اصل موضوع کی طرف آنے سے پہلے تین بنیادی امور کو سمجھ لیجئے. پہلی بات یہ ہے کہ شہید‘شاہد‘شہادت اور شہداء کے الفاظ قرآن مجید میں بکثرت استعمال ہوئے ہیں. کارِ رسالت کے ساتھ ان کا بڑا گہرا تعلق ہے. اگرچہ ہم عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ جو اللہ کی راہ میں قتل ہو گیا‘ وہ شہید ہے‘لیکن قرآن مجید میں اس مفہوم میں یہ لفظ کہیں استعمال نہیں ہوا. صرف ایک مقام پر یہ مفہوم لینے کی گنجائش ہے. قرآن میں جب بھی شہید‘شاہد یا شہادت کے الفاظ آتے ہیں تو اکثر ان کا استعمال کارِ رسالت کی ادائیگی کے معنی میں ہوتا ہے. یعنی حق کی گواہی دینا‘لوگوں پر حق کو اس طرح کھول کر بیان کر دینا کہ اس کے پاس کوئی عذر نہ رہے‘اتمامِ حجت کر دینا. اس معنی میں اس امت کو ’’ شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ‘‘ قرار دیا گیا. سورۂ بقرہ میں فرمایا:

﴿وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ﴾ (آیت ۱۴۳
’’اور ہم نے اس طرح تمہیں ایک بہترین اور درمیانی اُمت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ اور اللہ کے رسول ( ) تم پرگواہ بن جائیں‘‘.

یہی مضمون سورۃ الحج کے آخر میں عکسی ترتیب سے آیا: 
﴿ لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚۖ ﴾. (آیت ۷۸اسی معنی میں یہ لفظ سورۂ احزاب میں نبی اکرم کی شان میں آیا ہے: ﴿یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿ۙ۴۵﴾﴾ اور اسی معنی میں یہ لفظ سورۃ المزمل کی اس آیت میں آیا ہے: ﴿اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا ۬ۙ شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا ﴿ؕ۱۵﴾﴾ 
دوسری بات یہ کہ اللہ کی راہ میں قتل ہو کر مرتبہ شہادت حاصل کرنا ایک الگ معاملہ ہے. اسے شہید اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اس نے حق کی خاطر جان دے کر گویا دینِ حق کی گواہی اور شہادت دینے کا حق ادا کر دیا. تاہم جو شخص مزاجاً شہید یعنی دین کی دعوت اور اقامت کے کام میں فعال ہو اور اللہ کی راہ میں قتل بھی ہو جائے تو یہ نورٌ علیٰ نور والا معاملہ ہے‘لیکن ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مزاجاً شہید ہو‘لیکن اسے طبعی موت نصیب ہو.

ایک ایسا شخص جو کارِ رسالت کی ادائیگی میں نہایت چاق و چوبند ہے‘تبلیغ دین میں نبی اکرم کا دست و بازو بنا ہوا ہے‘بڑی جرأت و ہمت کے ساتھ دین کے کام میں لگا ہوا ہے‘پوری قوت کے ساتھ اس نے دین کے کام کو آگے بڑھایا ہے. گویا یہ مزاجاً تو شہداء میں سے ہے‘چاہے اسے اللہ کی راہ میں قتل ہو جانا نصیب ہو یا نہ ہو. جیسے آپ کو معلوم ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کتنی جنگیں لڑیں! کتنے زخم کھائے! لیکن اللہ کی راہ میں قتل ہو نا‘ ان کے نصیب میں نہیں تھا. اس کے برعکس ایک مثال حضرت عثمانؓ کی ہے. میں عرض کر چکا ہوں کہ ان کا مزاج صدّیقین کاتھا لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں شہادت کی موت بھی عطا فرمائی تو اس طرح بھی ان میں گویا دو نور جمع ہو گئے. انؓ ‘کو ’’ذوالنورین‘‘ اصلاً تو اس لیے کہا جاتا ہے کہ نبی اکرم کی دولختِ جگر یکے بعد دیگرے انؓ کے حبالۂ عقد میں آئیں‘لیکن آپؓ ‘ کا ذوالنورین ہونا دیگر بہت سے پہلوؤں کے باعث بھی تھا. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مزاجاً صدیق تھے‘ان ‘ؓ کو طبعی موت آئی. تاہم مقام و مرتبے کے اعتبار سے وہ شہداء سے بلند ہیں‘اس لیے کہ وہ مرتبہ ٔ صدیقیت پر فائز ہیں. حاصلِ کلام کے طور پر یہ بات نوٹ کر لیجئے کہ لفظ شہادت کا بڑا گہرا تعلق کارِ رسالت اور تبلیغِ دین کے ساتھ ہے.