کچھ لوگ بچے ہوں گے‘ لیکن وہ تو معدودے چند ہوں گے. سیاسی نظام سے تو بچا ہوا کوئی بھی نہیں ہے . ہم سب اس ملک میں رہ رہے ہیں‘ ہم اس کے شہری ہیں‘ لہذا اگر یہاں غیر اسلامی قوانین نافذ ہیں تو ہم سب مجرم ہیں. اسی طرح کا معاملہ معاشی نظام کا ہے. اگر ایک شخص بالفرض سود سے براہِ راست بچ بھی گیا تب بھی سود کے غبار سے ‘ جس کو حدیث میں ’’دخان‘‘ کہا گیاہے‘ اس دخان اور دھوئیں سے تو کوئی نہیں بچ سکتا. وہ تو جیسے فضا کے اندر کبھی غبار (dust-suspension) ہو جاتا ہے ‘ آپ سانس لیں گے تو غبار اندر جائے گا‘ اسی طرح ہر شخص کے اندر سود جا رہا ہے.
فرض کیجیے آپ نے اپنے گھر میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے شرعی پردہ بھی نافذ کیا ہے‘ ستر و حجاب کے احکام بھی ہیں لیکن پورے معاشرے کا رنگ کیا ہے؟ بے حیائی ہے‘ فحاشی ہے‘ عریانی ہے. اخبار گھر میں چل کر آرہا ہے تو کون سی تصویریں لے کر آتا ہے؟ ایک زمانہ تھا ‘ رنگین تصویریں اخبارات کے اندر شائع نہیں ہوتی تھیں اور اب بھی دنیا کے اندر ایسا ہی ہے. اخبارات میں صرف وہی تصویریں چھپتی ہیں جو کسی واقعہ (event) یا خبر سے متعلق ہوں اور وہ بھی بلیک اینڈ وائٹ ہوتی ہیں. ان کے ہاں فحاشی کے دلدادہ لوگوں کے لیے رسالے علیحدہ ہیں‘ ان میں تو عریانی کی انتہا ہوتی ہے‘ لیکن وہ جو چاہے لے لے.جبکہ ہم نے خبریں پڑھنی ہیں تو ہمیں وہ اخبار دیا جا رہا ہے جس کے اندر یہ ساری تصویریں ہیں. کاہے کے لیے؟ یہ ہمارے گھر میں آ رہی ہیں‘ ہماری بچیاں دیکھ رہی ہیں ان تصویروں کو. کیا انہیں یہ خبر دی جا رہی ہے ‘ یہ سبق دیا جا رہا ہے کہ اصل عزت تو ان اداکاراؤں کی ہے‘ اصل عزت تو تھیڑ والوں اور ناچنے والوں کی ہے!مجھے یاد ہے کہ لاہور میں ’’مشرق‘‘ نے یہ رنگین تصاویر کا سلسلہ شروع کیاتھا‘ اس سے پہلے اخبارات میں یہ نہیں تھا.البتہ اخبارات میں فلموں کے اشتہارات وغیرہ قیام پاکستان کے بعد ہی چھپنے شروع ہو گئے تھے.
اُس وقت ’’نوائے وقت‘‘ اس قباحت سے بچا ہوا تھا. چنانچہ ۱۹۴۹ء میں حمید نظامی صاحب نے ’’نوائے وقت ‘‘ میں ’’گھر میں سانپ‘‘ کے عنوان سے ایک اشتہار شائع کیا تھا کہ اس قسم کی تصویریں اور اشتہارات لے کر جو اخبار آپ کے گھر آ رہا ہے وہ ایسے ہی ہے جیسے ایک سانپ آپ کے گھر میں داخل ہو گیاہو. فلموں کے اشتہارات جس قسم کی مخرب اخلاق تصویروں کے ساتھ چھپتے ہیں آپ کے بچے اور بچیاں انہیں دیکھتے ہیں. یہ سانپ ہے سانپ! آج کوئی بھی اخبار اس سے مستثنیٰ نہیں ہے. فحاشی کے نئے سے نئے طریقے اپنائے جا رہے ہیں کہ یہ بہار کے رنگ ہیں‘ یہ سرما کے رنگ ہیں‘ یہ گرما کے رنگ ہیں.فیشن شو ہو رہے ہیں‘یہ لباس کا مقابلہ ہو رہا ہے‘ یہ حسن کے مقابلے ہو رہے ہیں نعوذ باللہ من ذالک. اب ہم اس معاشرے میں رہ رہے ہیں تو ہم ایک اجتماعی گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں. اس سے بھی توبہ کی کوئی شکل ہے یا نہیں؟ ظاہر بات ہے کہ یہ میرے اختیار میں نہیں ہے کہ میں اکیلا اس کو بدل سکوں. لہذا اس اجتماعی گناہ کا ازالہ بھی اجتماعی توبہ سے ہوگا.