کیا عجب اللہ ہماری اجتماعی توبہ قبول کر لے!

اس اعتبار سے کیا عجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہماری اجتماعی توبہ کے قبول ہونے کا سامان پیدا ہو جائے. میں عرض کر چکا ہوں کہ پاکستان معجزے سے بنا تھااور دو مرتبہ معجزوں سے بچا بھی ہے. ۱۹۶۵ء میں تو ہندو فوج نے ہمارے جم خانہ کلب میں شام کو شراب پینے کا پروگرام بنا رکھا تھا. لندن میں موجود میرے بھائی ڈاکٹر ابصار احمد کا مجھے فون آیا تھا کہ بی بی سی ٹی وی نے دکھایا ہے کہ بھارت نے لاہور فتح کرلیاہے اور بھارتی فوج لاہور میں داخل ہو گئی ہے. ہوا یوں تھا کہ ہمارے ہاں ڈبل ڈیکر بسیں ہوا کرتی تھیں جبکہ انڈیا میں نہیں تھیں. ہندو افواج واہگہ کے قریب سے دوچار بسیں قبضے میں کر کے لے گئے تھے اور انہیں اپنی سڑکوں پر چلا کر دکھا دیاکہ یہ لاہور ہے اور لاہور اس وقت ہمارے قبضے میں ہے . اُس وقت ہماری طرف سے کوئی مزاحمت تھی ہی نہیں. وہ تو اللہ تعالیٰ کا کرم ہوا اور سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ (الانفال:۱۲’’میں ان کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا‘‘کے مصداق اُن کے دلوں میں ایسا رُعب پڑا کہ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ہمیں کوئی روک ہی نہیں رہا‘ شاید ہمیں گھیرے میں لیا جا رہا ہے اور وہ اسی سوچ بچار میں تھے کہ ہماری فوج وہاں پہنچ گئی.یعنی اس وقت بھی اللہ نے معجزے سے بچایا .

اسی طرح ۱۹۷۱ء میں اللہ تعالیٰ نے بچایا. ۱۹۷۱ء میں سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھارت کو مغربی پاکستان پر قبضہ جمانے کے لیے زیادہ سے زیادہ چھ دن درکار تھے. اُس وقت ہمارا مورال پاتال میں اور ان کا مورال آسمان پر تھا. ہمارا سیالکوٹ سیکٹر ٹوٹ چکا تھا‘ راجستھان سیکٹر ٹوٹ چکا تھا‘ صرف ٹکا خان سلیمانکی ہیڈورکس پر ایک ٹاسک فورس لے کر بیٹھا ہوا تھا .ہماری ایئر فورس انہوں نے مفلوج کر دی تھی‘ اس لیے کہ روس نے ان کو آواکس قسم کے ہیلی کاپٹر دے دیے تھے کہ ہمارا جہاز جہاں ذرا بھی حرکت کرتا انہیں معلوم ہو جاتا تھا. ہمارے بحری جہاز کو وہ کیماڑی میں آ کر مار گئے تھے. یہاں پھر اللہ تعالیٰ کی اسی مشیت کا ظہور ہوا‘جو حدیث میں بیان ہوئی ہے. حضور نے فرمایا:

اِنَّ قُلُوْبَ بَنِیْ آدَمَ کُلَّھَا بَیْنَ اِصْبَعَیْنِ مِنْ اَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ کَقَلْبٍ وَاحِدٍ یُصَرِّفُـہٗ حَیْثُ یَشَاءُ (۱)
’’تمام انسانوں کے دل رحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں ایک دل کی مانند اللہ جدھر چاہتا ہے‘ انہیں پھیر دیتا ہے .‘‘٭

اللہ تعالیٰ نے اُس وقت نکسن کے دل کو پھیرا اور اُس نے ہاٹ لائن پر کوسیجن کو فون کیا جس نے ہاٹ لائن پر اندرا گاندھی کو فون کیا اور کہا بس‘ اب ختم کرو! تو اس طرح انڈیا نے یک طرفہ طور پر جنگ بندی کر دی. اگر نکسن خاموش بیٹھا رہتا تو پاکستان ختم ہو جاتا. تو یاد رکھیے کہ اللہ نے پاکستان کو معجزے سے بنایا اور دو مرتبہ معجزہ سے ہی بچایا. اب بھی معجزہ ہو سکتا ہے . اللہ کی قدرت ختم تو نہیں ہو گئی. اللہ تعالیٰ کی قدرت توانا ہے‘ وہ جو چاہے کرے. ہاں اس کی رحمت کو پکارنے کا طریقہ‘ میں نے آپ کو تفصیل سے بتا دیا ہے . (۱) صحیح مسلم‘ کتاب القدر‘ باب تصریف اللّٰہ تعالیٰ القلوب کیف یشاء.

٭ اس حدیث کے آخر میں ایک دعا بھی موجود ہے : اَللّٰھُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوْبِ صَرِّفْ قُلُوْبَنَا عَلٰی طَاعَتِکَ ’’اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی طاعت کی طرف پھیر دے.‘‘ (مرتب) عذاب کے آثار نمودار ہو جانے کے بعد بھی اجتماعی توبہ کے قبول ہونے کی مثال تاریخ میں ملتی ہے. حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کے ساتھ ایسا ہوچکا ہے . حضرت یونس ؑ دجلہ اور فرات کے درمیان کسی شہر میں بھیجے گئے‘ قوم نے آپؑ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کیا تو حضرت یونس علیہ السلام مایوس ہو گئے اور انہیں یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ اب عذابِ الٰہی تو آ کر رہے گا ‘ لیکن اللہ کی طرف سے آپؑ کو وہاں سے جانے کی ابھی اجازت نہیں ہوئی تھی‘ آپؑ اپنی حمیت حق کے جوش میں کہ لوگ مان نہیں رہے‘ قوم کو چھوڑ کر چلے گئے. اس کا ایک فائدہ اللہ نے قوم کو دے دیا.

جب قوم نے عذاب کے آثار دیکھے تو وہ گھروں سے نکل آئی اور انہوں نے جان لیا کہ یونس علیہ السلام جس عذاب سے ڈراتے تھے وہ اب آ گیا ہے. وہ چلائے‘ چیخے‘ روئے کہ اے اللہ ہماری توبہ قبول کر لے !تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی. لیکن یہ نوع انسانی کی تاریخ میں ایک ہی دفعہ ہوا ہے. سورۂ یونس (آیت ۹۸) میں اس کا ذکر موجود ہے : فَلَوۡ لَا کَانَتۡ قَرۡیَۃٌ اٰمَنَتۡ فَنَفَعَہَاۤ اِیۡمَانُہَاۤ اِلَّا قَوۡمَ یُوۡنُسَ ؕ یہاں ’’بعد ظھورالعذاب‘‘ کے الفاظ محذوف ہیں. اس کا ترجمہ اس طرح ہو گا: ’’کیا ایسی کوئی مثال ہے کہ ایک بستی (عذاب کے ظاہر ہونے کے بعد) ایمان لائی ہو اور اس کے ایمان نے اس کو فائدہ دیا ہو سوائے یونس کی قوم کے‘‘. لَمَّاۤ اٰمَنُوۡا کَشَفۡنَا عَنۡہُمۡ عَذَابَ الۡخِزۡیِ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ مَتَّعۡنٰہُمۡ اِلٰی حِیۡنٍ ﴿۹۸﴾ ’’جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ان پر دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ہٹا دیا اور ان کو ایک خاص مدت کے لیے مہلت دے دی‘‘. عذاب کے آثار ظاہر ہونے کے بعد ایمان لانا اللہ کو قبول نہیں ہے لیکن اس میں استثناء ہے قوم یونس کا. ان پر عذاب کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے‘ لیکن انہوں نے اجتماعی توبہ کی تو اللہ نے ان کی توبہ کو قبول کر لیا ‘ عذاب کو ٹال دیا اور ان کو کچھ مہلت دے دی اللہ تعالیٰ ہمیں بھی مہلت دے سکتا ہے ‘لیکن اس مہلت کا فائدہ اگر میں اور آپ نہیں اٹھاتے‘ اگر کمر نہیں کستے‘ اگر اللہ کے دین کے غلبہ و سربلندی کے لیے جدوجہد کو اپنی زندگی کا مقصود نہیں بناتے تو پھر ہمارے لیے افسوس اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہو گا.