یہ بات بھی نوٹ کر لیں کہ ۱۹۶۷ء میں عربوں اور اسرائیلیوں کی جوجنگ ہوئی تھی اس میں مصر‘شام اور اردن کو شکست ہوئی اور یہودیوں نے اس فتح کا جشن پیرس میں منایا ‘جہاں بن گوریان نے تقریر میں کہا کہ ہمیں کسی عرب ملک سے کوئی اندیشہ نہیں ہے‘اندیشہ ہے تو صرف پاکستان سے.حالانکہ اُس وقت پاکستان ایٹمی طاقت نہیں بنا تھا اور اب تو پاکستان ایٹمی قوت بن چکا ہے اور وہ اسے اپنے لیے اور زیادہ خطرہ سمجھتے ہیں.

اب انہیں اندیشہ ہے کہ اگر مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخر ۃ کو گرایا گیا تو عالم اسلام میں طوفان آ جائے گا‘ لوگ اُٹھ کھڑے ہوں گے اور یہ جو مسلمانوں کی حکومتیں امریکہ کی کٹھ پتلیاں اور ان کے گھڑے کی مچھلیاں ہیں‘ ساری کی ساری اس طوفان کی نذر ہو جائیں گی‘ اور پھر ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار بنیاد پرستوں کے ہاتھ میں آجائیں .ان کے نزدیک مسئلے کا حل یہ ہے کہ یا تو پاکستان کو بالکل ختم کر دیا جائے‘ جیسا کہ ان کے think tanks کہتے رہتے ہیں کہ ۲۰۱۲ء یا ۲۰۲۰ء میں دنیا کے نقشے پر پاکستان نہیں ہو گا اور وہ اس کے نقشے بھی چھاپ رہے ہیں کہ پاکستان کی نئی تقسیم یہ ہو گی کہ صوبہ بلوچستان کو ایرانی بلوچستان سے ملا کر ایک آزاد گریٹر بلوچستان بنا دیا جائے گا‘ NWFP علیحدہ ہو جائے گا ‘وغیرہ وغیرہ. اس کا دوسرا حل وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی دانت توڑ کر اسے ہندوستان کے رحم و کرم پر ڈال دیا جائے . یہ منصوبہ ہے جس کے تحت ہمارے ہاں ا س وقت سوات اور وزیرستان وغیرہ کے علاقوں میں امن تباہ کیا جارہا ہے ‘ ہر طرف تباہی پھیلائی جا رہی ہے. یہ یاد رکھیں کہ اس میں دراندازی باہر سے ہو رہی ہے‘ دشمن کے ایجنٹ ہیں جو یہ کام کر رہے ہیں. وہ چاہتے ہیں کہ آگ زیادہ سے زیادہ بھڑک جائے اور نیٹو فورسز کے ہاتھ بہانہ آ جائے کہ وہ پاکستان میں داخل ہو کر اس کے نیوکلیئر نظام اور ایٹمی طاقت کو یا تو ختم کردیں یا کمزور کردیں اس حوالے سے امریکہ کی سابق وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس کا بیان نوٹ کریں (اب وہ تو چلی گئی ہے لیکن ان کے ہاں پالیسیاں اشخاص کے ساتھ متعلق نہیں ہوتیں‘ یہ تو ادارے ہوتے ہیں جو پالیسیاں بناتے ہیں اور وہ چلتی رہتی ہیں.) اس نے کہا تھا کہ پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ ہم اور بھارت مل کر کریں گے. اگر ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کا معاملہ خدانخواستہ ختم ہو جائے تو پھر ہم بھارت کے رحم و کرم پر ہوں گے. (اعاذنا اللّٰہُ مِن ذلک!)