دیکھئے ایک ہے اسلام مسجدوں والا ‘ نمازوں والا‘ روزوں والا‘ حج والا. وہ تو انڈیا میں بھی ہے‘ امریکہ میں بھی ہے. وہاں مسجدیں بن رہی ہیں‘ روزے رکھے جا رہے ہیں‘ عیدیں منائی جا تی ہیں‘ یعنی اسلام مذہب کی حیثیت میں دنیا میں ہر جگہ موجود ہے‘ لیکن اسلام بحیثیت دین کہیں نہیں ہے. دین کہتے ہیں مکمل نظام حیات کو‘ اور قرآن میں اسلام کے لیے ہمیشہ لفظ دین آیا ہے‘ مذہب نہیں آیا. پورے قرآن میں لفظ مذہب ہے ہی نہیں. حدیث میں بھی میری معلومات کی حد تک لفظ مذہب نہیں آیا. ہماری تاریخ میں مذہب کا لفظ استعمال ہوتا ہے مگر فقہی مسالک کے لیے ‘ مثلاًمذہب ابی حنیفہ‘ مذہب شافعی‘ مذہب مالکی‘ یہ مذاہب ہیں اور دین سے مراد تو اللہ کا دین یعنی دین اسلام ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی: اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ ۟ (آل عمران:۱۹’’یقینا دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے‘‘. دوسری جگہ فرمایا: وَ مَنۡ یَّبۡتَغِ غَیۡرَ الۡاِسۡلَامِ دِیۡنًا فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡہُ ۚ (آل عمران:۸۵’’اور جوکوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو اختیار کرنا چاہے گا تو وہ اس کی جانب سے قبول نہیں کیا جائے گا‘‘ .یہی وہ دین ہے جس کو نافذ کرنے کے لیے ہم نے پاکستان مانگا تھاورنہ اسلام بحیثیت مذہب تو دنیا میں ہر جگہ موجود ہے. 

صدر بش کے آخری ایام میں ان کے موقف میں تھوڑی تبدیلی ہو گئی تھی‘ ورنہ امریکی حکمرانوں کا موقف یہ تھا کہ مذہب ِاسلام سے ہماری کوئی جنگ نہیں ہے‘ ہاں اگر اسلام بحیثیت نظام کی بات کرو گے تو جنگ ہو گی. چنانچہ میں اپنی تقریروں میں یہ کہتا رہا ہوں کہ صدر بش امریکہ میں مقیم مسلمانوں سے یہ کہہ سکتا ہے کہ دیکھو تم ہندوستان سے آئے‘عرب سے آئے‘ شام سے آئے‘ ترکی سے آئے اور تم نے یہاں آ کے چرچ خرید کر مسجدیں بنا لیں ‘ کیا ہم نے کبھی تمہیں روکا ؟ تم نے یہودیوں کے سنیگاگ خریدے اورانہیں مسجد بنا لیا‘ ہم نے نہیں روکا. تم روزے رکھتے ہو ہم کبھی نہیں روکتے ہیں‘ بلکہ ہم وائٹ ہاؤس میں ایک افطاری بھی دے دیتے ہیں. تم عید مناتے ہو اور ہم تمہاری عید الفطر اور بقر عید پریادگاری ٹکٹ شائع کر دیتے ہیں. تو تمہارے مذہب ِ اسلام سے تو ہماری کوئیجنگ نہیں ہے… لیکن یہ ذرا پرانی بات ہے . حال ہی میں وہاں کا Neocons طبقہ یہ کہتا ہے کہ یہ مذہب بھی شیطانی مذہب ہے. نقل کفر کفر نہ باشد‘ وہ کہتے ہیں کہ (معاذ اللہ!) Quran is evil (معاذ اللہ!)Muhammad is evil 

چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ اس مذہب کی بھی جڑ کاٹنی پڑے گی ‘اس لیے کہ قرآن تو اپنے اندر پورے کا پورا دین اور پورے کا پورا نظام لیے ہوئے ہے .قرآن سے آپ جہاد کو کھرچ نہیں سکتے‘ ہاں اپنے سکولوں کے نصاب سے آیات جہاد نکال سکتے ہیں. چنانچہ بعض عرب ممالک میں نصابی کتب میں سے جہاد سے متعلق آیات اور یہو د و نصاریٰ کی مخالفت پر مبنی آیات نکال دی گئی ہیں‘ لیکن قرآن میں سے تو ان کو کوئی نہیں نکال سکتا‘ کیونکہ اللہ نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی ہے: اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾ (الحجر) ’’یہ’الذکر‘تو ہم نے خود نازل کیا اور ہم خود ہی اس کے محافظ ہیں‘‘. دوسری جگہ فرمایا : لَّا یَاۡتِیۡہِ الۡبَاطِلُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ لَا مِنۡ خَلۡفِہٖ ؕ (حٰم السجدۃ:۴۲’’باطل اس پر حملہ آور ہو ہی نہیں سکتا ‘ نہ آگے سے اور نہ پیچھے سے.‘‘