اجتماعی توبہ کا یہ طریقہ کار میں کئی بار تفصیل سے بیان کر چکا ہوں‘ لیکن ایک بات کی طرف میرا ذہن حال ہی میں منتقل ہوا ہے . وہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ سے خلوصِ دل کے ساتھ دعا کریں گے تو اللہ کے نظام کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی دعا ضرور قبول ہو گی. دعا بہت بڑی شے ہے. نبی کریمﷺ نے فرمایا: اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ (۱) ’’دعا عبادت کا مغز ہے‘‘ . دوسری حدیث میں فرمایا:اَلدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ (۲) ’’دعا ہی عبادت ہے‘‘ .اجتماعی توبہ کا جو منہج میں بیان کرتا ہوں‘ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تو بڑا لمبا راستہ ہے کہ کم از کم دو تین لاکھ انسان صحیح معنی میں توبہ کریں‘ پھر وہ ایک طاقت بنیں اور تن من دھن لگانے اور اپنی جانیں دینے کے لیے تیار ہو جائیں. یہ کافی لمبا راستہ لگتا ہے ؏ ’’ دراز و دور دیدم رہ و رسم پارسائی‘‘ اس پر میرا ذہن منتقل ہوا ہے دعا کی طرف. فرمانِ باری تعالیٰ ہے : اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرۃ:۱۸۶) ’’میں ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی مجھے پکارے‘‘.دوسری جگہ فرمایا: اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ (النمل:۶۲) ’’بھلا وہ کون ہے جو کسی مضطر کی پکار کا جواب دیتا ہے ‘‘. مضطر کہتے ہیں (۱) سنن الترمذی‘ کتاب الدعوات عن رسول اللّٰہﷺ .
(۲) ایضاً. نہایت پریشان حال کو. جب ایک مضطر اور پریشان حال اللہ کو پکارے کہ اے اللہ! کسی اور طرف سے مجھے کوئی توقع نہیں رہی ‘ کوئی ایسا نہیں رہا جس سے مجھے کوئی امید ہو تو اے پروردگار! تو میری دستگیری فرما . یہ مضطر جب اضطرار کی حالت میں بالکل بے چین ہو کر اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے تو وہ اس کی دعا کو قبول کرتا ہے.
دعا کے بارے میں تو یہاں تک الفاظ آتے ہیں: لاَ یُرَدُّ الْقَضَاءَ اِلاَّ الدُّعَاءُ (۱) ’’قضا کو کوئی شے نہیں بدل سکتی سوائے دعا کے‘‘.تقدیر الٰہی کو بھی اسی لیے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے:(۱) تقدیر مبرم یعنی اللہ کا وہ فیصلہ ہے جو کسی صورت میں ٹل نہیں سکتا. (۲)تقدیر معلق یہ بھی اللہ کا فیصلہ ہوتا ہے لیکن اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے اور اس تقدیر معلق میں دُعا انتہائی مؤثر شے ہے. دُعا کی قبولیت کے لیے شرط وہی ہے کہ پہلے خلوص نیت سے اجتماعی توبہ کریں اور پھر دین الٰہی کی تبلیغ اور اللہ کے نظام کو قائم کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہو جائیں اور حرام سے اپنے وجود اور اپنے گھر کو پاک کریں. اس کے بغیر دعا کی قبولیت ممکن نہیں‘جیسا کہ سورۃ المائدۃ میں فرمایا گیا : قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ حَتّٰی تُقِیۡمُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ (آیت ۶۸) ’’(اے نبیﷺ ! ان سے) کہیے ‘ اے اہل کتاب تمہاری کوئی حیثیت نہیں اللہ کی نگاہوں میں (یعنی تمہاری کوئی دعا اللہ کے ہاں قابل پذیرائی نہیں ہے) جب تک کہ تم قائم نہیں کرتے تورات اور انجیل کو اور جو کچھ بھی تم پر نازل کیا گیا تمہارے رب کی طرف سے‘‘.اسی کی کمی ہے ‘ورنہ ہم دیکھتے ہیں کہ تیس تیس لاکھ آدمی حج کے موقع پر کیسی کیسی دعائیں مانگتے ہیں ‘لیکن ان دعاؤں کی قبولیت کے آثار ہمیں نظر نہیں آتے. آثار تب نظر آئیں گے جب خالص اور صحیح معنوں میں توبہ ہو گی. (۱) سنن الترمذی‘ کتاب القدر عن رسول اللّٰہﷺ ‘ باب ما جاء لا یرد القدر الا الدعاء.