آپ جانتے ہیں کہ کسی ملک کی اہم ترین دستاویز اس کا دستور ہوتا ہے . میں سخت الفاظ کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کا دستور منافقت کا پلندہ ہے. اگرچہ اس میں پور ااسلام موجود ہے ‘لیکن اسلامی دفعات کے مؤثر ہونے میں بہت سے چور دروازے حائل ہیں. جیسے منافق مسلمان تو ہوتا تھا ‘لیکن اس میں ایمان نہیں ہوتا تھا اسی طرح ہمارے دستور میں پورا اسلام موجود ہے لیکن ایمان نہیں ہے . قراردادِ مقاصد ( آرٹیکل 2-A)پاکستان کے دستوری خاکے میں ’’رہنما اصول‘‘ کی حیثیت سے موجود ہے‘ لیکن یہ پورے دستور پر حاوی نہیں ہے. اس میں صرف ایک جملہ بڑھا دیا جائے : 

".This article will take precedence over all the provisions of the constitution"

یعنی یہ دفعہ پورے دستور پر حاوی رہے گی تو اس طرح اِس دور میں اسلامی ریاست کا دستوری تقاضا صد فی صد پورا ہو جاتا ہے. لیکن ایسا نہیں ہے ‘ بلکہ ہمارے دستور میں بہت سی غیر اسلامی دفعات بھی موجود ہیں. مثلاً ایک دفعہ یہ بھی ہے کہ کسی کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے اور اس کو تمام کورٹس نے برقرار رکھاہے‘ اس کے بعد بھی صدر صاحب کو اختیار ہے کہ چاہے تو اسے معاف کر دیں . اسلام میں یہ اختیار کسی کو نہیں دیا گیا. قاتل کو صرف مقتول کے ورثاء معاف کر سکتے ہیں ‘کوئی صدر ایسا نہیں کر سکتا. جب اس پر پٹیشن دائر کی گئی تو اُس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب ‘جو بہت بڑے مسلم لیگی ہیں‘ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ وہ بھی دستور کی ایک دفعہ ہے اور یہ بھی دستور کی ایک دفعہ ہے ‘ لہذا قراردادِ مقاصد اس کو غیر مؤثر نہیں کر سکتی. پھر ہمارے دستور میں یہ شق بھی موجود ہے:

"No legislation will be done repugnant to the Quran and the Sunnah" ’’قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی.‘‘

لیکن اس کے لیے کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی قائم کر دی گئی ہے جواس کے بارے میں رپورٹیں دیتی رہے گی. آگے ان رپورٹوں کا کیا بنے گا اس کا کچھ ذکر نہیں. ان رپورٹوں کا کیا حشر ہو گا کچھ پتانہیں. اگر یہی طے کر دیا جاتا کہ دو یا تین مہینے کے اندر اندر رپورٹ پارلیمنٹ میں پہنچ جانی چاہیے تو بھی اس ضمن میں کچھ پیش رفت ہوتی‘ لیکن ایسا کچھ نہیں ہے. کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی پر اربوں روپیہ خرچ ہوا ہے. علماء کرام بڑی بڑی تنخواہیں لے رہے ہیں اور انہیں فائیوسٹار ہوٹلز کے اندر ٹھہرایا جاتا رہا ہے. یہ بھی یاد رہے کہ اس کونسل میں تمام فرقوں کے علماء دیوبندی‘ بریلوی‘ اہل حدیث اور شیعہ سب شامل تھے. انہوں نے بہت کام کیا ہے ‘اس میں کوئی شک نہیں‘ لیکن ساری رپورٹیں وفاقی حکومت کی الماریوں کے اندر جا کر جمع ہو گئیں اور آج تک کوئی ایک رپورٹ بھی دستور کا حصہ بننا تو کجا پارلیمنٹ میں ہی نہیں آئی. یہ ہیں چور دروازے !

آج سے چند سال پہلے جب نواز شریف صاحب کی حکومت فیصلہ کن اکثریت سے قائم ہوئی تھی‘ان کے پاس دو تہائی سے زیادہ اکثریت تھی‘ مرکز میں وہ وزیر اعظم تھے اور پنجاب میں وزیر اعلیٰ شہباز صاحب تھے‘یہ حضرات مجھ سے ملنے قرآن اکیڈمی آئے تھے. اس ملاقات کا پس منظر یہ تھا کہ ان کے والد میاں محمد شریف صاحب حرم میں مجھے ملے تھے. مجھے وہیل چیر پر دیکھ کر وہ میرے پاس آئے اور حال احوال پوچھا. پھر کہنے لگے کہ میں آپ کو لاہور میں ملوں گا. جب ان کے دو بیٹوں کی حکومت بنی تو مجھے اچانک خیال آیا کہ میں میاں شریف صاحب کو خط لکھوں کہ آپ کے بیٹوں کو اللہ تعالیٰ نے وہ فیصلہ کن اقتدار دے دیا ہے ‘ اب ان کو چاہیے کہ اس ملک کے اندر اسلام کے نفاذ کی طرف قدم اٹھائیں. میں نے اپنے خط میں الفاظ عجیب سے لکھ دیے : آپ نے کہا تھا کہ آپ تشریف لائیں گے لیکن آپ تو آئے نہیں‘اور میں اس لیے نہیں آیا کہ میرے نزدیک دین کے خادموں کا دولت مندوں کے دروازوں پر حاضری دینا مناسب نہیں. اگلے ہی روز میاں محمد شریف‘ اپنے تینوں بیٹوں میاں نواز شریف‘ میاں شہباز شریف اور میاں عباس شریف کے ہمراہ‘ قرآن اکیڈمی چلے آئے. میں نے ان کو دستور کے بارے میں بتایا کہ اس کے اندر جو چور دروازے ہیں ‘انہیں بند کر دیجیے‘ ملکی معیشت سے سود ختم کیجیے. انہوں نے اس کے بارے میں وعدے کیے ‘لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفاہوگیا!یہ حضرات دو دفعہ میرے پاس آئے. میری کوئی حیثیت نہیں‘ نہ میری سیاسی حیثیت ہے‘ نہ مذہبی حیثیت ہے‘ اس لیے کہ مذہبی اعتبار سے میں کسی فرقے کا آدمی نہیں ہوں کہ مجھے فرقہ وارانہ حمایت حاصل ہو. پھر میں اپنا وفد لے کر گیا اور پرائم منسٹر ہاؤس میں ان سے ملا . میں نے دستور کی ترمیم پیش کی کہ یہ ہیں چور دروازے‘ انہیں بند کر دیجیے . انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے! میرے سامنے انہوں نے راجہ ظفرالحق صاحب سے کہا کہ راجہ صاحب‘ دستوری ترمیم کا بل تیار کیجیے. ہوا پھر بھی کچھ نہیں. بہرحال اس وقت تک بھی پاکستان کا دستور منافقت کا پلندہ ہے کہ اس میں پور ااسلام ہے بھی اور نہیں بھی ؏ ’’ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے!‘‘