میں نے آغاز میں توبہ کے مراحل اور لوازم اجمالی طو رپر بیان کیے تھے. اب ذرا وضاحت کے ساتھ بیان کر رہا ہوں. توبہ کے تین مرحلے ہیں .پہلا مرحلہ انفرادی توبہ کا ہے. اگر انفرادی توبہ اللہ قبول کرلے تو الحمد للہ‘اور اگر اللہ کا عذاب ہم پر آنے والا ہے تووہ آئے گا‘ اس کو نہ میں روک سکتا ہوں نہ آپ روک سکتے ہیں. یروشلم تین دفعہ اجڑا ہے‘ برباد ہوا ہے‘ کون روک سکاہے؟ اسی طرح خانہ کعبہ خود مسلمانوں کے ہاتھوں دو دفعہ منہدم ہوا ہے ‘ایک دفعہ یزید کے زمانے میں اُمویوں کے ہاتھوں اور اس کے بعد عبدالملک کے زمانے میں حجاج بن یوسف کے ہاتھوں. یہ تاریخی حقائق ہیں. بہرکیف اگر اللہ ہمارے ساتھ خیر کا معاملہ کرے اور ہم اللہ کی خیر کو پکار سکیں‘ اللہ کی رحمت کو دعوت دے سکیں تو کرنے کا پہلا کام یہ ہے کہ اپنے دامن اخلاق کو رذائل سے پاک کریں. جھوٹ ‘وعدہ خلافی‘ غبن‘ دھوکہ‘ فریب‘ تہمتیں‘ سب سے اپنے آپ کو پاک کریں. دوسرا کام یہ ہے کہ پوری شریعت کی پابندی اپنے اوپر لازم کریں. ایسا نہ ہو کہ کچھ احکام ِشریعت تو مان لیے کہ نماز‘ روزہ‘ زکو ٰۃ اور حج کی حد تک تو شریعت قابل قبول ہے مگر سودی کاروبار کا کیا کریں کہ اس کے بغیر تو گزارا ممکن نہیں‘ اس کے بغیر تو کاروبار نہیں چلتا. یہودیوں کے اس طرز ِعمل (کہ کچھ احکام پر عمل کر لو اور کچھ کو چھوڑ دو) کے بارے میں قرآن نے فرمایا ہے:

اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ (البقرۃ:۸۵)
’’تو کیا تم کتاب (یعنی شریعت) کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک کو نہیں مانتے ؟ تو (سن لو) تم میں سے جو کوئی یہ کام کرے گا اُس کی سزا ا س کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی سوائے دنیا کی زندگی میں ذلت ور سوائی کے. اور قیامت کے روز وہ لوٹا دیے جائیں گے شدید ترین عذاب کی طرف .‘‘٭

اس آیت میں جو اخلاقی سبق (moral lesson) دیا جا رہا ہے وہ ابدی ہے اور جہاں بھی شریعت کے معاملے میں آدھا تیتر آدھا بٹیر کا سا طرزِ عمل اختیار کیا جائے گا ‘ تاویل عام کے اعتبار سے یہ سز ااُس پر منطبق ہوگی‘ چاہے یہ کام یہودی کریں یا مسلمان قرآن نے تو مکمل اطاعت کا حکم دیا ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ (البقرۃ:۲۰۸’’اے اہل ایمان! اسلام میں پورے کے پورے داخل ٭ یہ ایک بہت بڑی آفاقی سچائی (universal truth) بیان کر دی گئی ہے‘ جو آج اُمت ِمسلمہ پر صد فی صد منطبق ہو رہی ہے. آج ہمارا طرزِ عمل بھی یہی ہے کہ ہم پورے دین پر چلنے کو تیار نہیں ہیں. ہم میں سے ہر گروہ نے کوئی ایک شے اپنے لیے حلال کر لی ہے.

ملازمت پیشہ طبقہ رشوت کو اس بنیاد پر حلال سمجھے بیٹھا ہے کہ کیا کریں‘ اس کے بغیر گزارا نہیں ہوتا. کاروباری طبقہ کے نزدیک سود حلال ہے کہ اس کے بغیر کاروبار نہیں چلتا. یہاں تک کہ یہ جو طوائفیں ’’بازارِ حسن‘‘ سجا کر بیٹھی ہیں وہ بھی کہتی ہیں کہ کیا کریں‘ ہمارا یہ دھندا ہے‘ ہم بھی محنت کرتی ہیں‘ مشقت کرتی ہیں. ان کے ہاں بھی نیکی کا ایک تصورموجود ہے. چنانچہ محرم کے دنوں میں یہ اپنا دھندا بند کر دیتی ہیں ‘ سیاہ کپڑے پہنتی ہیں اور ماتمی جلوسوں کے ساتھ بھی نکلتی ہیں. ان میں سے بعض مزاروں پر دھمال بھی ڈالتی ہیں. ان کے ہاں اس طرح کے کام نیکی شمار ہوتے ہیں اور جسم فروشی کو یہ اپنی کاروباری مجبوری سمجھتی ہیں. چنانچہ ہمارے ہاں ہر طبقے میں نیکی اور بدی کا ایک امتزاج ہے. جبکہ اللہ تعالیٰ کا مطالبہ کلی اطاعت کا ہے ‘ جزوی اطاعت اس کے ہاں قبول نہیں کی جاتی ‘بلکہ الٹا منہ پر دے ماری جاتی ہے. آج اُمت ِمسلمہ عالمی سطح پر جس ذلت و رسوائی کا شکار ہے اس کی وجہ یہی جزوی اطاعت ہے کہ دین کے ایک حصے کو مانا جاتا ہے اور ایک حصے کو پاؤں تلے روند دیا جاتا ہے. اس طرز ِعمل کی پاداش میں آج ہم ’’ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ ‘‘ کا مصداق بن گئے ہیں اور ذلت و مسکنت ہم پر تھوپ دی گئی ہے. باقی رہ گیا قیامت کا معاملہ تو وہاں شدید ترین عذاب کی وعید ہے. اپنے طرزِ عمل سے تو ہم اُس کے مستحق ہو گئے ہیں‘ تاہم اللہ تعالیٰ کی رحمت دستگیری فرما لے تو اُس کا اختیار ہے. (اقتباس از : بیان القرآن ‘ڈاکٹر اسرار احمد‘ ج۱‘ ص ۱۹۰ہو جاؤ‘‘. یہاں یہ بھی ذہن نشین کر لیجیے کہ شریعت کے جس حکم پر عمل ہو سکتا ہو اور ہم نہ کریں تو مجرم ہم خود ہیں. یہاں ایسا کوئی آرڈیننس نافذ نہیں ہے کہ پردہ غیر قانونی ہے اور پردہ کرنے والی خواتین کو سزا دی جائے گی. یہ کام مصطفی کمال پاشا نے ضرور کیا تھا‘ شہنشاہِ ایران نے بھی کیا تھا ‘جبکہ ہمارے ہاں بھی پرویز مشرف آیا تھا مصطفی کمال پاشا کا نام لیتا ہوا لیکن اسے یہ جرأت نہیں ہوئی اور یہاں ایسا کوئی حکم نامہ نہیں آیا. اب بھی اگر ہم نے پردہ چھوڑا ہے تو خود چھوڑا ہے ‘لہذا مجرم بھی ہم خود ہیں. اسی طرح سود کا غبار اور دخان تو میرے اور آپ کے اندر جائے گا ہی‘ لیکن براہِ راست تو ملوث نہ ہوں. بینکوں میں رقم رکھ کر اس پر سود لے کر نہ کھائیں یا سود پر رقم لے کر کاروبار تو نہ چمکائیں. 

ان حالات میں کرنے کا تیسرا کام یہ ہے کہ اسلام کا نظام قائم کرنے کے لیے جدوجہد کا عزم مصمم اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ (الانعام) کی شان کے ساتھ کریں. یہ کام چونکہ اکیلے ہو نہیں سکتا اس لیے کسی نہ کسی جماعت میں شریک ہو کر جدوجہد کریں. اس کے بعد چوتھا کام یہ ہے کہ اللہ سے دعا مانگی جائے . اگر آپ ماقبل بیان کردہ تینوں کام یا ان میں سے کوئی ایک کام نہیں کرتے تو آپ کی دعا آپ کے منہ پر دے ماری جائے گی. اگر دعا کے تقاضے پورے نہ کیے جائیں تو اللہ تعالیٰ ایسی دعائیں سنتا ہی نہیں ہے . ایک کڑوی بات کہہ رہا ہوں کہ جب سقوطِ ڈھاکہ ہو رہا تھا تو حرمین میں رو رو کر لوگ دعائیں مانگ رہے تھے‘ یہاں پر چالیس دن تک قنوت نازلہ پڑھی گئی ‘ لیکن کیا سنی اللہ نے؟اللہ نے دعائیں ہمارے منہ پر دے ماریں کہ تم ہو کون؟ تم نے تومیرے دین کو اپنے پاؤں تلے روندا ہوا ہے‘ تمہاری دوستیاں شیطانوں اور میرے دشمنوں کے ساتھ ہیں. میں نے حکم دیا تھا : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡکٰفِرِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَؕ (النساء:۱۴۴’’اے ایمان والو! مؤمنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست مت بنانا‘‘. اور یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡیَہُوۡدَ وَ النَّصٰرٰۤی اَوۡلِیَآءَ ۘؔ (المائدۃ:۵۱’’اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنے دوست مت بناؤ ‘‘. جبکہ ہماری دوستیاں تو ان ہی کے ساتھ ہیں.اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے کا نتیجہ بھی بتایاہے : لَا یَتَّخِذِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡکٰفِرِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ فَلَیۡسَ مِنَ اللّٰہِ فِیۡ شَیۡءٍ(آل عمران:۲۸’’اہل ایمان نہ بنائیں کافروں کو اپنے دوست اہل ایمان کو چھوڑ کر‘ اور جو کوئی بھی یہ حرکت کرے گا تو پھر اللہ کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں رہے گا‘‘. اب ہماری دوستیاں اللہ کے دشمنوں کے ساتھ ہیں ‘ لہذا ہمارا اللہ سے کوئی رشتہ و تعلق نہیں رہا. 

اللہ تعالیٰ کے ہاں دعا قبول ہو سکتی ہے اگر تم توبہ کر لو ‘خالص توبہ! توبہ کی وہ چار شرائط پوری ہوں جو میں گنوا چکا ہوں. سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کو اپنے کیے پر پچھتاوا ہوکہ ہماری زندگی غلط کاموں میں گزر گئی ہے‘ ہم بھول گئے ہیں ‘ہم نے پاکستان کے قیام کے مقصد کو پیش نظر نہیں رکھا ‘ ہم نے زیادہ سے زیادہ کمالینا زیادہ سے زیادہ کھا لینا اور عیش و عشرت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا‘ اے اللہ ہمیں بخش دے‘ ہمیں معاف کر دے ‘ ہمیں مہلت عطا کر دے!