وعدہ خلافی کی ایک اور سزا : اندرونی خلفشار اور بیرونی یلغار

اللہ تعالیٰ سے کی گئی وعدہ خلافی کا دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نفاق باہمی کا بھی شکار ہو گئے. اب قوم‘ قوم نہیں رہی ‘قومیتوں میں تقسیم ہو گئی ہے. اب ہمارے ہاں مرکز گریز قوتیں (centrifugal forces) بہت مضبوط ہیں. سرحد میں اسفندیار ولی کی حکومت ہے جو ولی خان کا بیٹا ہے اور ولی خان وہ شخص ہے جو کہتا تھا کہ پاکستان انگریز کی سازش سے بنا ہے‘ اسے انگریز نے بنایا ہے‘ مسلم لیگ نے نہیں بنایا میرے نزدیک بھی مسلم لیگ نے نہیں بنایا‘بلکہ اللہ نے بنایا ہے آج کل اخبارات کے اندر بڑی بحث چل رہی ہے کہ قائد اعظم نے کیبنٹ مشن پلان کو مان لیا تھا. میرے نزدیک یہ ان کی بہت بڑی سیاسی دانشمندی کا ثبوت ہے کہ انہوں نے اسے منظور کر لیا. اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی نگاہ پورے عالمی حالات پر تھی. انہوں نے ہی تو کہا تھا کہ ’’اسرائیل مغرب کا حرامی بچہ ہے ‘‘ یعنی یہ برطانیہ اور امریکہ کی ناجائز اولاد ہے انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اب برطانیہ یہاں سے جانے کا فیصلہ کر چکا ہے. وہ اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ اتنے دور دراز علاقوں پر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتا . اس نے مئی ۱۹۴۸ء کی تاریخ اس علاقہ کو خالی کرنے کے لیے مقرر کی تھی ‘جس کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا ہے. اب اگر قائد اعظم کیبنٹ مشن پلان نہ مانتے تو اس بات کا اندیشہ تھا کہ انگریز یک طرفہ طور پر ہندوستان کا اقتدار کانگریس کے سپرد کر کے یہاں سے چلا جاتا. اب اگر ایک دفعہ پورے ہندوستان پر کانگریس کی حکومت بن جاتی تو پھر کون پاکستان بننے دیتا؟ہندوؤں نے کشمیر کا ایک انچ ہمیں نہیں دیا تو پورا پاکستان کیونکر دے دیتے؟ اس لیے قائد اعظم نے اس کو منظور کر لیا کہ اس منصوبہ کے اندر ایک امکان تو ہے کہ دس سال کے بعد یہ دونوں زون علیحدہ ہو جائیں گے.

وہ تو اگر نہرو خاموش رہتا توپاکستان کبھی وجود میں نہ آتا. نہرو سے پریس کانفرنس میں پوچھا گیا کیا آپ اسے علیحدہ ہونے کی اجازت دے دیں گے؟ کہنے لگا :ایک دفعہ بن جانے دو پھر کون کسی کو علیحدہ ہونے دیتا ہے . بس اسی پر قائد اعظم نے ریورس گیئر لگایا کہ اگر یہ نیتیں ہیں تو پھر ہم نہیں مانتے. اب ظاہر بات ہے کہ کوئی الزام ان کو نہیں دیا جا سکتا تھا‘ الزام سارے کا سارا نہرو کے اوپر تھا. مولانا آزاد نے اپنی کتاب ’’India wins Freedom‘‘ میں اپنے پورے سیاسی کیریئر کی صرف ایک غلطی تسلیم کی ہے اور وہ یہ کہ اُ س وقت بھی ان پر دباؤ تھا کہ وہ کانگریس کے صدر رہیں لیکن انہوں نے نہیں مانا.اس کی وجہ یہ ہے کہ قائد اعظم نے انہیں ’’شو بوائے‘‘ کہہ کر نہایت شرمندہ کر دیا تھا اورانہیں معلوم ہو گیا تھا کہ کانگریس کے ساتھ تو ایک مسلمان بھی نہیں‘ تو میرا یہاں صدر ہونا محض دکھاوے کے لیے ہے. چنانچہ انہوں نے کانگریس کا صدر رہنا قبول نہیں کیا اور ان کے انکار پر نہرو صدر بن گیا. مولانا آزاد نے تسلیم کیا کہ اگر نہرو کانگریس کا صدر نہ ہوتا تو اُس کے اِس جواب کا کوئی نتیجہ نہ نکلتا. جس پر قائد اعظم نے فوراً ایکشن لیا اور ایک لمحہ ضائع کیے بغیر گاڑی کا ریورس گیئر لگایا اور تب پاکستان وجود میں آیا. پھر اس حوالہ سے بھی یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزہ ہے کہ یہ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کووجود میں آیا .وہ شب جس میں قرآن نازل ہوا ہے‘ اسی میں پاکستان نازل ہوا ہے ‘جمعۃ المبارک کی شب کو. بہرحال اب صورت حال یہ ہے کہ یہاں ایک قوم نہیں ہے بلکہ نفاق باہمی ہے.