ہم نے جو مملکت خداداد پاکستان میں اسلام کو بحیثیت دین نافذ نہیں کیا‘ جس کا ہم نے اللہ سے وعدہ کیا تھا‘ تو اس کی سزا ہمیں منافقت کی صورت میں مل رہی ہے. یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ اسلام کیوں نافذ نہیں ہوا ؟مجرم کون ہے ؟ میر ے نزدیک پوری قوم مجرم ہے‘ اِلاّ یہ کہ جو بھی نفاذِ اسلام کی جدوجہد میں اپنا تن من دھن لگاتا رہا ہے وہ اللہ کے ہاں بچ جائے گا ‘ باقی تو پوری قوم مجرم ہے. ہاں قوم کے اندر جس کی جتنی بڑی حیثیت ہے اتنی ہی بڑی اس کی ذمہ داری بھی ہو جاتی ہے‘ لیکن میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا. چونکہ یہاں اسلام کا نظامِ اجتماعی نہیں آ سکا ‘لہذا اس جرم کی سزا کے طور پر ہم پر منافقت مسلط کی گئی ہے. اس بات کو میں سورۃ التوبہ کی تین آیات کے حوالے سے بیان کرتا ہوں. مدینہ کے منافقین کے بارے میں فرمایا گیا:
وَمِنْہُمْ مَّنْ عٰہَدَ اللّٰہَ لَئِنْ اٰتٰٹنَا مِنْ فَضْلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَکُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۷۵﴾فَلَمَّاۤ اٰتٰہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ بَخِلُوۡا بِہٖ وَ تَوَلَّوۡا وَّ ہُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ ﴿۷۶﴾فَاَعۡقَبَہُمۡ نِفَاقًا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ اِلٰی یَوۡمِ یَلۡقَوۡنَہٗ بِمَاۤ اَخۡلَفُوا اللّٰہَ مَا وَعَدُوۡہُ وَ بِمَا کَانُوۡا یَکۡذِبُوۡنَ ﴿۷۷﴾
’’ان میں کچھ لوگ وہ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اللہ ہمیں اپنے فضل سے نواز دے گا (دولت دے گا ‘ غنی کر دے گا) تو ہم خوب صدقہ و خیرات کریں گے اور نیک بن جائیں گے . پھرجب اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نواز دیا تو انہوں نے بخل سے کام لیا (تجوریوں پر تالے لگا دیے) اور پیٹھ پھیر کر اعراض کرنے لگے . تو عقوبت (سزا) کے طور پر ہم نے ان کے دلوں کے اندر نفاق پیدا کر دیااُس دن تک کے لیے جب یہ اُ س سے ملیں گے اور یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیاتھا اُسے پورا نہ کیا اور اس لیے کہ وہ جھوٹ بولتے رہے.‘‘
یہی سزا خاص طو رپر مسلمانانِ پاکستان پر مسلط ہوئی ہے اس وعدہ خلافی کی وجہ سے جو ہم نے اللہ سے کی ہے.
آپ غور کیجیے کہ دنیا کاکوئی اور مسلمان ملک اللہ سے اس طرح کا عہد کر کے آزاد نہیں ہوا. نہ مصریوں نے کبھی ایسا عہد کیا‘ نہ شامیوں نے کیا‘ نہ سعودیوں نے کیا‘ نہ ایرانیوں نے کیا اور نہ ہی افغانیوں نے کیا. ایک ملک جو پہلے موجود تھا ہی نہیں‘ اسلام کے نام پر بنا ہے ‘جبکہ باقی ممالک تو ہمیشہ سے تھے .انڈونیشیا بھی ہمیشہ سے تھا ‘ مصر‘ لیبیا‘ الجزائر‘ شام سب ہمیشہ سے تھے. پاکستان جو ایک برعظیم کو تقسیم کر کے نیا ملک بنایا گیا وہ اسلام کے نام پر بنایا گیا اور وہاں اسلام نہیں آیا. یہ ہے ہمارا وہ اضافی جرم جس کی اضافی سزا یہ ملی ہے.
میں آج بڑے دکھ کے ساتھ کہہ رہا ہوں‘ لیکن میں اگر یہ الفاظ استعمال نہیں کروں گا تو آپ میرے اصل احساسات کو سمجھ نہیں سکیں گے‘ کہ آج مسلمانانِ پاکستان دنیا کی عظیم ترین منافق قوم ہے. اس منافقت کا ذرا حساب کر لیجیے. اس بارے میں دو احادیث نبوی پیش کر رہا ہوں جو دونوں متفق علیہ ہیں. پہلی حدیث کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں. وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: آیَـۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ: اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ‘ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ‘ وَاِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ (۱)
وفی روایۃٍ لمُسْلمٍ :
آیَـۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ: وَاِنْ صَامَ وَصَلّٰی وَزَعَمَ اَنَّـہٗ مُسْلِمٌ
’’منافق کی تین نشانیاں ہیں: (i)جب بولے جھوٹ بولے (ii)جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے (iii)جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے.‘‘
مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں: ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں‘ اگرچہ روزہ رکھتا ہوا ور نماز پڑھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو.‘‘
دوسری حدیث حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
اَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَۃٌ مِنْھُنَّ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَۃٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتّٰی یَدَعَھَا اِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ وَاِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا عَاھَدَ غَدَرَ وَاِذَا خَاصَمَ فَجَرَ (۲)
’’چار چیزیں اگر کسی میں ہوں تو وہ پکا منافق ہے اور اگر ان میں سے ایک ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت پائی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے (وہ چار نشانیاں یہ ہیں) (i) جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے (ii)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (iii)جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے (iv)جب کسی سے جھگڑ پڑے تو آپے سے باہر ہو جائے (یعنی گالم گلوچ اور مار دھاڑ پر اُتر آئے).‘‘
ان نشانیوں کو سامنے رکھیے اور اپنے معاشرے کا جائزہ لیجیے. میں بتا چکا ہوں کہ ہمارے ہاں جو جتنا بڑا ہے اتنا ہی بڑا جھوٹا ہے‘ اتنا ہی بڑا وعدہ خلاف ہے. یہ کسی اور کی بات نہیں ہے ‘ یہ ہم خود ہیں. اپنے گریبانوں میں جھانک لیں‘ جھوٹ سے کتنے بچے ہوئے ہیں ‘ ایفائے عہد کتنا ہے ہمارے اندر! اگر ایک طرف پیسہ ہو اور دوسری طرف (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الایمان‘ باب علامۃ المنافق. وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان خصال المنافق.
(۲) صحیح البخاری‘ کتاب الایمان‘ باب علامۃ المنافق. وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان خصال المنافق. واللفظ للبخاری. دیانت تو ہم کدھرجائیں گے؟ یہ ہمارا قومی کردار ہے اور اسی وجہ سے قوم کھوکھلی ہو گئی ہے. یہ نفاقِ عملی ہے‘ ازروئے حدیث :’’ جس کے اندر امانت کا وصف نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں ہے اور جس کے اندر ایفائے عہد نہیں اس کا کوئی دین نہیں ہے.‘‘