اُمت مسلمہ کی اس ذلت و رسوائی کا اصل سبب ہمارا یہ جرم ہے کہ ہم نے زمین کے کسی حصے پر بھی اللہ کا دین قائم کر کے لوگوں پر حجت قائم نہیں کی کہ آؤ دیکھو یہ ہے محمد کی رحمۃ للعالمینی کا سب سے بڑا مظہر‘ یہ ہے اسلام کا نظامِ عدلِ اجتماعی (Politico-Socio-Economic System of Justice) جو محمد نےدیا ہے‘جسے آپ نے اپنے زمانے میں قائم کر کے دکھا دیا تھا. آج بھی دنیا کو دکھانا ہو گا کہ آؤ دیکھو یہ نمونہ ہے. یہ نہیں کہ پدرم سلطان بود کہ ہمارا ایسا نظام تھا‘ بہت اعلیٰ تھا. کتابوں میں لکھاہوا نظام دنیا پر حجت نہیں ہے. یہ سبب ہے ہماری عمومی ذلت و مسکنت کا جو اس وقت دنیا میں ہمارے اوپر چھائی ہوئی ہے. 

ایک اعتبار سے اہل عرب مسلمان اس ذلت و رسوائی میں ایک قدم آگے ہیں‘ اس لیے کہ وہ سب سے بڑے مجرم ہیں. کیونکہ جس کا جتنا رتبہ بلند ہوتا ہے اتنی ہی اس کی ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے ؏’’جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے!‘‘ان کو ایک رتبہ یہ دیا گیا کہ محمد عربی ان ہی میں سے تھے. ؏ ’’یہ رتبہ ٔبلند ملا جس کو مل گیا‘‘. دوسرا رتبہ ان کو یہ دیا گیا کہ ان کی مادری زبان میں اللہ کا کلام ا ُ ترا . انہیں اس کو سمجھنے کے لیے کوئی گرامر سیکھنی نہیں پڑتی‘ کوئی گردانیں رٹنی نہیں پڑتیں. اس کے باوجود ان میں سے کسی نے بھی کہیں ایک انچ زمین پر دین حق کا نظام قائم نہیں کیا جو محمد رسول اللہ کے ذریعے دنیا میں قائم ہوا. پوری اُمت مسلمہ میں سے عربوں کا درجہ بلند ہونا ا س طرح ہے جیسے سورۃ الاحزاب میں ازواج النبی سے کہا گیا: یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ (آیت ۳۲’’اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو‘‘. یعنی تم پر جو اللہ کا خصوصی فضل ہوا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تم میں سے اگر کسی نے کوئی غلط حرکت کی تو اس کی سزا دوگنی ملے گی.