ہم نے پاکستان میں وہ کام نہیں کیا جس کا ہم نے اللہ سے وعدہ کر کے پاکستان لیا تھا تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو گئے . ہم نے ثابت کیا ہے کہ ہم سیاسی طور پر نابالغ ہیں ‘کیونکہ ہمارے سیاست دان یہاں کی حکومت کو سنبھال ہی نہیںسکے. اس سے آگے بڑھ کر قوم ایک قوم نہیں رہی بلکہ قومیتوں میں تحلیل ہو گئی ہے. اب قوم کہاں ہے؟ ع ’’ڈھونڈ اب اس کو چراغِ رخ ِزیبا لے کر!‘‘ اِدھر پشتون ہیں‘ اُدھر بلوچ ہیں‘ اِدھر سندھی ہیں‘اُدھر سرائیکی ہیں‘ اِدھر پنجابی ہیں‘ اُدھر اردو بولنے والے ہیں ‘ اس طرح یہ ایک قوم تو نہیں رہی. اگر یہ ایک قوم ہوتی اور کالا باغ ڈیم کو ایک ملک کا معاملہ سمجھا جاتا تو آج سے کم از کم دس پندرہ برس پہلے یہ ڈیم بن چکا ہوتا‘ لیکن یہ تو صوبائی معاملہ بنا دیا گیا ہے.
سندھی کے نزدیک اگر پورا ملک ڈوبتا ہے تو ڈوب جائے‘ ختم ہوتا ہے تو ہو جائے‘ پنجاب صحرا میں تبدیل ہوتا ہے تو ہو جائے‘ ہمیں کیا؟ اور ایسا فی الواقع ہو رہا ہے. ہم نے تین دریا بھارت کو دے دیے تھے‘ باقی جو دو ہیں ان کے اوپر وہ کتنے ڈیم بنا چکا ہے اور کتنے مزید بنا رہا ہے. وہ تو اگلا کام یہ کر رہا ہے کہ دریائے سندھ کا پانی بھی ایک سرنگ (tunnel) کے ذریعے سے ایک پہاڑ کو چیر کر لانا چاہتا ہے تاکہ اسے بھی وہ اپنے استعمال میں لے آئے . تم آپس میں ڈیم کے لیے لڑتے رہو اور جب تم ڈیم بنانے کا فیصلہ کرو گے تو اس وقت ڈیم کے لیے پانی کہاں سے آئے گا؟اور اگر ڈیم نہیں بھی بنے گا تو وہ پانی کہاں ہو گا جس سے سندھ سیراب ہو گا؟
اسی طرح کا معاملہ ہمارے باقی اداروں کا ہے. کرپشن نے پورے معاشرے کو کھوکھلا کر دیا ہے .بینکوں کا معاملہ کیا ہے؟ بینکوں کے پاس جو پیسہ ہوتا ہے وہ قوم کی امانت ہوتا ہے‘ لیکن ہمارے بینک ذریعہ بن گئے ہیں اس دولت کو لوٹنے کا‘ لٹانے کا اور سیاسی رشوتیں دینے کا. بالکل جعلی دستاویزات کے اوپر کروڑوں کے قرضے جاری کر دیے جاتے ہیں. دوسری طرف اربوں کے قرضے معاف کیے جا رہے ہیں. یہ کسی کے باپ کی دولت تھی جو معاف کر دی گئی؟ ہماری انتظامیہ مفلوج ہو کر رہ گئی ہے. عدلیہ کا حال اس سے بھی برا ہے. یہاں عدل بکاؤ مال ہے اورعدالتیں درحقیقت سودے بازی کے اڈے بن کر رہ گئی ہیں.ہمارے سیاست دان کھلے عام جھوٹ بول رہے ہیں‘ حالانکہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ مؤمن اور خواہ کچھ بھی ہو جائے جھوٹا نہیں ہو سکتا. حضرت امام مالکؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت صفوان بن سلیم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
قِیْلَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ : اَیَکُوْنُ الْمُؤْمِنُ جَبَانًا؟ فَقَالَ : نَعَمْ فَقِیْلَ لَہٗ اَیَکُوْنُ الْمُؤْمِنُ بَخِیْلًا؟ فَقَالَ : نَعَمْ فَقِیْلَ لَہٗ : اَیَکُوْنُ الْمُؤْمِنُ کَذَّابًا؟ فَقَالَ : (لَا! (۱) (۱) موطأ مالک‘ کتاب الجامع‘ باب ما جاء فی الصدق والکذب. ’’رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کیا مؤمن بزدل ہو سکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘. پھر پوچھا گیا : کیا مؤمن بخیل ہو سکتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘. پھر سوال کیا گیا ‘ کیا مؤمن جھوٹا ہو سکتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں!‘‘
جبکہ ہمارے سیاست دان جھوٹ اور وعدہ خلافی کے بادشاہ ہیں. وعدہ خلافی کے بارے میں حضورﷺ نے فرمایا:
لاَ اِیْمَانَ لِمَنْ لَا اَمَانَۃَ لَـہٗ وَلَا دِیْنَ لِمَنْ لَا عَھْدَ لَـہٗ (۱)
’’جس میں امانت داری نہیں ہے اس میں ایمان نہیں ہے اور جس کے اندر ایفائے عہد نہیں اس کا کوئی دین نہیں.‘‘
آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدرِ مملکت استہزائیہ انداز میں کہتا ہے کہ کیا وعدے ‘ چاہے وہ تحریر شدہ بھی ہوں‘ پورے کرنے کے لیے ہوتے ہیں؟ وعدہ خلافی علامت ہے خیانت کی‘ اور اس سطح پر خیانت ہزاروں اور لاکھوں کی نہیں بلکہ اربوں کھربوں کی ہوتی ہے.حکمران تو معاشرے کے عکاس ہوتے ہیں .حضورﷺ نے ہمیں بتا رکھا ہے : کَمَا تَکُوْنُوْنَ کَذٰلِکَ یُؤَمَّرُ عَلَیْکُمْ (۲) ’’جیسے تم خود ہو گے ویسے ہی لوگ تمہارے اوپر حکمران ہو جائیں گے!‘‘چنانچہ میں یہ کہا کرتا ہوں اور آج پھر کہہ رہا ہوں کہ اس وقت ہمارے معاشرے کا حال یہ ہے کہ جو جتنا بڑا ہے ‘ اِلاماشاء اللہ ‘وہ اتنا ہی بڑا جھوٹا ہے.جو جتنا بڑا ہے ‘اِلاماشاء اللہ‘ وہ اتنا ہی وعدہ خلاف ہے اور جو جتنا بڑا ہے ‘اِلا ماشاء اللہ‘ وہ اتنا ہی خائن اور غبن کرنے والا ہے. ٭ (۲) مسند احمد‘ ح ۱۱۹۳۵ و ۱۲۱۰۸ و ۱۲۷۲۲ و ۱۳۱۴۵. الترغیب والترھیب للمنذری‘ ج۴‘ ص ۷۷. راوی: انس بن مالک رضی اللہ عنہ.
(۳) رواہ البیھقی فی شعب الایمان. بحوالہ مشکاۃ المصابیح‘ کتاب الامارۃ والقضاء‘ الفصل الثالث.
٭ نبی اکرمﷺ نے مستقبل کے حکمرانوں کے بارے میں ایک پیشین گوئی کی تھی جو آج ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں پر بعینہٖ صادق آتی ہے. نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
سَیَکُوْنُ اُمَرَائُ بَعْدِیْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ وَیَفْعَلُوْنَ مَا لَا یُؤْمَرُوْنَ (مسند احمد کتاب مسند المکثرین من الصحابۃ‘ باب مسند عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللہ عنہ‘ ح:۴۱۳۳)