’’صِدِّیقًا نَبِیًّا‘‘ اور ’’رَسُولًا نَبِیًّا‘‘

انبیاء و رسل علیہم السلام کی مقدس جماعت میں بھی آپ دیکھیں گے کہ بعض کا مزاج شہداء کا ہے اور بعض صدیقین کا مزاج رکھتے ہیں. ذہن میں رکھئے کہ شہید سے یہاں میری مراد مقتول فی سبیل اللہ نہیں ہے. میری پوری گفتگو انسانی مزاج کے حوالے سے ہو رہی ہے. بعض کے مزاج میں وہ کیفیات ہوں گی جو مثلاً صحابہ کرامؓ میں سے آپ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عثمانؓ کے مزاج میں پاتے ہیں. بعض انبیاء و رسل ؑ کے مزاج میں آپ کو وہ کیفیات نظر آئیں گی جو مثلاً آپ حضرت عمرؓ اور حضرت حمزہؓ میں دیکھتے ہیں. قرآن مجید میں کئی مقامات پر نبیوں کے ناموں کے گلدستے آپ کو ملیں گے. سورۂ مریم میں بھی ایک ایسا ہی گلدستہ ہے. وہاں دو نبیوں کی تعریف ان الفاظ میں آئی: ’’صِدِّیقًانَبِیًّا‘‘. یہ ہیں حضرت ابراہیم اور حضرت ادریس علیہما السلام‘ان دونوں پر صدیقیت کا رنگ غالب ہے. دو نوں کے متعلق فرمایا: ’’رَسُولًا نَبِیًّا‘‘. یہ ہیں حضرت موسیٰ اور حضرت اسماعیل علیہما السلام.

وہی جن کا ذکر میں کر چکا ہوں کہ اگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کا نقشہ صحابہؓ ‘میں دیکھنا ہو تو اس کی جھلک حضرت حمزہؓ میں اور حضرت موسی ٰ ؑ کا نقشہ دیکھنا ہو تو اس کا عکس حضرت عمر فاروق ؓ ‘کی شخصیت میں نظر آتا ہے… حضرت اسماعیل ؑ کے متعلق آپ نے پڑھا ہو گا کہ کنعان (فلسطین) سے چل کر کئی بار حضرت ابراہیم ؑ اپنے بیٹے سے ملنے مکہ مکرمہ تشریف لائے‘لیکن بیٹا شکار کے لیے نکلا ہوا ہے… کئی دن تک منتظر رہے‘مگر بیٹا آیا ہی نہیں. کچھ پیغام چھوڑ کر بغیر ملے واپس چلے گئے. ایسے ہی حضرت حمزہؓ کے بارے میں آتا ہے کہ تیر و کمان اور تلوار لے کر نکل گئے اور صحرا کے اندر کئی کئی دن شکار میں مشغول ہیں. یہ ان کا ذوق تھا. یہ بات میں عرض کر چکا ہوں کہ مفہوم کے اعتبار سے کارِ رسالت کی مناسبت لفظِ شہادت کے ساتھ ہے. چنانچہ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ اپنے مزاج کے اعتبار سے شہداء کی صف میں آتے ہیں‘لہذا ان کا ذکر ’’رَسُولًا نَبِیًّا‘‘ کے الفاظ سے ہوا. 
یہیں یہ بات نوٹ کر لیجئے کہ نبوت و رسالت جو منعم علیہم کے مراتب کا بلند ترین رتبہ اور درجہ ہے‘وہ خواتین کے لیے نہیں ہے. یہ ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے صرف مردوں کے لیے رکھی ہے. خواتین کے لیے اعلیٰ ترین درجہ صدیقیت ہے. چنانچہ حضرت مریم کے لیے قرآن میں یہی لفظ آیا ہے کہ 
’’وَاُ مُّـہٗ صِدِّیقَـۃٌ‘‘ حضرت عیسیٰ ؑکی والدہ صدیقہ تھیں.