اب سوال یہ ہے کہ اس کا علاج کیا ہے؟ اس کا جواب ایک لفظ میں دیا جا سکتا ہے اور وہ ہے ’’توبہ‘‘! یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ کوئی ہماری مدد نہیں کر سکتا اگر اللہ ہمارا ساتھ نہ دے اور کوئی ہم پر فتح حاصل نہیں کر سکتا اگر اللہ ہمارے ساتھ ہو. ازروئے الفاظِ قرآنی:

اِنۡ یَّنۡصُرۡکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ یَّخۡذُلۡکُمۡ فَمَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَنۡصُرُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِہٖ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۶۰﴾ (آل عمران)
’’(اے مسلمانو! ) اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آ سکے گا اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے (یعنی تمہاری مدد سے دست کش ہو جائے) تو پھر ایسا کون ہے جو تمہاری مدد کر سکے گا اس کے بعد؟ اور اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے ایمان والوں کو.‘‘

ہمارے ہاں کچھ لوگ چین کے اوپر بہت تکیہ کیے بیٹھے ہیں‘حالانکہ چین تو یہاں کے بنیاد پرستوں کا سب سے زیادہ دشمن ہے. اسے ان سے بہت خطرہ ہے‘کیونکہ اس کا بہت بڑا صوبہ سنکیانگ ہمارے قبائلی علاقوں کے ساتھ لگتا ہے . یہ صوبہ ایک زمانے میں عالم اسلام کا حصہ تھا. ہمارے طالب علمی کے دور میں دو علیحدہ علیحدہ ترکستان تھے: روسی ترکستان اور چینی ترکستان. اب روسی ترکستان کے اندر توپانچ چھ ریاستیں آزاد ہو گئی ہیں‘لیکن چینی ترکستان تو ابھی بھی چین کے زیر نگیں ہے. اقبال نے کہا تھا ؎

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک ِکاشغر!

اور یہ کاشغر چین کے صوبہ سنکیانگ میں ہے. لال مسجد کے معاملے میں چین نے بھی پرویزمشرف کی پیٹھ ٹھونکی تھی کہ تم نے بہت اچھا کیا ہے. اس لیے کہ اسلام سے سب ڈرتے ہیں‘ سب کو اندیشہ ہے کہ اگر کہیں اسلام کا نظام آ گیا تو سارے شیطانی نظام ختم ہو جائیں گے جیسے سورج کے طلوع ہونے کے بعد تاریکی ختم ہو جاتی ہے. لہذا ہمارے لیے راستہ صرف ایک ہے اور وہ توبہ کا راستہ ہے.

قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت تک منافقین کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا تھا. سورۃ التوبہ کے آنے کے بعد وہ دروازہ بند ہو گیا ‘ لیکن سورۃ الاحزاب کے نزول تک بھی ان کے لیے ایک دروازہ کھلا تھا اب بھی ایمان لے آؤ ‘ اب بھی بازآجاؤ ‘اب بھی شرارتیں چھوڑ دو ‘ اب بھی لوٹ آؤ ‘ اب بھی اللہ کی جناب میں رجوع کرو‘ اللہ معاف کر دے گا. یہ ابھی ۴ ہجری کے دور کی باتیں ہو رہی ہیں ‘یعنی ان کے لیے ابھی توبہ کا دروازہ کھلا ہے.سورۃ النساء میں منافقین کی سزا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِی الدَّرۡکِ الۡاَسۡفَلِ مِنَ النَّارِ ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لَہُمۡ نَصِیۡرًا ﴿۱۴۵﴾ۙ
’’یقینا منافقین آگ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے ‘اور تم نہ پاؤ گے ان کے لیے کوئی مددگار.‘‘

آگے ان منافقین کے لیے ایک رعایت کا ذکر ہے : اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا وَ اَصۡلَحُوۡا وَ اعۡتَصَمُوۡا بِاللّٰہِ وَ اَخۡلَصُوۡا دِیۡنَہُمۡ لِلّٰہِ ’’سوائے ان کے جو (i)توبہ کر لیں اور (ii) اپنی اصلاح کر لیں اور(iii)چمٹ جائیں اللہ کے ساتھ اور (iv)اور اپنی عبادات کو خالص کر لیں اللہ کے لیے‘‘. یعنی سیاسی نظام اس کے تابع کر لیں ‘ معاشی نظام اس کے تابع کر لیں اور معاشرتی اقدار اس کے تابع کر لیں. فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ؕ ’’تو پھر ایسے لوگ مؤمنین میں ہی شمار ہوں گے‘‘. وَ سَوۡفَ یُؤۡتِ اللّٰہُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿۱۴۶﴾ ’’اور پھر عنقریب اللہ تعالیٰ ان مؤمنین کو اجر عظیم عطا فرمائے گا‘‘ ہمارے سامنے بھی دونوں راستے کھلے ہوئے ہیں. اسی منافقت پر چلتے رہیں تو عذاب کے سزاوار بن جائیں یا پھر توبہ کر کے اجرعظیم کے مستحق بن جائیں جس کا وعدہ ہمارے سامنے موجود ہے.

اس کے بعد کی آیت بڑی عجیب ہے : مَا یَفۡعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمۡ ’’(اے لوگو! ذرا سوچو) اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا؟‘‘ اللہ (معاذ اللہ) ایذاپسند (sadist) نہیں ہے کہ تمہیں عذاب دے کر اسے لطف آئے اور مسرت و راحت ہو. اللہ کو تمہیں عذاب دے کر کیا لینا ہے؟ اِنۡ شَکَرۡتُمۡ وَ اٰمَنۡتُمۡ ؕ ’’اگر تم شکر اور ایمان کی روش اختیار کرو‘‘. وَ کَانَ اللّٰہُ شَاکِرًا عَلِیۡمًا ﴿۱۴۷﴾ ’’اوراللہ تعالیٰ بہت قدردان ہے اور سب کچھ جاننے والا ہے.‘‘