موجودہ حالات کی روشنی میں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اس وقت اُمت مسلمہ پر ذلت و مسکنت تھوپ دی گئی ہے. قرآن حکیم میں یہود کے بارے میں فرمایا گیا ہے: وَ ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الۡمَسۡکَنَۃُ ٭ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ؕ (البقرۃ:۶۱’’اور ان پر ذلت و خواری اور محتاجی و کم ہمتی تھوپ دی گئی اور وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے‘‘.لیکن آج ان الفاظ کا مصداق اُمت مسلمہ بن چکی ہے. ایک طرف تو ذلت و رسوائی کا یہ عذاب ہے جو اس وقت پوری اُمت مسلمہ پر مسلط ہے‘ دوسری طرف ہمارا حال کیا ہے؟

ہمیں یہ کہتے ہوئے ساٹھ سال سے زیادہ ہو گئے ہیں کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے‘ لیکن کبھی یہ ہمت نہیں ہوئی کہ ہم الٹی میٹم دیتے کہ کشمیر چھوڑ و ورنہ آؤ مقابلہ کرو! یہ خوف نہیں ہے تو کیا ہے؟ اوپر سے صلح ہے‘ بھارت سے سفارتی تعلقات ہیں‘ لیکن ہماری خفیہ کارروائیاں جاری ہیں کہ اندر ہی اندر ہم کمانڈوز بھی بھیج دیتے ہیں . یہ طریقے تو ویسے بھی حرام ہیں.قرآن کا حکم تو یہ ہے کہ اگر کسی قوم کے ساتھ تمہارا کوئی معاہدہ ہے توپہلے اس کا معاہدہ اس کے منہ پر دے مارو اور پھر اقدام کرو. یہ منافقت اسلام نہیں سکھاتا کہ معاہدہ بھی رہے اور اندر ہی اندر اقدام بھی کرتے رہو. آج بھارت ہمارا پانی روک کر گویا ہمارا پیچ کستا جا رہا ہے . آپ اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ بھارت ہمارے میدانوں کو صحرا میں بدل کر رکھ دے گا‘ جبکہ ہماری حالت یہ ہے کہ ہم کشمیر کے لیے اسے کوئی الٹی میٹم نہیں دے سکے تو اب پانی کے لیے کہاں دیں گے! یہ کیا ہے؟ یہ ذلت و مسکنت ہے جو ہم پر تھوپ دی گئی ہے. تو یہ اللہ کا عمومی عذاب ہے پوری اُمت مسلمہ پر. آپ ذرا غور کیجیے کہ دنیا میں جہاں بھی خون بہہ رہا ہے وہ مسلمان کا ہے. وہ کشمیر ہو‘ فلسطین ہو‘ چیچنیا ہو‘ بوسنیا ہو‘ کوسوو ہو‘ صومالیہ ہو‘ افغانستان ہو یا عراق ہو. بقول اقبال ؎

رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر!