یہ بات سمجھ لیجیے کہ پاکستان کا قیام پولیٹکل سائنس کے اصولوں کے حوالے سے کسی حساب کتاب میں نہیں آتا. اس کے باوجود پاکستان کا قیام ایک معجزہ تھا. ہندو ہم سے تعداد میں تین گنا زیادہ تھے .مسلم لیگ کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں تھی اور مسلمانوں کی بھی کوئی حیثیت ہندوئوں کے مقابلے میں نہیں تھی. تعلیم اور کاروبار میں ہم بہت پیچھے تھے‘ جبکہ صنعت و حرفت میں تو ہمارا کوئی دخل تھا ہی نہیں‘ اس میں تو سارے کے سارے ہندو تھے. پھر اُس وقت انگلستان میں لیبر پارٹی کی حکومت تھی اور وزیر اعظم اٹیلی کو قائداعظم سے نفرت تھی‘جس کا اظہار وہ اپنی کتاب میں کر چکا ہے. اس سے بھی بڑھ کر ہندوستان کا وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن گاندھی کا چیلا تھا اور گاندھی نے کہا تھا کہ پاکستان صرف میری لاش پر بن سکتا ہے. پھر کیسے بن گیاپاکستان؟انگریز کہتے تھے کہ ہندوستان کبھی متحد نہیں رہا‘ کبھی ایک یونٹ بن کر نہیں رہا اور یہ ہمارا بڑا کارنامہ ہے کہ ہم نے ایسا کر کے دکھا دیا. وہ تو چاہتے تھے کہ ان کا یہ کارنامہ باقی رہے‘ لیکن انہوں نے نام لیا اقبال کا کہ اس نے ہمارے اس خواب کو پورا نہیں ہونے دیا. علامہ اقبال ۱۹۳۲ء کی گول میز کانفرنس میں موجود تھے. رمزے میکڈونلڈ نے اسی کانفرنس کے موقع پر کہا تھا:
".A poet has destroyed our dream of United India"
یعنی ہم ہندوستان کو ایک ہی ملک کی حیثیت سے چھوڑ کے جانا چاہتے تھے مگر ایک شاعر نے ہمار ایہ خواب پورا نہیں ہونے دیا. علامہ اقبال کا ۱۹۳۰ء کا خطبہ تھا جس نے ان کے خواب کی دھجیاں بکھیر دی تھیں‘ جس میں انہوں نے واضح کر دیا تھا کہ ہندو کے ساتھ ہماری ایک قومیت نہیں ہے :
.We are a different nation altogether
تو یہ جان لیجیے کہ پاکستان اس وعدے کی بنا پر بنا ہے جو ہم نے اللہ تعالیٰ سے اس کے ’’عنقریب میرے بعد ایسے حکمران ہوں گے جو کہیں گے وہ جو کریں گے نہیں اور وہ کریں گے جس کا انہیں حکم نہیں دیا جائے گا.‘‘یعنی ان کے قول وفعل میں تضاد ہو گا. (اضافہ از مرتب) نظام کو نافذ کرنے کا کیا تھا اور اللہ کی مشیت خصوصی سے بنا ہے.
اس کے ساتھ ساتھ یہ اللہ کی طرف سے ایک آزمائش بھی ہے. اس کے لیے میں سورۃ الاعراف سے ایک مثال پیش کر رہا ہوں. میری ساری سوچ بچار‘ میرا سارا غور و فکر‘ میرا سار ا دار و مدار تو کتاب و سنت ہے. وہی مبنی ٰ بھی ہے جس پر بنیاد ہوتی ہے‘ وہی محور بھی ہے جس کے گرد کوئی چیز گھومتی ہے. میری سوچ اور غور و فکر کا مبنیٰ بھی قرآن و سنت ہے اور محور بھی سورۃ الاعراف میں ایک مثال دی گئی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مصر میں مبعوث ہوئے ‘بنی اسرائیل اُس وقت بڑے شدید مصائب میں گرفتار تھے. حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت سے پہلے بھی آلِ فرعون ان پر ظلم کر رہے تھے اور ان ؑکے آنے کے بعد بھی یہ مظالم جاری تھے.
انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے شکوہ کیا: اُوۡذِیۡنَا مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَاۡتِیَنَا وَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جِئۡتَنَا ؕ ’’ہم آپ کے آنے سے پہلے بھی ستائے جاتے رہے ہیں اور آپ کے آنے کے بعد بھی‘‘.یعنی ہمارا حال وہی ہے ‘ آپ کے آنے کے بعد بھی ہمارا حال نہیں بدلا. جواب میں کہا گیا : عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّہۡلِکَ عَدُوَّکُمۡ وَ یَسۡتَخۡلِفَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۲۹﴾ ’’ عنقریب تمہارا ربّ تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا اور تمہیں زمین میں حکومت عطا کرے گا‘ پھر دیکھے گا تم کیا کرتے ہو‘‘. میں جب یہ آیت پڑھتا ہوں تو مجھے صاف نظر آتا ہے کہ پاکستان کا قیام بھی اللہ کی طرف سے ایک آزمائش اور امتحان ہے اس لیے کہ قیام پاکستان میں بہت دشواریاں تھیں. پاکستان کا قیام گاندھی کی موت تھی‘ نہرواور پٹیل کی موت تھی‘ کانگریس کی موت تھی‘ وہ اس کو کسی درجے میں قبول کرنے کو تیار نہیں تھے اور آج تک انہوں نے قبول نہیں کیا. اس سب کے باوجود اللہ نے پاکستان دے دیا تو یہ اللہ کی طرف سے ایک امتحان تھا‘ جیسے بنی اسرائیل کا امتحان لیا گیا کہ اگر تمہیں اقتدار مل جائے تو تم کیا کرتے ہو؟ یہ وہ امتحان تھا جس میں ملت اسلامیہ پاکستان ۱۹۴۷ء کے بعد مبتلا ہو گئی تھی‘ لیکن اس امتحان کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ساڑھے ۶۱ برس ہو گئے اور وہ اسلام تو قائم نہیں ہوا. ہم نے اللہ سے اپنا عہد توڑا ہے ‘ وعدہ خلافی کی ہے.