اجتماعی توبہ کا طریق کار یہ ہے کہ پہلے افراد انفرادی طور پر توبہ کریں اور صحیح توبہ کریں. صحیح توبہ یہ ہے کہ ہماری زندگی میں جو حرام شے ہے اسے فوراً نکال باہر کریں. اس معاشرے میں رہتے ہوئے ہم اسلامی احکام اور اسلامی تعلیمات پر اپنی امکانی حد تک عمل پیرا ہوں. البتہ شریعت کے بعض قانون ہمارے ملک میں رائج نہیں ہیں‘ اس لیے ان پر عمل ممکن نہیں ہے .مثلاً ہم کسی زانی کو رجم نہیں کر سکتے‘ کسی چور کا ہاتھ نہیں کاٹ سکتے‘ یہ تو تب ہو گا جب اس کا قانون بنے گا. تو بعض ایسے احکامات ہیں جن پر ہم قانوناً عمل نہیں کر سکتے ‘لیکن ان کے علاوہ باقی پوری شریعت پر عمل کیا جا سکتاہے. اب سود کی مثال لے لیجیے کہ میں سود بند نہیں کر سکتا‘ بینکوں کو میں آگ نہیں لگا سکتا اور اگر بالفرض بینکوں کو آگ لگابھی دیں تب بھی سود ختم نہیں ہو گا.

لیکن میں یہ تو کر سکتا ہوں کہ براہِ راست سود میں ملوث نہ ہوں ‘سود پر قرضہ لے کر اپنا کاروبار نہ چمکاؤں‘ اپنی دکان نہ اونچی کروں. کیونکہ کسی نے یہ قانون نہیں بنایا اور نہ آپ پر لازم کیا ہے کہ آپ سودی قرضہ لیں اور اپنی بلڈنگ عالیشان بنائیں. اگر آپ ایسا کر رہے ہیں تو آپ مجرم ہیں. اسی طرح ہمارے معاشرے میں ایسا کوئی قانون نہیں بنا کہ پردہ اور برقع حرام ہے. ترکی میں تویہ قانون بنا دیا گیا تھا کہ وہاں سر ڈھانپنا اور سکارف لینا بھی ممنوع ہے‘ لیکن یہاں تو ایسا کوئی قانون نہیں ہے تو پھر یہاں جنہوں نے پردہ چھوڑا ہے وہ خود مجرم ہیں. یہاں تو اللہ کا شکر ہے کہ کوئی مصطفی کمال پاشا جیسا آج تک پیدا نہیں ہوا کہ جس نے ان چیزوں کا حکم دیا ہو. البتہ یہ ضرور ہے کہ ذرائع ابلاغ فحاشی اور عریانی کی ترغیب دے کر اسے عروج دے رہے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود انتخاب آپ خود کرتے ہیں اور فیصلے کا اختیار بھی آپ کو حاصل ہے. اجتماعی توبہ کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ شریعت کے تمام ممکنہ احکامات پر عمل پیرا ہوا جائے اور جن چیزوں سے گناہ میں پڑ جانے کا امکان ہے اس کو عملاً ترک کیا جائے اور تنہائی میں گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جائے. 

اجتماعی توبہ کا دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ عزمِ مصمم یعنی پکا ارادہ کر لیا جائے کہ اے اللہ! اب بقیہ زندگی جتنی بھی ہے اس میں اپنی توانائیاں ‘ اپنی قوتیں ‘صلاحیتیں سب تیرے دین کی تبلیغ اور تیرے دین کو قائم کرنے کی جدوجہد میں لگا دیں گے. ایسا عزم مصمم کرنے والے اگر چودہ کروڑ میں سے چودہ لاکھ بھی ہو جائیں (اس لیے کہ دوچار افراد کے توبہ کرنے سے ملک کی قسمت نہیں بدلتی) یعنی معتدبہ تعداد میں اگر ایسے لوگ جمع ہو جائیں اور پھر وہ مل کر زور لگائیں اور منظم ہو کر ‘ایک طاقت بن کر نظام کو بدلنے کی جدوجہد کریں اور پھر اللہ سے دعا کریں توواقعتا اس ملک کے اندر شریعت اسلامی کا نفاذ ہو سکتا ہے اور اللہ کا عطا کردہ نظام قائم کیا جا سکتا ہے جس کے لیے یہ ملک بنایا گیا تھا. 

یہاں یہ بات بھی جان لیجیے کہ سو فیصد لوگ کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوئے . حضور کے زمانے میں نہیں ہوئے تو آج کیسے ہو جائیں گے؟ حضور کے زمانے میں منافق بھی موجود تھے. بفحوائے قرآنی : وَ مِمَّنۡ حَوۡلَکُمۡ مِّنَ الۡاَعۡرَابِ مُنٰفِقُوۡنَ ؕۛ وَ مِنۡ اَہۡلِ الۡمَدِیۡنَۃِ ۟ۛؔ مَرَدُوۡا عَلَی النِّفَاقِ ۟ (التوبۃ:۱۰۱’’تمہارے گرد و پیش بدوی ہیں جن میں سے بہت سے منافق ہیں اور اسی طرح خود مدینہ کے باشندوں میں بھی (منافق ہیں) جو نفاق میں طاق ہو گئے ہیں‘‘ تو سوفیصد کبھی ٹھیک نہیں ہوتے لیکن کسی معاشرے کے اندر معتدبہ تعداد میں لوگ پہلے مرحلے میں خود توبہ کر کے اپنی اصلاح کر کے اور دوسرے مرحلے میں ایک اجتماعی قوت کی شکل اختیار کر کے اس نظام کو بدلنے کے لیے تن من دھن لگائیں. اب اگر نظام کو واقعی بدل لیں تب تو توبہ قبول ہو گئی‘ لیکن فرض کیجیے کہ نہیں بھی کامیاب ہوتے تو خود اُن کی نجات ہو جائے گی جو اس کام میں لگ کر اپنا تن من دھن اللہ کے نظام کے نفاذ کے لیے لگا دیں اور قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ (الانعام) کی عملی شکل بن جائیں.

اس کی مثال سورۃ الاعراف میں بیان ہوئی ہے. یہودیوں کا ایک قبیلہ ساحل سمندر پر آباد تھا . یہ مچھیرے تھے جو مچھلیاں پکڑتے اور بیچتے تھے. یہود کے لیے قانون تھا کہ ہفتے کے روز کوئی دنیاوی کام کرنا حرام ہے. اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے یہ حکم بہت آسان کر دیا ہے کہ جمعہ کی اذان سے لے کر نماز ختم ہو جانے تک کاروبارِ دُنیوی حرام ہے. کوئی خالص حلال کاروبار بھی اُس وقت کیا جائے تو وہ حرام ہے‘ اس کی کمائی حرام ہے‘ جبکہ اس وقت کے علاوہ باقی تمام اوقات میں دُنیوی کاروبار جائز ہے. یہود کی شریعت میں یہ معاملہ بڑا سخت تھا کہ ہفتے کا پورا دن عبادت کے لیے وقف تھا اور اس دن کاروبار وغیرہ بالکل حرام تھا. اسی طرح ان کے ہاں روزے کا انداز یہ تھا کہ کھانا پینا بھی نہیں‘ قضائے شہوت بھی نہیں اور گفتگو بھی نہیں. پھر روزے میں سحری نہیں تھی‘ بس رات کو سو گئے تو روزہ شروع ہو گیا . یعنی یہود کی شریعت میں بڑی سختی تھی. ہماری شریعت چونکہ بہت بڑے پیمانے پر دنیا میں پھیلنے والی تھی لہٰذا اس میں نرمی رکھی گئی ہے.

مختلف ملکوں‘ مختلف مزاجوں اور مختلف پس منظر کے لوگوں نے اس اُمت میں شامل ہونا تھا‘ ان کو accomodate کرنے کے لیے شریعت میں نرمی رکھی گئی ہے. بہرحال اللہ تعالیٰ نے یہودی مچھیروں کا امتحان لیا. یہ بھی نوٹ کر لیں کہ جیسے انسان کے اندر شعور ہے اسی طرح حیوانات میں بھی ایک شعور ہے. وہ مچھیرے ہفتے کے روز مچھلی نہیں پکڑتے تھے جبکہ باقی چھ دن مچھلیوں کی شامت آئی رہتی تھی. مچھلیوں کو بھی اندازہ ہو گیا کہ ہفتے میں ایک دن ایسا ہے کہ اس دن ہمیں یہ کچھ نہیں کہتے. لہذا چھ دن تو وہ کھلے سمندر میں چلی جاتیں اور ساحل پر آتی ہی نہیں تھیں جبکہ ساتویں دن‘ ہفتے کے روز ‘وہ ساحل کے قریب خوب اٹھکیلیاں کرتیں‘ پانی میں اچھل کود کرتیں اور یہ بیٹھے دیکھ رہے ہوتے کیونکہ پکڑ تو سکتے نہیں تھے. بالآخر اس آزمائش میں ناکامی ہوئی اور کچھ لوگوں نے اس حکم کو توڑا اور مچھلیاں پکڑنی شروع کر دیں. جبکہ کچھ لوگوں نے یہ حیلہ نکالاکہ ان کو پکڑتے تو نہیں تھے‘ لیکن ایسا کرتے تھے کہ ہفتے کے روزساحل کے کنارے گڑھے کھود لیتے اور ساحل سے نالیاں بنا کر پانی ان گڑھوں میں لے آتے ‘ اس کے ساتھ مچھلیاں بھی آجاتیں. پھر وہ راستہ بند کر دیتے تاکہ مچھلیاں واپس نہ جا سکیں اور اتوار کو جا کر ان کو پکڑ لیتے. اس حیلہ سے بھی شریعت کا حکم تو ختم ہو گیا نا! شریعت کا حکم تو اس لیے تھا کہ ہفتہ کے روز دنیوی کاروبار نہ کرو بلکہ اللہ کو یاد کرو‘ ذکر کرو‘ نوافل ادا کرو‘ جو کتاب اللہ تورات کی صورت میں تمہارے پاس ہے اس کا مطالعہ کرو‘ اس کی تلاوت کرو‘لیکن تم نے وہ دن تو اسی دنیوی دھندے میں لگا دیا.

اس پر قوم تین حصوں میں تقسیم ہو گئی : (i)جو یہ کام عملاً کر رہے تھے ‘چاہے براہِ راست کر رہے تھے یا نالیاں بنا کر. (ii)جو کر تو نہیں رہے تھے ‘ لیکن کرنے والوں کو روکتے بھی نہیں تھے.(iii)جو خود بھی بچے ہوئے تھے اور دوسروں کو روک بھی رہے تھے کہ خدا کے بندو! باز آجاؤ اللہ کے غضب کو دعوت مت دو. ان تین میں سے اللہ تعالیٰ نے تیسرے گروہ کو نجات دی‘ جو خود بھی بچے ہوئے تھے اور دوسروں کو روکتے بھی تھے. فرمایا: 

فَلَمَّا نَسُوۡا مَا ذُکِّرُوۡا بِہٖۤ اَنۡجَیۡنَا الَّذِیۡنَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ السُّوۡٓءِ وَ اَخَذۡنَا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا بِعَذَابٍۭ بَئِیۡسٍۭ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ ﴿۱۶۵﴾ (الاعراف)
’’پھر جب وہ بھول گئے جو ان کو سمجھایا گیا تھا تو نجات دی ہم نے ان کو جو برائی سے منع کرتے تھے اور پکڑا ان کو جنہوں نے ظلم کیا برے عذاب میں بسبب ان کی نافرمانی کے.‘‘ اسی طرح اگر ہماری اجتماعی توبہ کی جدوجہد اس درجے تک نہ پہنچ پائے کہ نظام بدل جائے ‘پھر بھی اس کا فائدہ جدوجہد کرنے والوں کی اپنی نجات کی صورت میں توہوگا. فرض کیجیے کہ قوم کا معاملہ اس درجے تک آ گیا ہو کہ اب شامت اعمال آنی ہی آنی ہے‘ لیکن ہم اپنی سی کوشش کرتے ہیں تو چاہے انقلاب نہ آ سکے‘ ہم دین کو قائم نہ کر سکیں‘ منکرات کو ختم نہ کر سکیں‘ لیکن اگر ہم آخری دم تک یہ کام کرتے رہیں گے تو ہم اللہ کے ہاں نجات پا جائیں گے‘ ہماری اللہ تعالیٰ کے ہاں مغفرت ہو جائے گی. یہ ہے اجتماعی توبہ اور اس کا طریقہ کار.