خطبۂ منسونہ، تلاوتِ آیات اورادعیہ ماثورہ کے بعد فرمایا:

حضرات… ہم ہر روز ہر نماز میں سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے ساتھ یہ دعا مانگتے ہیں کہ 
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۙ۬ ’’(اے اللہ) ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا‘‘. سوال یہ ہے کہ وہ لوگ کون ہیں جن پر اللہ کا انعام ہوا. اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہمیں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں. قرآن نے خود اس کا جواب دیا. سورۃ النساء میں ارشادِ رب العالمین ہے: 

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ﴿ؕ۶۹﴾ 

’’جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے‘یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین. کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں.‘‘ 

اس آیۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انعام یافتہ بندوں کو چار گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے. سب سے بلند مقام انبیاء کرام ؑ کا ہے. اس میں کسی کی کوشش کا کوئی دخل نہیں. اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمتِ بالغہ کے تحت جسے چاہا ‘اس مقام پر سرفراز فرما دیا. اس کے بعد اہلِ ایمان کے تین درجے متعین کیے گئے ہیں. جن کے نام قرآن نے صدیقین‘شہداء اور صالحین بیان کیے ہیں. انسان اللہ اور رسول کی اطاعت میں ترقی کرتے کرتے ان مقامات کو حاصل کر سکتا ہے.