پہلی بنیادی بات یہ جان لیجئے کہ انسانیت کا اعلیٰ جو ہر دونوں مزاجوں کے افراد میں موجود ہوتا ہے لیکن مزاج اور افتادِ طبع کے اس فرق کی وجہ سے ان کی صلاحیتیں دو مختلف سمتوں میں ظہور کرتی ہیں. یہ دورخ کیا ہیں‘ان کو سمجھئے. دونوں یکساں طور پر ذہین و فطین ہو سکتے ہیں. لیکن ایک ذہانت و فطانت خارج کی طرف زیادہ متوجہ ہو گی اور دوسرے کی ذہانت و فطانت اپنے باطن کی طرف زیادہ متوجہ ہو گی. اس فرق کی وجہ سے ایسا محسوس ہو گا کہ ایک کو حقائق سے کوئی مناسبت نہیں‘وہ خارج اور مظاہر کی دنیا ہی میں مگن ہے‘جبکہ دوسرا باطنی حقائق پر توجہات کو مرکوز کیے بیٹھا ہے. دوسرا بنیادی فرق یہ ہو گا کہ حساس تو دونوں ہوں گے‘لیکن ایک حساس ہو گا اپنی عزتِ نفس کے بارے میں کہ میری توہین تو نہیں کر گیا! کسی نے مجھے تحقیر کی نگاہ سے تو نہیں دیکھ لیا! کسی نے میری عزتِ نفس کو ٹھیس تو نہیں پہنچا دی‘جبکہ اسی حساسیت کا ظہور دوسرے میں اس طرح ہو گا کہ مجھ سے کسی کو تکلیف تو نہیں پہنچ رہی! میں نے کسی کا دل تو نہیں دکھا دیا! کسی کو تکلیف میں دیکھ کر وہ تڑپ اٹھے گا. بقولِ امیر مینائی ؎

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

دوسرے کو اپنے درد کا احساس تو خوب ہو رہا ہے‘لیکن دوسروں کے درد کا احساس نہیں ہو رہا. اپنی ذات کی طرف اس کی توجہ زیادہ ہے گویا ؏ 

’’اپنے ہی حسن کا دیوانہ بنا پھرتا ہوں میں‘‘ 

اس کی نگاہ دوسروں کے احساسات کی بہ نسبت اپنی ذات کی طرف زیادہ ہے. حساس دونوں ہوں گے… نتیجہ کیا نکلے گا کہ ایک مزاج میں خلقِ خدا کے لیے شفقت‘رحمت‘رأفت ہو گی جبکہ دوسرے کے مزاج میں شدت‘سختی اور غصہ ہو گا. دوسری بات یہ جان لیجئے کہ ایک کے غور و فکر کا انداز حکیمانہ اور فلسفیانہ ہو گا‘اس کے قوائے ذہنی زیادہ چاق و چوبند ہوں گے‘لہذا اس کی سوچ مرتب ہو گی اور کسی نہ کسی نتیجہ پر پہنچے گی‘جبکہ دوسرے کے قوائے عملیہ زیادہ چاق و چوبند ہوں گے‘وہ متحرک و فعال انسان ہو گا‘بھاگ دوڑ میں آ گے نکلے گا.

آخری بات یہ ہے کہ شجاعت دونوں میں ہو گی کیونکہ یہ بنیادی انسانی اوصاف میں سے ایک اعلیٰ وصف ہے اور میں عرض کر چکا ہوں کہ بنیادی انسانی جو ہر دونوں میں مشترکہ طور پر ہوتے ہیں. یہ نہ ہوں گے تو انسان نچلی سطح پر رہے گا‘اوپر نہ اٹھ سکے گا. یعنی صالحیت سے درجہ شہادت اور صدیقیت کی طرف ترقی نہ کر سکے گا. البتہ ایک کی شجاعت ظاہر و باہر ہو گی‘نمایاں نظر آئے گی.دوسرے کی شجاعت چھپی رہے گی‘کبھی وقت آ گیا تو ظاہر ہو جائے گی.

اُدھر کے سارے اوصاف جمع کر لیجئے‘یہ لوگ جن کی توجہ خارج کی طرف زیادہ ہے‘ ان کا مزاج شہداء کا ہے. اور اِدھر کے سارے اوصاف جمع کر لیجئے‘یہ مزاج صدیقین کا ہے. مختصر طور پر صحابہ کرامؓ میں سے ایک طرف رکھئے حضرت ابوبکرصدیقؓ اور حضرت عثمان غنیؓ ‘کو. یہ درجہ‘صدّیقینؓ کے نمایاں ترین افراد ہیں. یہ میں مَردوں کا ذکر کر رہا ہوں. حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا معاملہ ہے کہ ایک تو وہؓ خاتون ہیں‘دوسرے یہ کہ ہم مسلمانوں کی یہ بڑی کوتاہی ہے کہ انؓ کی سیرت کے بارے میں بہت کم تفاصیل بیان کی جاتی ہیں. ورنہ میرے نزدیک مَردوں میں جس مقام پر حضرت ابوبکرؓ ہیں یعنی 
’’الصّدیق الاکبر‘‘ اسی طرح خواتین میں سے حضرت خدیجہؓ ‘کا مقام یہ ہے کہ وہ ’’الصّدیقۃ الکبریٰ‘‘ ہیں. صحابہ کرامؓ اور صحابیاتؓ میں یہ دونوںؓ بالکل متوازی شخصیتیں ہیں. اُدھر دوسری طرف حضرت حمزہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہماہیں. درجہ شہداء میں یہ دونوں حضراتؓ نمایاں ترین ہیں. بنیادی انسانی جو ہر ان چاروں اصحاب (رضوان اللہ علیہم اجمعین) میں موجود ہے‘لیکن فرق ملاحظہ کیجئے. حضرات حمزہؓ و عمرؓ ‘کی اس طرف توجہ ہی نہیں ہوئی کہ غور کریں کہ جناب محمدٌ رسول اللہ کیا کہہ رہے ہیں!… مکہ کی چھوٹی سی بستی ہے‘وہیں حضور دعوت دے رہے ہیں. دن رات آپؐاسی دھن میں ہیں. گھر گھر میں کشمکش ہو رہی ہے لیکن ان دونوں کی کوئی توجہ ہی اس جانب نہیں ہے. پھر یہ کہ دونوںؓ نہایت شجاع ہیں‘فنونِ حرب میں انؓ ‘کا نمایاں مقام ہے.

ایک کا مشغلہ ہے سیرو شکار. حضرت اسماعیل علیہ السلام شخصیت کی کوئی جھلک اگر آپ کو صحابہ کرامؓ میں دیکھنی ہو تو وہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں. اور ایک کے مزاج میں پہلوانی ہے. حضرت عمرؓ بڑے پہلوان تھے‘باقاعدہ پہلوان. میں یہ لفظ صرف استعارہ کے طور پر استعمال نہیں کر رہا. عکاظ کے میلے جب ہوتے تھے تو ان میں حضرت عمرؓ باقاعدہ اپنی پہلوانی کا مظاہرہ کیا کرتے تھے‘چیلنج دے کر کشتیاں لڑتے تھے. حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کی اگر کوئی جھلک آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں دیکھنی ہو تو وہ آپ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں نظر آئے گی. حضرت موسی ٰ ؑ نے قبطی کے ایسا گھونسا رسید کیا تھا کہ وہ دنیا سے کوچ کر گیا.

دونوں کی دلچسپی انہی چیزوں کی طرف ہے. اپنے مشاغل میں مگن ہیں. کبھی سوچا ہی نہیں کہ مکہ میں جو کشمکش ہو رہی ہے تو یہ معاملہ کیا ہے! یہ دعوت کیا ہے! اس کے دلائل کیا ہیں! اسے قبول کریں یا رد کریں! یہ دونوں کا مزاج ہے .یہی وجہ ہے کہ دونوں حضرات جذباتی طور پر متاثر ہوئے اور جذباتی انداز میں اسلام قبول کیا. اور دونوں کے ایمان لانے کے واقعات اتنے مشہور ہیں کہ یہاں اعادے کی حاجت نہیں. جبکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما‘دونوں نہایت سلیم الفطرت‘نہایت نرم طبیعت‘لوگوں کے حق میں نہایت رحیم و شفیق‘لوگوں کے کام آنے والے اور شرک سے پہلے ہی سے اجتناب کرنے والے تھے. نہ سیّئات انؓ کی زندگی میں‘نہ منکرات انؓ ‘ کی زندگی میں‘نہ شرک ان کی زندگی میں‘نہ بت پرستی ان کی زندگی میں‘نہ ان کی طبیعتوں میں سختی اور نہ غصہ‘گویا دونوں بزرگوں میں نورِ فطرت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ پہلے سے ہی موجود تھا. اس پر نورِ وحی کا فیضان جب نبی اکرم کے ذریعے ہوا تو نورٌ علیٰ نور کا معاملہ ہو گیا. سونا تو پہلے سے تھا‘لیکن خام تھا‘اب وہ کٹھالی میں پڑ کر زرِ خالص بن گیا. یہ ہیں صدّیقین کی دو اعلیٰ ترین مثالیں. مزاجوں کے فرق کاجو تقابل اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے آیا ہے‘اس سے مجھے امید ہے کہ آپ کو صحابہ کرامؓ کے مزاجوں اور سیرت و کردار کے بارے میں ایک باطنی بصیرت حاصل ہو گئی ہو گی.

حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ کے مزاجوں میں جو فعالیت تھی اس کا مظہر کس طور سے سامنے آیا! جب یہ دونوں حضرات ۶ نبویؐ میں ایمان لائے تو اس وقت مسلمان دبے ہوئے تھے‘چھپ چھپ کر عبادت کر رہے تھے. اپنے ایمان کا اظہار کرنا ان کے لیے مشکل تھا‘لیکن ان دونوںؓ کے ایمان لانے سے صورت حال بدل گئی. مسلمانوں کے اندر اعتماد پیدا ہو گیا‘ان کا حوصلہ بڑھ گیا. اب مکہ کی گلیوں میں نعرے بھی لگ رہے ہیں‘بیت اللہ کے صحن میں آ کر برملا نماز بھی ادا کی جا رہی ہے. یہ ساری صورت حال جو بدلی ہے تو اس میں ان دونوںؓ کے ایمان لانے کو فیصلہ کن دخل تھا.