اس ضمن میں عربوں کے بعد سب سے بڑا معاملہ پاکستان کا ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے یہ خطہ ٔارضی اللہ سے ایک عہد کر کے گڑگڑا کر دعائیں مانگ مانگ کر لیا تھا. آج جو جس کے منہ میں آتا ہے بک دیتا ہے‘ لیکن میں تو اس کا چشم دید گواہ ہوں. تقسیم ہند کے وقت میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن ضلع حصار کا جنرل سیکریٹری تھا . ہم نے جلوس نکالے اورہر اجتماع میں دعائیں مانگیں‘ چاہے وہ اجتماع عیدین کے ہوتے تھے یا جمعہ کے . ہم بس یہی دعا مانگتے تھے کہ اے اللہ! یہ نہ ہو کہ انگریز کی غلامی کے بعد ہم ہندو کے غلام بن جائیں‘ ہمیں اس دوہری غلامی سے نجات دے دے‘ ہمیں ایک علیحدہ مملکت دے دے‘ اس میں ہم تیرے دین کا بول بالا کریں گے‘ تیرے نبی ﷺ کا لایا ہوا نظام قائم کریں گے. علامہ اقبال نے بھی ۱۹۳۰ء میں خطبہ ٔالٰہ آباد میں یہی بات کہی تھی اور پھر قائدا عظم نے اسی کی تکرار کی کہ ہم پاکستان اس لیے چاہتے ہیں کہ عہد حاضر میں اسلام کے اصول حریت و اخوت و مساوات کا ایک نمونہ پیش کر سکیں کہ آؤ دیکھو یہ ہے وہ نظام عدل اجتماعی جس کی تلاش میں نوعِ انسانی ٹھوکریں کھا رہی ہے.
فرانس کا انقلاب آیا تھاتاکہ سیاسی اعتبار سے عدل ہو جائے. سیاسی اعتبار سے توکچھ عدل ہوا کہ بادشاہت ختم ہو گئی‘ لیکن اب اقتصادیات کے راستے سے معاشی ظلم وجود میں آ گیا اور صنعتی انقلاب کے بعد سرمایہ دار گردن پر سوار ہو گیا. اس سے نجات پانے کے لیے ۱۹۱۷ء میں مارکس کا بالشویک انقلاب آیا تو اب ایک پارٹی مسلط ہو گئی. اب وہ بھی ختم ہو گیاتو اب انسان کدھر جائے گا؟ مغرب کو اصل خطرہ یہ ہے کہ کہیں لوگ اسلام کی طرف نہ دیکھنے لگیں. یہی بات اقبال نے اپنی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ کے اندر ابلیس کی زبان سے کہلوائی تھی : ؎
عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں!
یہ ہے اصل میں وہ چیز جس کے لیے ہم نے یہ ملک بنایا‘ لیکن ہم نے وعدہ خلافی کی. ساٹھ برس سے زیادہ ہو چکے ہیں اور ہم نے نہ وہ دین قائم کیا‘ نہ وہ قوانین نافذ کیے. آپ دیکھیں زیادہ دیر نہیں گزری جب افغانستان میں طالبان نے صرف چند اسلامی احکام اور چند شرعی سزائیں نافذ کی تھیں اور پورے افغانستان میں امن ہو گیاتھا. ملا عمر کے ایک حکم پر پوست کی کاشت زیرو ہو گئی تھی. اسی پر اہل مغرب کو اندیشہ ہوا کہ ابھی توانہوں نے شریعت کی چھوٹی چھوٹی چیزیں نافذ کی ہیں اور برکات کا ظہور ہو گیا ہے‘ اگر کہیں پوری شریعت نافذہو گئی اورپورا دین آ گیا تو پھر ہمارا نظام کہاں رہے گا؟ کیاسورج کے طلوع ہونے کے بعد تاریکی موجود رہے گی؟ اس لیے انہیں خوف لاحق ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اسلام کو نظام سمجھنے والے بنیاد پرست (Fundamentalists) ہمارے دشمن ہیں‘ ہم انہیں تباہ کر کے رہیں گے‘ ہم ان کو کسی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں.
سوال یہ ہے کہ کیا ہم ہمیشہ سے ایسے تھے ؟ ہرگز نہیں! ہمارا اس درجے گھٹیا کردار پہلے تو نہیں تھا‘ ہمارا معاشرہ اتنا برا کبھی نہیں تھا ؏ ’’جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی!‘‘یہ کیوں ہوا ہے‘ یہ سمجھنے کی بات ہے. ہمارے ہاں کچھ کالم نگار اورکچھ دانشور جمہوریت کی رٹ لگاتے ہیں کہ جمہوریت نہیں چلنے دی گئی اس لیے یہ خرابی ہے. میں یہ کہتا ہوں کہ جمہوریت کا نہ چلنا ایک علامت ہے‘ مرض نہیں ہے. مرض یہ ہے کہ ہم نے اللہ سے وعدہ خلافی کی ‘تو یہ اس وعدہ خلافی کی ایک سزا ہے جو ہم پر اس وقت مسلط ہوئی ہے ؎
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مؤمن کا بے زری سے نہیں!
آج جو مسلمان دنیا میں ذلیل و خوار ہیں تو کیایہ مال و دولت کی کمی کی وجہ سے ہے؟ نہیں! مال و دولت کی جو بہتات اس وقت متحدہ عرب امارات ‘ سعودی عرب اور بعض دوسرے ممالک کے اندر ہے اتنی بہتات دنیا میں اور کہیں نہیں ہے. برونائی کا سلطان دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہے اور وہ مسلمان ہی تو ہے. معلوم ہوا ہمارا زوال کسی اور وجہ سے ہے.