اب اس سب کا ایک حاصل داخلی ضعف ہے اور اس کا دوسرا نتیجہ بیرونی یلغار ہے ‘کیونکہ اگر آپ اندر سے کمزور ہو جائیں گے ‘ آپ کی قوت مدافعت کم ہو گی‘ تو ہر طرح کے جراثیم آپ پر حملہ آور ہوں گے ‘ آپ کو بیمار کریں گے ‘اور اگر آپ میں قوت مدافعت ہو گی تو آپ جراثیم کا مقابلہ کر کے انہیں شکست دے دیں گے . جب آپ اندر سے کمزور ہو گئے‘ اندرونی خلفشار کا شکار ہو گئے ‘ قوم نہیں رہے بلکہ قومیتیں بن گئے تو پھر خارج سے بھی ہم پر حملے شروع ہو گئے. پہلا حملہ ۱۹۷۱ء میں ہوا. اندرونی خلفشار ہم نے پیدا کیا تھا‘ بدامنی ہم نے کی تھی‘ مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن ہم نے کیا تھا‘ انتخابات کے نتائج کو ماننے سے انکار ہم نے کیا تھا. بدمعاش یحیی خان جواس ملک کا قاتل ہے‘اس کے کرتوتوں کا بھارت نے فائدہ اٹھایااور وہ کیوں نہ اٹھاتا؟بڑا پیارا شعر ہے فارسی کا ؎

نیش عقرب نہ از پئے کین است
اقتضائے طبیعتش این است 

یہ جو بچھو ڈنگ مارتا ہے یہ تمہاری دشمنی کی وجہ سے نہیں مارتا‘ اسے تم سے کوئی کینہ نہیں ہے‘ یہ تو اس کی طبیعت کا تقاضا ہے ‘اس نے تو اپنی سرشت کے تقاضے کے مطابق ڈنگ مارنا ہی مارنا ہے .تو بھارت کی قومی حمیت کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان ان کے سینے کا ناسور ہے ‘ ان کی بھارت ماتا کے ٹکڑے ہوئے ہیں‘ بندے ماترم ان کا تو ترانہ ہے. ۱۹۷۱ء میں ان کے انگریز عسکری تجزیہ کار نے کہا تھا : 

This is the chance of the century, grab the chance!

یعنی یہ تو اس صدی کا بہترین موقع ہے ‘اس موقع سے فائدہ اٹھاؤ اور فوراً مشرقی پاکستان کے اندرداخل ہو جاؤ! اور آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان دولخت ہو گیا تھا‘ بدترین شکست کا ٹیکہ آج تک ہماری پیشانی پر ہے. ہمارے ترانوے ہزار افراد ہندو کے قیدی بنے‘ جن میں غالباً۵۳ ہزار فوجیوں کی تعداد تھی ‘ باقی چالیس ہزار سویلین تھے. جن ہندوؤں پر ہم نے تقریباً ایک ہزار برس حکومت کی تھی‘ وہ ہماری فوج کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹرکوں میں لاد کر لے گئے ‘جیسا کہ ڈیرہ غازی خان سے لاہور میں ذبح ہونے کے لیے ٹرکوں میں لاد کر بھیڑ بکریاں لائی جاتی ہیں. یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کا ایک کوڑا تھا‘ لیکن میرے نزدیک یہ بعینہٖ سورۃ السجدۃ کی آیت والا معاملہ ہے : 

وَ لَنُذِیۡقَنَّہُمۡ مِّنَ الۡعَذَابِ الۡاَدۡنٰی دُوۡنَ الۡعَذَابِ الۡاَکۡبَرِ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ ﴿۲۱
’’اور ہم انہیں چھوٹے عذاب کا مزہ چکھائیں گے بڑے عذاب سے پہلے ‘شاید یہ لوٹ آئیں (ہوش میں آ جائیں‘جاگ جائیں) .‘‘

لیکن ہم ان عذابوں کے بعد بھی ہوش میں نہیں آئے. ہمارے وہی لیل و نہار‘ وہی صبح و شام‘ وہی سارا جھوٹ‘ مکر وفریب‘ وہی لوٹ مار‘ وہی رشوت‘ وہی کمیشن‘ وہی سب کچھ‘ جس کامیں تذکرہ کر چکا ہوں. 

اب حالات یہ ہیں کہ یہ معاملہ دو طرفہ ہو گیا ہے .ایک طرف ہندوستان کو نظر آ رہا ہے کہ اب پھر پاکستان میں خلفشار ہے‘ اِدھر شمال میں ولی خان کا بیٹا حکومت میں ہے‘ جس کے داداخان عبدالغفار خان نے پاکستان میں دفن ہونا بھی قبول نہیں کیا. اُدھر جنوب میں الطاف حسین کی حکومت ہے جو دلی میں کہہ کر آیا ہے کہ ہندوستان کی تقسیم میں بہت بڑی غلطی تھی.بلکہ میں نے ایک ٹی وی مکالمے میں ان کے ایک قریبی ساتھی اور ایم کیو ایم کے لیڈر کا بیان سنا ‘وہ کہہ رہے تھے کہ بلوچستان میں علیحدگی پسند جو کچھ کر رہے ہیں وہ ٹھیک ہے. ان حالات میں انڈیا پھر سے اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھ رہا ہے ‘کیونکہ اس وقت اس کو سب سے بڑی پشت پناہی مغرب کی حاصل ہے.